مودی حکومت کے دعوے اور ان کی زمینی حقیقت پر اسپیشل سیریز: نومبر 2018 تک حکومت نے 1882708 لوگوں کو اس اسکیم کے تحت امدادی رقم دینے کے لئے 1655.83 کروڑ روپے جاری کئے۔ لیکن، اس امدادی رقم کو تقسیم کرنے کے لئے حکومت نے 6966 کروڑ روپے خرچ کر دیے۔
نئی دہلی: اگر سرکاری اسکیموں کی عمل آوری کے عمل کو سمجھنا ہو اور یہ جاننا ہو کہ آخر کیوں کوئی سرکاری اسکیم اپنے ہدف سے بھٹک جاتی ہے تو آپ کو پردھان منتری ماتر وندنا یوجنا کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ویسے تو یہ اسکیم بھی پرانی ہے، جس کا بس نام بدل دیا گیا ہے، لیکن اس کی عمل آوری جس طریقے سے ہوئی ہے، اس کو دیکھکر یہی کہا جا سکتا ہے کہ مدد چونی کی ہے لیکن مدد دینے کا خرچا روپیہ رہا ہے۔ اس حقیقت کویہاں ہم تفصیل سے بتائیںگے۔ فی الحال، اس اسکیم کے خاکہ پر بات کرلیتے ہیں۔آزادی کے 70 سال بعد بھی خواتین کے درمیان غذائی قلت، حمل کے دوران خون کی کمی جیسے مسائل عام ہیں۔ ظاہر ہے، ایک خاتون جو غذائی قلت کا شکار ہے، اس کے ایک ناقص غذائیت سے متاثر بچے کو جنم دینے کا زیادہ امکان رہتا ہے۔
غذائی قلت ایک ایسی بیماری ہے جو حمل میں شروع ہونے کے بعد تاحیات آدمی کو ستاتی رہتی ہے، کیونکہ کئی علامات ایسی ہیں جو کبھی بھی پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہو سکتیں۔80 کی دہائی سے ہی حکومت ہند نے اس مسئلہ کی پہچان کرنی شروع کی۔ خاص طور پر، بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین، غریب خواتین اور ان آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین کے درمیان اس کی پہچان کی گئی۔اس ملک گیر مسئلہ کو دیکھتے ہوئے زچگی کو لے کر اسکیم شروع کی گئی۔ اس اسکیم کے تحت حاملہ خواتین کو دو قسطوں میں 6000 روپے دئے جانے تھے۔
پہلی قسط تب دی جاتی تھی جب حاملہ خاتون اس اسکیم کے تحت خود کو رجسٹر کرواتی تھی اور دوسری قسط تب ملتی تھی جب بچے کی پیدائش ہوتی تھی۔اس اسکیم کا نام بعد میں اندرا گاندھی ماترتو سہیوگ یوجنا رکھا گیا۔ شروعات میں یہ اسکیم صرف 53 منتخب ضلعوں میں نافذ کی گئی اور اس کو بعد میں پورے ملک میں پھیلانے کا ہدف رکھا گیا۔مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے ڈھائی سال بعد یہ طے کیا گیا کہ اس اسکیم کو پورے ملک میں پھیلایا جائےگا۔ایک جنوری 2017 سے اس اسکیم کو ملک گیر بنا دیا گیا۔ اس کا نام بدلکر پردھان منتری ماتری وندنا یوجنا (پی ایم ایم وی وائی)رکھا گیا۔
لیکن، ساتھ ہی اس اسکیم کے تحت دی جانے والی امدادی رقم بھی گھٹاکر 6000 سے 5000 روپے کر دی گئی اور پہلے کے مقابلے اب یہ رقم 2 کی جگہ 3 قسطوں میں دی جانے لگی۔15 جنوری 2018 کو ہندوستان ٹائمس میں چھپی ایک رپورٹ کے مطابق، اس اسکیم کے لانچ ہونے کے ایک سال بعد بھی صرف 2 فیصد لوگوں کو اس اسکیم کا فائدہ ملا ہے۔اس خبر کے عام ہونے کے بعد ہم نے اس اسکیم کو لےکر حکومت سے آر ٹی آئی کے تحت کچھ سوال پوچھے۔ آر ٹی آئی کے تحت ہمیں جو جواب ملا، وہ چونکا دینے والا تھا۔
30 نومبر 2018 تک حکومت نے 1882708 لوگوں کو اس اسکیم کے تحت امدادی رقم دینے کے لئے 1655.83 کروڑ روپے جاری کئے۔ لیکن، خبر یہ نہیں ہے۔خبر یہ ہے کہ اس امدادی رقم کی تقسیم کے لئے حکومت نے 6966 کروڑ روپے بانٹنے کے طریقہ کار میں خرچکر دیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اسکیم کے تحت لوگوں کو جتنی امدادی رقم دی گئی، اس سے ساڑھے چارگنا زیادہ رقم اس کو بانٹنے کے طریقہ کار پر خرچکر دیا گیا۔
اگر صوبہ وار دیکھیں تو :
اڑیسہ میں نومبر 2018 تک صرف پانچ لوگ اس اسکیم کے تحت رجسٹر تھے۔ یعنی، اس کے تحت صرف 25000 روپے تقسیم ہوئے، لیکن 274 کروڑ روپے سے زیادہ اس کو بانٹنے کے طریقہ کار میں خرچکر دئے گئے۔
آسام میں بھی کچھ ایسا ہی چونکانے والا اعداد و شمار سامنے آیا ہے۔ اسکیم کے تحت، آسام میں 11.58 کروڑ روپے 3099 لوگوں کو دیا گیا ہے لیکن یہاں اسی کام کے لئے 410 کروڑ روپے لگ گئے۔گجرات میں اس اسکیم کے تحت 121422 لوگ ہیں، جن کے درمیان 96.15 کروڑ روپے تقسیم کیے گئے ہیں، لیکن حکومت کو اس اسکیم کے لئے 52584 آنگن باڑی کو شامل کرنے کے لئے 297.21 کروڑ روپے اضافی خرچ کرنے پڑے۔کیرل ایک ایسی ریاست ہے، جہاں 30 نومبر 2018 تک دودھ پلانے والی 81708 خواتین کے درمیان 64.66 کروڑ روپے تقسیم کیے گئے۔ لیکن، اس کام کے لئے 33452 آنگن باڑی مراکز کو شامل کیا گیا، جس پر 71.06 کروڑ روپے کی انتظامی لاگت آئی۔
بہار میں بھی اس اسکیم کے تحت 317.23 کروڑ روپے انتظامی کام پر خرچ ہوئے، جبکہ تین قسط پانے والے لوگوں کی تعداد صرف 12415 ہے۔اس کے مقابلے جموں و کشمیر اور ہماچل پردیش میں 14325 اور 30678 لوگوں کو اس اسکیم کا فائدہ ملا۔یعنی، یہ ایک ایسی اسکیم ہے جو غریب دودھ پلانے والی ماؤں کے لئے بنائی گئی تھی، لیکن جس کا اصل فائدہ کسی اور کو ہوا۔ٹھیک اسی طرح، جیسے ہرسال ضلع کے بابو، سیلاب اور سوکھے کا انتظار کرتے ہیں کہ سیلاب آئے تو سرکاری راحت کے پیسے کی بندربانٹ ہو سکے۔
(مودی حکومت کی اہم اسکیموں کا تجزیہ کرتی کتاب وعدہ-فراموشی کے اقتباسات خصوصی اجازت کے ساتھ شائع کے جا رہے ہیں ۔ آرٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق یہ کتاب سنجے باسو ، نیرج کمار اور ششی شیکھر نے مل کر لکھی ہے۔)
Categories: خبریں