مسیحی تہوار ایسٹر کے موقع پر کیے جانے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں میں مسیحی افراد کی ہلاکتوں کا سوگ ابھی تھما نہیں تھا کہ سری لنکا کے سینکڑوں مسلمان شہریوں کو مذہبی کشیدگی کی وجہ سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بدھ کے روز متعدد پاکستانی مسلمان باشندے مقامی لوگوں کی جانب سے جوابی کارروائی کے خوف کی وجہ سے نیگومبو نامی شہر چھوڑ چکے ہیں۔ پولیس اور کمیونٹی رہنماؤں نے بسوں کے ذریعے ان افراد کو محفوظ مقامات تک منتقل کر دیا ہے۔ایک پاکستانی مسلم شخص عدنان علی نے روئٹرز کو بتایا کہ بم دھماکوں کے بعد مقامی لوگوں کی جانب سے ان کے گھروں پر حملے کیے گئے۔ علی کے بقول، ’’ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کہاں جائیں گے۔‘‘
سری لنکا میں اکیس اپریل کو گرجا گھروں اور ہوٹل میں کیے گئے چھ دہشت گردانہ حملوں میں کم از کم 359 افراد کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ چرچ کے رہنما سمجھتے ہیں کہ کولمبو کے نواحی علاقے نیگومبو میں واقع سینٹ سباستیان گرجا گھر میں ہونے والے دو دھماکوں میں ہلاک شدگان کی تعداد دو سو تک پہنچ سکتی ہے۔علاوہ ازیں جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش سری لنکا میں ایسٹر کے تہوار پر کیے جانے والے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے۔
نیگومبو سے منتقل ہونے والے مسلمان باشندوں کا تعلق احمدیہ برادری سے ہے۔ واضح رہے پاکستان کے آئین میں احمدیہ افراد کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد سے احمدی کمیونٹی اپنے مذہبی عقیدے کی بنا پر ایک عرصے سے امتیازی سلوک کا شکار رہی ہے۔ سری لنکا میں ان حالیہ حملوں کے بعد احمدیہ افراد ایک مرتبہ پھر پناہ کی تلاش میں ہیں۔احمدیہ مسجد کے باہر بس کا انتظار کرتی ایک پاکستانی خاتون فرح جمیل نے روئٹرز کو بتایا کہ مالک مکان نے ان کو گھر سے باہر نکال دیا اور اب ان کے پاس رہنے کی جگہ نہیں ہے۔
دریں اثناء سری لنکا کی پولیس نے بتایا ہے کہ نیگومبو کے مقامی افراد کی جانب سے بے شمار فون کالز موصول ہوئی ہیں جس میں پاکستانی شہریوں پر شبے کا اظہار کیا گیا ہے۔ پولیس اہلکار ہیراتھ سیسیلا کمارا کے مطابق شکایات کے پیش نظر انہیں مشتبہ افراد کے گھروں کی تلاشی لینا ہوگی۔احمدی مسجد پر جمع ہونے والے تقریباﹰ پینتیس پاکستانیوں کو پولیس کی نگرانی میں نامعلوم مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ کمارا کے بقول، ’’تمام پاکستانیوں کو محفوظ مقامات میں رکھا گیا ہے اور اپنی واپسی کا وہ خود ہی فیصلہ کریں گے۔‘‘
سری لنکا کی مجموعی آبادی میں اکثریت شہریوں کا تعلق بدھ مت سے ہے تاہم وہاں ہندوؤں، مسلم اور مسیحی اقلیتیں بھی آباد ہیں۔ واضح رہے ان واقعات سے قبل سری لنکن مسیحی برادری عموماﹰ اس جزیرے کے سیاسی، نسلی اور مذہبی کشیدگیوں سے کنارہ کشی ہی اختیار کرتی تھی۔ نیوگومبو کے ایک پادری جوڈے تھوماس کے مطابق یہاں مسلمان اور مسیحی ہمیشہ پر امن انداز میں ساتھ رہتے تھے لیکن اب حالات جس نوعیت پر پہنچ چکے ہیں اس کو سنبھالنا مشکل ہے۔
Categories: عالمی خبریں