جھارکھنڈ کی تمام 14 لوک سبھا سیٹوں کے لئے مہاگٹھ بندھن میں شامل کانگریس، جھارکھنڈ مکتی مورچہ، جھارکھنڈ وکاس مورچہ اور آرجے ڈی نے کسی بھی اقلیتی چہرے کو انتخابی میدان میں نہیں اتارا ہے۔
ریاست میں یہ طے ہوا کہ مہا گٹھ بندھن میں شامل کانگریس 7، جھارکھنڈ مکتی مورچہ 4، جھارکھنڈ وکاس مورچہ2 اور راشٹریہ جنتا دل ایک سیٹ پر انتخاب لڑےگی۔ حالانکہ مہا گٹھ بندھن نے کسی اقلیتی چہرے کو اپنا امیدوار نہیں بنایا ہے۔اس بارے میں کانگریس کے جھارکھنڈ ریاستی صدر ڈاکٹر اجئے کمار نے کہا کہ کانگریس پارٹی مذہب یا ذات کے نام پر ٹکٹ نہیں دیتی ہے۔ مہا گٹھ بندھن نے طے کیا ہے اقلیتی امیدوار کو راجیہ سبھا بھیجیںگے۔کانگریس رہنما سبودھکانت سہائے نے بھی ایسا ہی بیان دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، کانگریس پارٹی اقلیت چہرے کو ٹکٹ دینا چاہتی تھی پر جس سیٹ سے اقلیت امیدوار جیتکے آتے ہیں وہ مہاگٹھ بندھن کے دوسری جماعتوں کے کھاتے میں چلی گئی۔ اس لئے ہم لوگ مسلم امیدوار راجیہ سبھا بھیجیںگے۔
دونوں کی دلیل میں فرق تھا پر راجیہ سبھا بھیجنے والی بات کامن تھی۔اس کے بعد جھارکھنڈ وکا س مورچہ نے اپنی دونوں سیٹوں پر امیدوار کا اعلان کر دیا۔ گوڈا سے پردیپ یادو اور کوڈرما سے سابق وزیراعلیٰ اور پارٹی سپریمو بابو لال مرانڈی امیدوار ہیں۔وہیں آر جے ڈی نے پلامو سیٹ کے علاوہ کانگریس کے کھاتے میں گئی چترا سیٹ سے بھی اپنا امیدوار اتارا ہے۔ پلامو سے گھورن رام اور چترا سے سبھاش یادو کو آر جے ڈی نے اپنا امیدوار بنایا ہے۔جبکہ جھارکھنڈ مکتی مورچہ سے شیبو سورین-دمکا، وجئے ہانسدا-راج محل، جگرناتھ مہتو-گریڈیہہ، چمپئی سورین-جمشیدپور سے انتخاب میدان میں ہیں۔
کانگریس نے رانچی سے سبودھکانت سہائے، لوہردگا سے سکھدیو بھگت، سنگھ بھوم سے گیتا کوڑا، چترا سے منوج یادو، دھنباد سے کیرتی آزاد، کھونٹی سے کالی چرن منڈا کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ ہزاری باغ سے پارٹی نے گوپال ساہو کو ٹکٹ دیا ہے۔اس طرح مہا گٹھ بندھن میں شامل پارٹیوں سے ریاست کی 14 سیٹوں پر ایک بھی اقلیتی چہرے کو ٹکٹ نہیں دیا۔مسلم دانشوروں اور سماجی کارکنوں کا الزام ہے کہ مہا گٹھ بندھن نے ایک بڑی آبادی کو نظرانداز کیا ہے۔مسلم امیدوار دئے جانے کی مانگ کو لےکر آل مسلم یوتھ ایسو سی ایشن نے رانچی میں دو دن دھرنا بھی دیا ہے۔ ان کو امید تھی کہ مہا گٹھ بندھن کا کم سے ایک ایک چہرہ مسلم ہوگا۔
ایسوسی ایشن کے صدر ایس علی کہتے ہیں،گوڈا یا گریڈیہہ سے مسلم امیدوار ہونا چاہیے تھا۔ یہاں 20سے22 فیصدی تک مسلم آبادی ہے۔ ریاست میں سوشل میڈیا سے لےکر سڑک تک ہم لوگوں کی یہی مانگ تھی مگر انہوں نے ہمیں کنارے کر دیا۔ 15 فیصد آبادی ہماری ہے تو نمائندگی زیرو کیوں؟2011 کی مردم شماری کے مطابق، جھارکھنڈ میں مسلم آبادی 14سے15 فیصد تھی۔ اس میں عیسائی 4.3 اور سکھ 0.22 فیصد تھے۔جن ضلعوں میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے، اس میں گوڈا، گریڈیہہ، صاحب گنج، پاکوڑ، گملا، کوڈرما، دھنباد اور رانچی شامل ہیں۔ پر جس سیٹ پر مسلم امیدوار اتارے جانے کی مانگ اٹھ رہی تھی اس میں گوڈا سب سے اہم سیٹ ہے۔
گوڈا میں مسلم 22سے24 فیصد ہیں۔ 1980 اور 1984 میں مولانا سمیع الدین اور 2004 میں فرقان انصاری کانگریس سے رکن پارلیامان چنے گئے تھے۔2009 میں فرقان کو بی جے پی کے نشی کانت دوبے سے محض 6407 ووٹ سے شکست کھانی پڑی۔ ان کو 2014 میں بی جے پی کے اسی امیدوار نے پھر سے شکست دی اور مودی لہر میں اپنی جیتکے فرق کو بھی بڑھایا۔اسی انتخاب میں 193506 ووٹ حاصل کرنے والے جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے پردیپ یادو کو 2019 میں گوڈا سے مہا گٹھ بندھن کے امیدوار اعلان کیا گیا ہے۔1962 سے 2009 کے درمیان 6 بار گوڈا سیٹ پر پرچم لہرانے والی کانگریس پارٹی نے اپنی یہ روایتی سیٹ جھارکھنڈ وکاس مکتی مورچہ کے لئے کیوں چھوڑی، اس سوال کے سیاسی اور سماجی دونوں ہی معنی نکالے جا رہے ہیں۔
پردیپ یادو 2002 میں گوڈا لوک سبھا ضمنی انتخاب بھی جیت چکے ہیں اور فی الحال گوڈا کے ہی پوڑیاہاٹ اسمبلی سے ایم ایل اے ہیں۔گوڈا سیٹ کو لےکر گزشتہ دو مہینے میں پردیپ یادو اور فرقان انصاری اپنے بیانات کی وجہ سے کئی بار آمنے سامنے رہے ہیں۔جھارکھنڈ وکاس مکتی مورچہ سپریمو بابو لال مرانڈی کا کہنا ہے کہ پردیپ یادو گزشتہ پانچ سال میں گوڈا کے مدعا کو لےکر کافی جارحانہ رہے ہیں۔ اڈانی پاور پلانٹ کے ذریعے لی گئی آدیواسیوں کی زمین کو لےکر انہوں نے لڑائی لڑی ہے اور جیل تک گئے ہیں۔جھارکھنڈ مکتی مورچہ کا بھی ایسا ہی ماننا ہے۔ ان کے مطابق بھی پردیپ یادو اپنے کام اور لڑائی کی بنیاد پر اس سیٹ کے لئے بڑے دعوے دار ہیں۔
لیکن فرقان انصاری ان دونوں رہنماؤں کی باتوں کو بےتکا بتاتے ہیں۔ ان کی ناراضگی مہا گٹھ بندھن کی دوسری جماعتوں سے کہیں زیادہ اپنے ہی ریاستی صدر سے ہے۔فرقان کہتے ہیں، گوڈا سیٹ ہمارے ریاستی صدر ڈاکٹر اجئے کمار نے پانچ مہینہ پہلے ہی پردیپ یادو کو دے دیا تھا۔ ادھر جو اعلان کیا گیا ہے وہ محض رسمی ہے۔ میرا ٹکٹ میرے صدر نے کاٹا ہے۔ سارے اشارےکانگریس کے حق میں تھے، پھر بھی جھارکھنڈ وکاس مکتی مورچہ کو یہ سیٹ کیوں دی گئی، مجھے نہیں پتہ۔انہوں نے کہا، صدر اور پردیپ یادو کے درمیان کیا سمجھوتہ ہوا، مجھے یہ بھی نہیں معلوم، لیکن میں نے پارٹی کو بتا دیا ہے کہ گوڈا میں میں جھارکھنڈ وکاس مکتی مورچہ کے لئے انتخابی تشہیر نہیں کروںگا۔
انہوں نے آزاد یا کسی دیگر پارٹی سے انتخاب لڑنے کے قیاس پر کہا کہ پارٹی کا فیصلہ ان کے لئے سب سے اوپر ہے۔گوڈا کے صحافی راگھو مشرا ذاتی فارمولے کے بارے بتاتے ہیں، اس سیٹ پر آدیواسی اور دلت ووٹ تقریباً تین لاکھ ہیں۔ لیکن مسلم، برہمن اور یادو ووٹر یہاں پر اکثر فیصلہ کن ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا،اس سیٹ پر کانگریس کی ایم بی (مسلم برہمن) فارمولہ ایک بڑا فیکٹر رہا ہے۔ اگر کانگریس، مسلم یا برہمن کو ٹکٹ دیتی تو ان دونوں کمیونٹی کے ووٹ یکجا ہو جاتے۔ تب جیت کا امکان بھی تھا۔ ایسے میں کانگریس کا برہمن اور مسلم امیدوار نہیں دئے جانے سے ناراض مسلم ووٹ مہا گٹھ بندھن کے پردیپ یادو کو کتنا ٹرانسفر ہو پاتا ہے، یہ دیکھنا ہوگا۔الیکشن کمیشن کے مطابق، 2014 میں گوڈا سیٹ پر تقریباً 16 لاکھ ووٹر تھے۔ بی جے پی، کانگریس اور جھارکھنڈ وکاس مکتی مورچہ کو بالترتیب 23،20 اور 12 فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ پہلا انتخاب ہوگا، جب اس سیٹ سے کانگریس اپنا امیدوار میدان میں نہیں اتار رہی ہے۔
پولرائزیشن کا ڈر
مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دینے کی وجہ پر سینئر صحافی فیصل انوراگ کہتے ہیں، اس بات کو مانیے چاہے نہ مانیے، گزشتہ پانچ سال میں بی جے پی نے ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی مسلموں کو ٹکٹ دینے میں جھجک کر رہی ہیں۔ ہم صرف یہ الزام بی جے پی پر لگاتے تھے کہ وہ مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیتی ہے۔ لیکن اب کانگریس، جھارکھنڈ مکتی مورچہ اور جھارکھنڈ وکاس مکتی مورچہ کو بھی ڈر لگ رہا ہے کہ وہ مسلم امیدوار دیںگے تو ووٹ کا پولرائزیشن ہوگا۔حالانکہ ریاستی کانگریس صدر ڈاکٹر اجئے کمار پولرائزیشن والی بات سے انکار کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں،میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ مسلم امیدوار کو ووٹ کا پولرائزیشن ہونے کی وجہ سے ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ سیٹوں کی تقسیم مہا گٹھ بندھن کی رضامندی سے ہوئی اور اتفاق اس بات پر بھی ہوا ہے کہ مسلم امیدوار راجیہ سبھا بھیجیںگے۔ آپ خود سوچیے کہ ووٹ کے پولرائزیشن کا ڈر ہوتا تو اتر پردیش، بنگال اور بہار میں کانگریس کو مسلم امیدوار نہیں اتارنا چاہیے تھا۔ کانگریس کی ترجیح بی جے پی کو ہٹانا ہے اور ملک کو بچانا ہے۔وہیں جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے قومی جنرل سکریٹری سپریو بھٹاچاریہ کہتے ہیں،اقلیتی سماج مضبوطی سے اس بار مہا گٹھ بندھن کے ساتھ ہے۔ کون کہاں سے لڑےگا، مذہب-ذات، زبان اہم نہیں ہے۔ ہمیں ان سب سے اوپر اٹھکر دیکھنا چاہیے کیونکہ ہدف فاشسٹ طاقتوں کو ہرانا ہے۔
وہیں بی جے پی کی بات کریں تو پارٹی نے اس بار بھی اپنی پرانی روایت برقرار رکھی ہے۔ جھارکھنڈ کی تشکیل کے بعد سے بی جے پی نے تین بار اسمبلی انتخاب لڑا ہے اور چوتھی بار لوک سبھا لڑ رہی ہے۔ ہر بار کے انتخاب کی طرح اس بار بھی پارٹی نے ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا۔کسی بھی مسلم کو ٹکٹ نہ دینے کے سوال پر جھارکھنڈ بی جے پی کے ترجمان پروین پربھاکر کہتے ہیں،یہ سوال آپ کو مہا گٹھ بندھن کی جماعتوں سے پوچھنا چاہیے، کیونکہ وہ اپنے کو اقلیتوں کا خیر خواہ بتاتے ہیں۔ رہی بات ٹکٹ کی تو ہم نے جھارکھنڈ سے دو مسلم راجیہ سبھا رکن پارلیامان بنائے ہیں۔ ایم جے اکبر اور مختار عباس نقوی۔ اقلیتی سماج سے لوئیس مرانڈی ریاست میں وزیر اور مشفق حسن ریاستی ترجمان ہیں۔
انہوں نے کہا، ترقی میں اقلیتی کمیونٹی کی اتنی ہی شراکت داری ہے جتنی ہندو سماج کی ہے۔ ذات اور مذہب کے نام پر بی جے پی کوئی جانبداری نہیں کرتی ہے۔سینئر صحافی مدھوکر کہتے ہیں،کوئی بھی پارٹی ہو۔ ملک اور ریاست کے ایک بڑے کمیونٹی کو نظرانداز کرنا صحت یاب جمہوریت کی روایت نہیں ہے۔ جھارکھنڈ میں مسلموں کی ایک بڑی آبادی ہے اس لئے ان کو ٹکٹ ملنا ہی چاہیے تھا۔ اقلیتوں کو ٹکٹ نہ ملنے کے لئے یو پی اے اور این ڈی اے دونوں ہی ذمہ دار ہیں۔ اب ووٹر کو طے کرنا چاہیے کہ وہ پارٹیوں کو ووٹ دیںگے یا اتحاد کو، یا پھر ایک اچھے امیدوار کو دیںگے۔اقلیتوں کے آزاد انتخاب لڑنے کے سوال پر مدھوکر کہتے ہیں، میرا ماننا ہے کہ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑےگا۔ جھارکھنڈ میں ووٹرس پارٹی کو ووٹ کرتا ہے۔ لوک سبھا انتخاب میں کوئی بھی شخص اتنا طاقتور نہیں ہے کہ جو ایک یا سوا لاکھ ووٹ کو متاثر کر سکے۔ چاہے وہ اقلیت ہو یا اکثریت ہو۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر