الیکشن کے قصے: ایس پی –بی ایس پی کے پہلے اتحاد کے وقت اتر پردیش اسمبلی کی وسط مدتی انتخاب میں جنتا دل نے اپنی تشہیر کی ذمہ داری لالو پرساد یادو کے کندھوں پر ڈالی تھی۔
وہ بہار کے وزیراعلیٰ لالو پرساد یادو کے جیل کے دن نہیں تھے۔ یہ وقت تھا 1990 میں کار سیوا کے لئے ایودھیا جا رہے بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی کو گرفتار کرکے ان کی رتھ یاترا کو روک دینے کے تین سال بعد کا۔ ہاں، ایس پی اور بی ایس پی کے پہلے اتحاد کا۔’ ملے ملائم کانشی رام، ہوا ہو گئے جئے شری رام ‘کے۔ بابری مسجد کی توڑپھوڑ کو لےکر کلیان سنگھ کی حکومت برخاست کر دی گئی تھی اورگورنرراج کے بعد اتر پردیش میں اسمبلی کی وسط مدتی انتخاب ہو رہے تھے۔ ملائم جنتا دل توڑکر اپنی الگ سماجوادی پارٹی بنا چکے تھے اور بی ایس پی سے اتحاد کرکے میدان میں تھے۔
ان کے مقابلے جنتا دل کی حالت پتلی تھی کیونکہ اس کے پاس ریاست میں کوئی بڑا ماس لیڈر نہیں تھا جو اپنے کرشمہ سے رائےدہندگان کو اپنی طرف لائے اور ملائم کو فرقہ پرستی مخالف جدو جہد کا اکلوتا چیمپین بننے سے روکے۔بہت غور و فکر کے بعد جنتا دل نے یہ ذمہ داری لالو کے کندھوں پر ڈال دی۔ اس کے بعد لالو ریاست میں جہاں بھی جنتا دل کے امیدواروں کی تشہیر کرنے گئے، بس ایک ہی بات کہی۔
‘ ہم نے ملائم سے کہا کہ دیکھ بھائی، تو جنتا دل نہ توڑ۔ آ، اسی میں رہ۔ انتخاب جیتنے کے بعد تو ہی وزیراعلیٰ ہو لینا بھائی۔ بہار سے لالو تھوڑے ہی آئےگا، یوپی کا چیف منسٹری کرنے۔ لیکن کیا کروں، ملائم بھائی کی عادت ہے کہ ایسے تو کڑے بنے رہتے ہیں لیکن کوئی بحران آ پڑے تو بہت ملائم ہو جاتے ہیں۔ اتنے ملائم کہ بیچارے کی عقل ہی کام نہیں کرتی۔
سچ کہتا ہوں، ان کی عقل نے کام کرنا بند کر دیا تو ہماری نیک صلاح کو ٹھکراکر سائیکل پر چڑھے اور ہاتھی کے آگے کود پڑے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ہاتھی کے آگے کود پڑنے والے سائیکل سوار کی کیسی بربادی ہوگی؟ کہیں وہ ہاتھی کے نیچے آ گیا تو؟ ‘
سائیکل سماجوادی پارٹی کا انتخابی نشان ہے اور ہاتھی بہوجن سماج واد پارٹی کا۔ اس انتخاب میں جنتا دل کا حال تو لالو کی تشہیر کے باوجود برا ہی رہا، لیکن سائیکل پر چڑھکر ہاتھی کے آگے کود پڑنے والے ان کے جملے نے پوری تشہیری مہم میں ملائم کو خوف زدہ کئے رکھا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر