لالو پرساد یادو اپنی کتاب میں بتاتے ہیں؛ بہار کی تعمیر میں ،میں نے مہاتما گاندھی کی اہنسا کے ساتھ منڈیلا، کنگ اور امبیڈکر کے بتائے راستوں کو اختیار کیا۔ جیسی کہ امید تھی میری راہ کانٹوں سے بھری تھی اور یقیناً یہ آسان نہیں تھی۔ لیکن میں اپنے راستے سےمنحرف نہیں ہوا۔
لالو پرساد یادو فی الحال رانچی کی برسا منڈا جیل میں وقت کاٹتے ہوئے خود کو نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ جونیر، بھیم راؤ رام جی امبیڈکر اور مہاتما گاندھی کی صف میں محسوس کر رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ لوگ اپنے مشن میں ناکام رہے اور تاریخ انہیں ولن کی شکل میں یاد رکھے گی۔حال ہی آئی ان کی کتاب “گوپال گنج ٹو رائے سینا – مائی پولیٹیکل جرنی”کو سیاستدانوں کے سیاستداں کی کتاب کہا جا سکتا ہے۔ انگریزی کی اس کتاب کے معاون مصنف، سینئر صحافی و ادیب نلن ورما ہیں۔ کتاب کا بیانیہ دلچسپ ہے، جو قاری کو ایسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، مانو وہ لالو جی کی مخصوص اسلوب والی زبان سے ہی سب کچھ سن رہا ہو۔ اس کے 229 صفحات لالو کے فطری مزاح اور ان کی چہل سے بھرے ہیں۔
مذکورہ بالا عظیم شخصیات کے بارے میں لالو جی کا کہنا ہے کہ “متعصبی، نسل پرست اور ذات پات کی بنیاد پر بھید بھاؤکرنے والے ذہنوں کے لیے یہ لوگ ولن ہی ہیں۔” بہار کے سابق وزیر اعلیٰ “لالوازم” کی بات اس طرح کرتے ہیں، “حاکم اور حکمراں طبقہ معاشرے کو ہمیشہ حاکم اور محکوم میں بدل دیتا ہے اور کمزور طبقے سے کوئی فرد جب کبھی اس حاکمیت و ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو وہ سب مل کر اسے ستانے میں لگ جاتے ہیں۔”
لالو کا ماننا ہے کہ ان کی یہ بات وہ لوگ نہیں مانیں گے جنہوں نے ان کے بارے میں متعصبانہ ٹی وی رپورٹس دیکھ کر کوئی رائے قائم کر لی ہے۔ راشٹریہ جنتا دل سپریمو 1990 میں ہوئے مشہور چارہ گھوٹالے معاملے میں اس وقت جیل کاٹ رہے ہیں۔وہ اپنے آپ کو نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ جونیر، بھیم راو رام جی آمبیڈکر اور مہاتما گاندھی سے متاثر بتاتے ہیں کہ یہ لوگ 70 کی دہائی میں سیاست میں ان کی آمد کے وقت سے ہی ان کے رول ماڈل رہے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں نے بھید بھاؤ اور نا انصافی کے خلاف ان پانچوں عظیم شخصیات کی معاشرتی و سیاسی سوچ کے مطابق، ان کے اصولوں پر چلنے کی کوشش کی۔
اپنی کتاب میں انہوں نے نیلسن منڈیلا کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ “انہوں نے (منڈیلا نے) نسلی عصبیت کے خلاف جنگ کی۔ عصبیت کی یہ پالیسی سفید فام لوگوں کے تسلط، بھید بھاؤ اور نا انصافی پر مبنی تھی۔ انہوں نے سیاہ فام لوگوں کے ساتھ نسل پرستانہ برتاؤ کے خلاف آواز اٹھائی، جس پر ان کے خلاف بغاوت کے مقدمے قائم کر دیے گئے۔ لیکن تمام مشکلات سے جوجھتے ہوئے منڈیلا نے اپنی جنگ جاری رکھی اور ساؤتھ افریقہ میں جاری سفید فام لوگوں کے تسلط، تعصب اوربھید بھاؤ سے سیاہ فام لوگوں کو آزادی دلانے میں کامیابی حاصل کی۔” اس تذکرے کے دوران لالو نے بہار میں پچھڑے طبقات کی فلاح کے لیے کام کرتے ہوئے خود کی بھی تعریف کر ڈالی ہے۔
مارٹن لوتھر کنگ کے بارے میں انہوں نے بتایا ہے کہ 1955 میں مانٹ گمری، البامہ میں ایک عورت کو اس لیے گرفتار کر لیا تھا کہ سٹی بس میں اس نے اپنی سیٹ ایک گورے کے لیے چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ “اس پر کنگ جونیر نے مانٹ گمری بسوں کا بائیکاٹ کر دیا، جو 385 دنوں تک چلا۔ انہیں بڑی جیت ملی جب ایک عدالت نے امریکہ کی ساری بسوں میں نسل پرستانہ تفریق ختم کر دی۔ اس سے ناراض نسل پرستوں نے تحفظ حقوق کے اس علم بردار کے گھر بم مار دیا۔” لالو کہتے ہیں کہ اس کے کئی سالوں بعد 1968 میں مارٹن لوتھر کنگ جونیر کا قتل کر دیا گیا، لیکن تب تک نسل پرستی و ناانصافی کے خلاف کبھی نہ رکنے والے احتجاج کی لہر پھیل چکی تھی۔ “ان کی اس جدوجہد کا نتیجہ 2008 میں نظر آیا، جب ایک نا ممکن سا نظر آنے والا کام ہو گیا۔ امریکہ کا صدر ایک سیاہ فام شخص (براک اوبامہ) بنا، وہ بھی ایک نہیں لگاتار دو مدت کار کے لیے۔”
اس کے بعد بابا صاحب امبیڈکر کا ذکر کرتے ہوئے لالو بتاتے ہیں کہ نچلی مانی جانے والی ‘مہار’ ذات میں پیدا ہونے پر بابا صاحب کے ساتھ برہمنوں اور منووادی سوچ کے حامل لوگوں نے کیسے چھواچھوت برتی۔ انہیں ان لوگوں کے ذلت آمیز رویہ اور نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔ بابا صاحب اور دیگر اچھوت طلبہ کو دوران تعلیم پانی کے برتن تک چھونے کی اجازت نہیں تھی۔ پیاس لگنے پر وہ دونوں ہاتھ جوڑ کر اوک بنا لیتے، جس میں اونچی ذات کا کوئی فرد اونچائی سے پانی ڈال دیتا۔ لالو کہتے ہیں امبیڈکر کی جدوجہد، پختہ عزم اور ذہانت و لیاقت نے کانگریس کو مجبور کر دیا کہ آئین ترتیب دینے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کا انہیں چیئرمین بنائے۔ اسے لے کر اپنا فطری طنز وہ یوں پیش کرتے ہیں،”ان کی موت کے 60 سال بعد بھی؛ ہر کوئی، یہاں تک کہ ذات پات کے نظام پر عمل کرنے والی منووادی طاقتیں بھی بابا صاحب کی وراثت قبول کرنے کو ایک پیر پر تیار رہتی ہیں۔”
خود کو گاندھی سے جوڑتے رہنے والے لالو انہیں ون مین آرمی قرار دیتے ہیں۔ ایسا آہنی شخص جو تقسیم کے زہریلے فرقہ پرستانہ ماحول کے بیچ بھی آپسی اتحاد کے لیے سینہ سپر رہا۔ لالو نے اپنے مخصوص اسلوب میں گاندھی جی کے لیے لکھا، “انہوں نے مغربی بنگال کے نواکھالی جانا طے کیا، جو ان دنوں فرقہ پرستی کی آگ میں بری طرح جل رہا تھا اور جہاں بڑے پیمانے پر مارکاٹ مچی تھی۔ انہوں نے آمرن انشن شروع کر دیا اور اسے تبھی ختم کیا، جب مقامی لیڈران نے یقین دلا دیا کہ وہ امن قائم کریں گے اور متاثرین بھی لوٹ آئیں گے۔ ملک کے کئی حصوں میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا، جس پر قابو پانے کے وسائل محدود تھے۔ جگہ جگہ فورسیز بھیجی گئیں۔ اس بیچ گاندھی مشرقی ہند میں قیام امن کے لیے اکیلے قلعہ لڑاتے رہے۔ ہندو و مسلمانوں دونوں کے اس مسیحا کو فرقہ پرستی کی نفرت میں ڈوبے ایک منووادی نے قتل کر دیا۔”وہ لکھتے ہیں؛
میری زندگی کا سفر بھی انہیں عظیم لوگوں کی طرح رہا، حالانکہ ان کے قریب تک پہنچنے کا بھی میرا کوئی دعویٰ نہیں ہے؛ ایسا کرنا حماقت ہوگی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اپنے پورے سیاسی سفر میں دلتوں، پچھڑوں اور اقلیتوں کے حقوق کی جدوجہد میں ان شخصیات کے اصول و طور طریقے میرے بڑے کام آئے۔ بہار کی تعمیر میں میں نے مہاتما گاندھی کی اہنسا کے ساتھ منڈیلا، کنگ اور امبیڈکر کے بتائے راستوں کو اختیار کیا۔ جیسی کہ امید تھی میری راہ کانٹوں سے بھری تھی اور یقیناً یہ آسان نہیں تھی۔ لیکن میں اپنے راستے سےمنحرف نہیں ہوا۔”
اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے لالو دعویٰ کرتے ہیں کہ عوام الناس تک رسائی کے ان کے انداز اور لوگوں کی ان کے تئیں مخلصانہ محبت سے آر ایس ایس و سنگھ پریوار والے گھبرا گئے تھے۔ “وہ میرے خلاف ہیں، کیونکہ میں جبریہ بندشوں میں رہ کر جدوجہد کر رہے لوگوں کی آواز بن گیا تھا… سنگھ پریوار کے گستاخ کارندوں نے میرے خلاف اپنی مہم اورتیز کر دی، خاص طور سے 1990 میں لال کرشن اڈوانی کی تباہ کن رتھ یاترا بہار میں روکنے اور انہیں حراست میں لیے جانے کے بعد۔ تب سے وہ ان کو مہیا ہر وسیلے سے میرے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنے اور میری منفی شبیہ پیش کرنے میں لگے ہیں۔” اپنی بات مکمل کرنے کے لیے وہ مشہور شاعر فیض احمد فیض کا سہارا لیتے ہیں؛
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
Categories: فکر و نظر