سیاسی گلیاروں میں ایک تذکرہ یہ بھی ہے کہ پہلے مرحلے کے رائے دہندگی کے بعد بی جے پی کے پاس حلقے سے جو خبریں پہنچیں اس سے پارٹی کو اشرافیہ کی ناراضگی کا احساس ہوا ہے۔ ایسے میں اب وہ اشرافیہ ا س کے رہنماؤں کو منانے میں جٹ گئی ہے۔
بی جے پی کی بنیاد مانے جانے والےاشرافیہ طبقہ بہار میں پارٹی سے ناراض چل رہا ہے۔گزشتہ بدھ کو اس بات اور قوت اس وقت ملی جب بی جے پی کے سینئر رہنما، سابق مرکزی وزیر اورایم پی ڈاکٹر سی پی ٹھاکر نے میڈیا میں بیان جاری کر کے کہا کہ بھومیہار سماج کو بی جے پی کے ذریعے صرف ایک ٹکٹ دئے جانے پر بھومیہار میں ناراضگی ہے۔ غور طلب ہے کہ سی پی ٹھاکر اسی ذات سے آتے ہیں۔
حالانکہ انہوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ مرکزی قیادت نے بات چیت میں اس ناراضگی کو دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے نریندر مودی کو ووٹ دےکر ان کو دوبارہ وزیر اعظم بنانے کی اپیل بھی کی۔
بدھ کے ایک اور واقعہ کواشرافیہ طبقے کی ناراضگی کو دور کرنے کی بی جے پی کی پہل کے طور پردیکھا جا رہا ہے۔دراصل بدھ کی دیر شام پارٹی کے بہار صدر اور قومی جنرل سکریٹری بھوپیندر یادو بالمیکی نگر سے ایم پی ستیش چندر دوبے کے ساتھ ساتھ پارٹی ایم ایل سی سچدانند رائے کو لےکر اسپیشل چارٹر پلین سے امت شاہ سے ملنے گئے۔ برہمن ذات کے ستیش چندر دوبے نے والمیکی نگر اور بھومیہار ذات کے سچدانند رائے نے مہاراج گنج سے آزاد امیدوار کے طو رپرانتخابی میدان میں اترنے کا اعلان کر پارٹی کو پریشانی میں ڈال رکھا ہے۔ بدھ کی’ہوائی قواعد’کو انھیں منانے کی مرکزی قیادت کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
کیوں ناراض ہیں بھومیہار
بہار میں اشرافیہ میں بھومیہار ذات سب سے بیباک اور نڈر مانی جاتی ہے۔ بہار این ڈی اے کی سیٹ بٹوارے میں بی جے پی کے کھاتے میں جو 17 سیٹ آئی ہیں ان میں سے پارٹی نے بھومیہار ذات سے آنے والے بس ایک امیدوار مرکزی وزیر گریراج سنگھ کو بیگوسرائے سے امیدوار بنایا ہے جبکہ پچھلے عام انتخاب میں پارٹی نے بھومیہار ذات سے تین امیدوار اتارے تھے۔ حالانکہ اس بار بی جے پی نے اپنے کوٹہ کے 17 سیٹوں میں سے قریب آدھے یعنی کہ 8سیٹوں پر اشرافیہ سے آنے والے امیدوار اتارے ہیں۔ اس نے راجپوت ذات سے 5، دو برہمن اور بس ایک امیدوار بھومیہار ذات سے اتارا ہے۔ ایسے میں زمینی حالات بتاتے ہیں کہ ابھی بھومیہار بی جے پی سے تھوڑے ناراض چل رہے ہیں جو بدھ کو سی پی ٹھاکر کے بیان کی صورت میں بھی سامنے آیا۔
اس بار بھومیہار ذات سے جس ایک شخص گریراج سنگھ کو امیدوار بنایا گیا ان کو بھی اپنا لوک سبھا بدلنے کے لئے مجبور کیا گیا جو کہ ان کی ناراضگی کی صورت میں سامنے بھی آئی تھی۔ گریراج سنگھ نے بیگوسرائے سے انتخاب لڑنے میں شروعاتی عدم دلچسپی بھی دکھائی تھی۔ تب سیاسی گلیاروں میں یہ تذکرہ تھا کہ ان کی عدم دلچسپی کی ایک وجہ امیدواروں کے انتخاب کو لےکر ان کی کمیونٹی میں بی جے پی کو لےکر پیدا ہوئی ناراضگی بھی تھی۔
ایک تذکرہ یہ بھی ہے کہ پہلے مرحلے کے رائے دہندگی کے بعد بی جے پی کے پاس حلقے سے جو خبریں پہنچیں اس سے پارٹی کو اشرافیہ کی ناراضگی کا احساس ہوا ہے۔ ایسے میں اب وہ اپنے اس بہت ہی اہم بنیاد اور ا س کے رہنماؤں کو منانے میں جٹ گئی ہے۔
منانے کی قواعد
بے شک، بہار میں مہاگٹھ بندھن میں بھی بھاری بغاوت ہے لیکن بی جے پی جیسی پارٹی میں ایسا ہونا تھوڑا چونکانے والا ہے۔ بی جے پی کے لئے پریشان کرنے والی ایک بات اور بھی ہے کہ انتخاب کے موسم میں جتنے بھی بڑے رہنماؤں نے پارٹی چھوڑی یا بغاوت کی ہے ان میں سے زیادہ تر اشرافیہ طبقے سے آتے ہیں۔ ان میں سچدانند رائے اور ستیش چندر دوبے کے علاوو شتروگھن سنہا، کیرتی آزاد، پپو سنگھ، پُتُل کماری جیسے نام شامل ہیں۔ بی جے پی میں بغاوت کی شروعات پُتُل سنگھ (بانکا) اور ایم ایل سی اشوک کمار اگروال (کٹیہار) نے کی۔ اشوک تو مان گئے مگر پُتُل، بانکاکے میدان میں مضبوطی سے ڈٹی رہیں اور ان کی موجودگی نے بانکا کا مقابلہ سہ رخی بنا دیا۔
ان سب کو دیکھتے ہوئے پارٹی اشرافیہ کے رہنماؤں کو اپنے اکھاڑے میں کرنے اور ان کو پارٹی میں مناسب مقام دینے کی کوششوں میں بھی جٹ گئی ہے۔ اسی لئے گزشتہ دنوں آناً فاناً میں چارٹر پلین سے آکے بھوپیندر یادو نے ہم (سیکولر) پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر مہاچندر سنگھ اور کانگریس رہنما ونود شرما کو پارٹی میں شامل کروایا تھا۔ اس تقریب میں شامل ہونے کے لئے ریاستی صدر نتیانند رائے ہیلی کاپٹر سے پٹنہ آئے تھے۔ پارٹی نے شنکر جھا کو ریاستی نائب صدر بناکر بھی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
بی جے پی کے باغی سچدانند رائے اور ستیش چندر دوبے مانتے ہیں یا نہیں؟ یہ تو آنے والوں چند دنوں میں سامنے آ جائےگا۔ مگر اشرافیہ کی ناراضگی کتنی دور ہوئی اس کا اندازہ لگانے کے لئے 23 مئی تک کا انتظار کرنا پڑےگا جس دن نتیجے آئیںگے۔ بہار میں قریب آدھی سیٹوں پر جیت-ہار میں اشرافیہ کا اہم کردار مانا جاتا ہے۔ ان سیٹوں میں اورنگ آباد، نوادہ، بانکا، پورنیہ، دربھنگہ، مدھوبنی، جہان آباد، سارن، مظفرپور، مہاراج گنج، بالمیکی نگر، پٹنہ صاحب، آرا، بکسر، بیگوسرائے اور مونگیر جیسی سیٹیں شامل ہیں۔ ان میں سے پورنیہ، مہاراج گنج، پٹنہ صاحب، بکسر، مونگیر، بیگوسرائے جیسی سیٹوں پر بی جے پی یا این ڈی اے کو خاصا چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جہاں یا تو مہاگٹھ بندھن نے اشرافیہ کے امیدوار دئے ہیں یا پھر این ڈی اے اور مہا گٹھ بندھن(دیگر حزب مخالف سمیت) دونوں کے ہی امیدوار اشرافیہ سے ہیں۔
(منیش شانڈلیہ پٹنہ میں مقیم صحافی اور مترجم ہیں۔)
Categories: فکر و نظر