آخر ٹاٹا، بھارتی ایئرٹیل اور زی گروپ جیسے ایک سے زیادہ ڈی ٹی ایچ آپریٹرس صرف ایک اسپیشل سروس چینل کے تئیں اتنی فیاضی کیوں دکھا رہے ہیں؟
وزارتِ اطلاعات و نشریات نے نمو ٹی وی کو لےکر الیکشن کمیشن کو اپنے جواب میں کہا، برانڈ لوگو کے طور پر وزیر اعظم کی تصویر والی’نمو ٹی وی’تمام ڈی ٹی ایچ پلیٹ فارمس پر چلنے والا ایک’اسپیشل سروس ‘ براڈکاسٹ چینل ہے۔اس لئے اس کو حکومت سے کسی لائسنس یا اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن وزارتِ اطلاعات و نشریات اور مودی حکومت کا جواب اس کے علاوہ اور ہو بھی کیا سکتا تھا؟اصل میں، وزارت وہی دوہرا رہا ہے، جو بی جے پی ترجمان ٹیلی ویژن کی بحثوں میں کہہ رہے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ ایک نمائندے نے یہ قبول کرتے ہوئے کہ اس کو نہیں پتہ ہے کہ نمو ٹی وی کا مالک کون ہے، بی جے پی کے اظہار رائے کی آزادی کا حوالہ دیا۔
یہاں تک کہ مودی نے اے بی پی ٹی وی کو ایک انٹرویو میں کہا، مجھے اس بات کی جانکاری ملی کہ کچھ لوگوں نے ایک چینل لانچ کیا ہے، لیکن مجھے خود اس کو دیکھنے کا وقت نہیں ملا ہے۔صاف ہے کہ وزیر اعظم اس ‘اسپیشل سروس چینل’کی پوری طرح سے ذمہ داری لینے کے لئے تیار نظر نہیں آرہے ہیں، جو لوگو کے طور پر ان کی تصویر کا استعمال کرتے ہوئے چل رہا ہے، جس کو ان کی امیج کی تشہیر کے لئے شروع کیا ہے۔اس صنعت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ کوئی اسپیشل سروس چینل ٹاٹا اسکائی، ایئرٹیل اور ڈش ٹی وی سمیت کئی ڈی ٹی ایچ پلیٹ فارمس پر ایک ساتھ لانچ کیا گیا ہے۔ اس میں سے آخری چینل کے مالک راجیہ سبھا رکن پارلیامان سبھاش چندرا ہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ آخر ٹاٹا، بھارتی ایئرٹیل اور جی گروپ جیسے ایک سے زیادہ ڈی ٹی ایچ آپریٹرس صرف ایک اسپیشل سروس یا ایڈورٹائزنگ(اشتہار)چینل کے تئیں اتنی فیاضی کیوں دکھا رہے ہیں؟ان ڈی ٹی ایچ پلیٹ فارمس پر اسپیشل سروس سلاٹس کا استعمال اکثر مالکوں کے ذریعے اپنے پروگراموں، مثلاً ٹاٹا اسکائی پر کوکنگ یا ایکٹنگ کلاسز کی تشہیر یا ریٹیل اشتہار کی دوسری صورتوں کے لئے کیا جاتا ہے۔ ٹاٹا اسکائی کے ڈی ٹی ایچ پلیٹ فارم پر ان کو ‘ ایکٹو سروسز ‘ کہا جاتا ہے۔ ‘
اپنی سروس پلیٹ فارم پر کسی تھرڈ پارٹی-جیسا کہ نمو ٹی وی کے ساتھ ہے، کو اپنے خود کے برانڈ لوگو (مودی کے چہرے) کا استعمال کرنے کی اجازت دینا بھی غیرمعمولی ہے۔ اس رعایت کو حکمراں جماعت پر خاص مہربانی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔اب بی جے پی کا یہ دعویٰ ہے کہ نمو ٹی وی ایسے’اسپیشل سروسز ‘ کا حصہ ہے، اس لئے چینل کو سٹیلائٹ کے ذریعے اپ لنک-ڈاؤن لنک کے لئے لائسنس کی ضرورت نہیں ہے۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات سے ان اجازتوں کی ضرورت نہیں ہے، جو نیوز چینلوں کے لئے لازمی طور پر ضروری ہوتے ہیں۔
دلچسپ یہ ہے کہ ٹاٹا اسکائی نے اپنے پہلے سرکاری رد عمل میں نمو ٹی وی کا ذکر ایک ہندی سماچار سیوا (ہندی نیوز سروس)کے طور پر کیا۔ لیکن اس کو جلد ہی واپس لے لیا گیا اور تب ہمیں بتایا گیا کہ یہ ایک اسپیشل سروس یا اشتہار (ایڈورٹائزنگ) چینل ہے۔صنعت کے افسروں نے دی وائر کو بتایا کہ ایک اشتہار چینل کے طور پر بھی یہ ہندوستانی کیبل ٹی وی قانون 1995 کے تحت آتا ہے، جس میں کیبل ٹی وی کے ذریعے نشر کئے جانے والے اشتہار پروگراموں کے لئے اصول ہیں۔ہندوستانی کیبل ٹی وی یونین کے صدر روپ شرما کے مطابق اشتہار پروگراموں کے مواد پر بھی پابندیاں ہیں۔ اس بات کی تفتیش کی جانی چاہیے کہ کیا تعصب آمیز سیاسی مواد کی نشریات کرنے والا ایک اشتہاری چینل کیبل ٹی وی نیٹ ورک قانون کے مطابق ہے یا نہیں؟
صنعتی دنیا کے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مثالی ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے بعد ٹی وی چینلوں پر اپنے پیغام کی نشریات کے لئے کسی سیاسی جماعت کے ذریعے خریدے گئے 30 سیکنڈ کے سلاٹ کے لئے بھی الیکشن کمیشن کی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی اگر کوئی سیاسی پارٹی کسی چینل پر اشتہار کے 10 سلاٹ خریدتی ہے، تو اس کو ہر سلاٹ کے لئے الیکشن کمیشن کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوگی۔کمیشن کو اس بات کی تفتیش ضرور کرنی چاہیے کہ نمو ٹی وی پر بھی یہی اصول نافذ ہونے چاہیے یا نہیں کیونکہ اصل میں یہ 24 گھنٹے نریندر مودی اور بی جے پی کی تشہیر کرنے والا چینل ہے۔
نمو ٹی وی کو لےکر قانونی اور اس کی وضاحت میں غلط فہمی پیدا ہونے کا واحد سبب یہ ہے کہ اب تک کسی نے بھی موجودہ نشریاتی اصولوں کی کمزوریوں کا غلط فائدہ اتنے بڑے پیمانے پر نہیں اٹھایا ہے۔ غیرشفافیت کا عالم یہ ہے کہ کسی کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ نمو ٹی وی کے مواد کا ماخذ کیا ہے؟جہاں تک اصولوں کا سوال ہے، ٹرائی کے سابق صدر راہل کھلر نے 2014 میں یہ انتباہ دیا تھا کہ ہندوستان بھر میں ہزاروں مقامی چینل وزارتِ اطلاعات و نشریات سے لائسنس یا اجازت کے بغیر چل رہے تھے۔ یہ چینل انڈرگراؤنڈ فائور نیٹ ورک کے ذریعے مقامی کنٹینٹ کو آگے بڑھا رہے تھے اور ان پر کوئی اصول نافذ نہیں کیا جا رہا تھا۔
کھلر نے دی وائر کو بتایا،میں نے ان چینلوں کے لئے کچھ انضباطی ہدایات بنانے کا مشورہ دیا تھا، جب میں نے محسوس کیا کہ شمال مشرق اور جموں و کشمیر کے حساس علاقوں میں ایسے چینلوں کی بڑی تعداد وجود میں آ گئی تھی۔کھلر نے اکالی دل، انادرمک، درمک جیسی علاقائی پارٹیوں سے قریبی طور پر جڑی خبریں اور روزمرہ کے واقعات کے چینلوں کے خلاف فعال طریقے سے آواز اٹھائی تھی۔ لیکن ٹرائی کی سفارشوں کو نظرانداز کر دیا گیا۔آج ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی بھی اپنا چینل چلانے والی پارٹیوں کی جماعت میں شامل ہو گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسا اس نے پچھلے دروازے سے کیا ہے۔ اپنی پارٹی کو اصولوں کی کمزوری کا اس طرح سے فائدہ اٹھانے دینا وزیر اعظم کی امیج کو خراب کرنے والا ہے۔
اس سے بھی بڑھکر مودی نے ایک طرح سے یہ اشارہ دیا کہ کچھ لوگوں نے یہ چینل شروع کیا ہے جس کو دیکھنے کا ان کو وقت نہیں ملا۔ اصولوں کا اس طرح سے غلط استعمال ہونے دینا حکومت کے مکھیا کے عہدے کے اخلاقی وقار کے خلاف ہے، کیونکہ پالیسی-ڈائرکٹر کے طور پر ان کا کام ایسی کمزوریوں کو دور کرنا ہوتا ہے۔پردھان منتری جی، آپ کا جواب گلے سے نیچے اترنے والا نہیں ہے۔
نوٹ : 7 اپریل کو اس مضمون کے انگریزی میں اشاعت کے بعد الیکشن کمیشن نے 10 اپریل کو نمو ٹی وی پر پابندی لگانے کی بات کہی تھی، جس کے بعد بی جے پی نے یہ قبول کیا کہ نمو ٹی وی، نمو ایپ کا ایک فیچر ہے جو بی جے پی کی آئی ٹی سیل کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ 11 اپریل کو الیکشن کمیشن نے کہا کہ چینل کا سارا کنٹینٹ فوراً ہٹایا جائے کیونکہ اس کو کمیشن کے ذریعے سرٹیفکٹ نہیں دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی آگے سے جو بھی ریکارڈیڈ پروگرام نشر کئے جائیں ان کو دہلی الیکشن کمیشن کے میڈیا سرٹیفیکیشن اور مانٹرنگ کمیٹی کے ذریعے تصدیق شدہ ہونا چاہیے۔
Categories: فکر و نظر