فکر و نظر

کسانوں کے سامنے کیوں جھکی پیپسی کو؟

یہ غلط فہمی پھیلائی گئی کہ ایف سی-5 آلو کا ایسا پیٹنٹ پیپسی کو کے پاس ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کسان اس آلو کی پیداوار ہی  نہیں کر سکتے۔ یہ سچ نہیں ہے۔

(فوٹو بہ شکریہ : پیپسی کو انڈیا)

(فوٹو بہ شکریہ : پیپسی کو انڈیا)

قانون کی آڑ میں ملٹی نیشنل  کمپنیاں کسانوں پر کیسے ظلم وستم کر سکتی ہیں اس کی جھلک گزشتہ دنوں دیکھنے کو ملی۔ کولڈ ڈرنک بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنی پیپسی کو نے گجرات کے 11 کسانوں کے خلاف مبینہ طور پرغیرقانونی طریقے سے ایک خاص قسم کے  آلو کی پیداوار اور بیچنے کے خلاف مقدمہ کر دیا۔کمپنی کا دعویٰ تھا کہ اس نے ہندوستانی پیٹنٹ قانون کے تحت آلو کی ایف ایل-2027 ویرائٹی کا رجسٹریشن کرایا ہوا ہے جس کو وہ ایف سی-5 برانڈ سے بیچتی ہے۔ بغیر اجازت اس  آلو کو پیدا کرنے والے کسانوں سےپیپسی کو نے 20 لاکھ روپے سے لےکر 1.05 کروڑ روپے تک کا معاوضہ  مانگا تھا۔ سابرکانٹھا، بناسکانٹھا اور اراولی ضلع کے ان کسانوں کے خلاف الگ الگ عدالتوں میں تین مقدمے درج کرائے گئے۔

پیپسی کو کا دعویٰ شروعات میں جتنا طاقتور سمجھا جا رہا تھا، اصل میں اتنا  تھا نہیں۔ کسان تنظیموں  کے دباؤ اور معاملے کو لےکر  بیداری نے پیپسی -کوکو قدم واپس کھینچنے پر مجبور کر دیا۔ 2 مئی کو کمپنی نے کسانوں کے خلاف مقدمہ واپس لینے کا اعلان کیا اور 5 مئی کو دو کسانوں پھول چند کچھاوا اور سریش چند کچھاوا کے خلاف گجرات کی ڈیسا کورٹ میں چل رہا معاملہ واپس لے لیا۔ باقی مقدمے بھی جلد واپس ہونے کی امید ہے۔

کم نمی والا ایف سی-5 آلو خاص طور پر پیپسی کے لیز چپس کے لئے اگایا جاتا ہے۔پیپسی کو کا دعویٰ تھا کہ بنا اجازت اس آلو کی زراعت اور فروخت کر کسانوں نے اس کے پیٹنٹ حقوق کی خلاف ورزی کی اور کاروبار کو نقصان پہنچایا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ کمپنی کو جلدہی اپنا قانونی پہلو کمزور ہونے اور ہندوستانی قانون میں کسان کے حقوق کا احساس ہو گیا۔ اس لئے مقدمہ سے پیچھے ہٹنا مناسب سمجھا۔ ملک بھر‌کی تمام کسان تنظیموں  کے علاوہ بی جے پی حامی سودیشی جاگرن منچ نے بھی پیپسی کو کے رویے پر سخت اعتراض کیا تھا۔

حالانکہ ابھی یہ صاف نہیں ہے کہ گجرات حکومت سےپیپسی کو کی کیا بات ہوئی اور کسانوں سے مقدمہ کن شرطوں پر واپس لئے جا رہے ہیں۔ لیکن اس پورے پس منظر نے بیجوں پر کسانوں کے حق کو لےکر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ بیجوں پر کسان کے حق کی آوازیں کئی سال سے اٹھ رہی ہیں، لیکن اس معاملے نے زراعت سے جڑے انٹلکچوئل پروپرٹی رائٹ ایکٹ کے دھندلےپن اور پیچیدگیوں کو بھی اجاگر کیا ہے۔

فلیش بیک

یہ معاملہ پچھلی تین دہائی میں اقتصادی لبرلائزیشن کی راہ پر چلنے، بھٹکنے اور ٹھٹکنے کے ہندوستان کے تجربے سے جڑا ہے۔ جس کے سرے 80 کی دہائی کے اس دور سے منسلک ہوتے ہیں جب ہندوستانی سافٹ ڈرنکس بازار پر پارلے جیسی گھریلو کمپنیوں کا دبدبہ تھا۔ راجیو گاندھی، جو آج کل کافی چرچے میں ہیں، تب ان کے اقتدار سنبھالنے کے دن تھے۔ معیشت کو نہرو دور کا سماجوادی گرفت سے نجات دلانے کے لئے معیشت کے دروازے ملٹی نیشنل کمپنیوں  کے لئے کھولے جانے لگے۔

1990_pepsi_sale-300x281

انہی دروازوں پر 1985 میں امریکی سافٹ ڈرنک کمپنی پیپسی کو نے دستک دی تھی۔پیپسی کو نے پنجاب میں ایگرو ریسرچ سینٹر قائم کر فصلوں کی نئی ویرائٹی فروغ دینے، آلو چپس اور ٹماٹر کیچپ کے لئے فوڈ پروسیسنگ پلانٹ لگانے اور کسانوں کے فائدے کے سبزباغ دکھائے۔ بدلے میں کمپنی ہندوستان میں کولڈ ڈرنک بیچنے کی اجازت چاہتی تھی۔ انہی منصوبوں کے ساتھ 1986 میں پیپسی کو نے پنجاب حکومت اور ٹاٹا کی وولٹاس کے ساتھ ایک جوائنٹ وینچر کیا۔ملک میں پیپسی کو کی اینٹی کا گھریلو کمپنیوں اور سودیسی علمبرداروں نے خوب مخالفت کی۔ آخرکار 1988 میں حکومت ہند نےپیپسی کو کو پنجاب میں باٹلنگ اور فوڈ پروسسنگ پلانٹ شروع کرنے کی اجازت دے دی اور 1990 میں دیسی کی لہر‌کے درمیان پیپسی کو کے تین برانڈ پیپسی، 7-اپ اور مرنڈا جئے پور سے لانچ ہوئے۔اس طرح آلو چپس کے ساتھ پیپسی کو کا ہندوستان سے رشتہ تقریباً تین دہائی پرانا ہے جس میں پہلی بار کمپنی اور کسان آمنے سامنے آئے۔

ایف سی-5 آلو کی انٹری

سال 2009 میں پیپسی کو آلو کی ایف سی-5 ویرائٹی ہندوستان لےکے آئی۔ تاکہ لیز چپس کو خاص ذائقہ اور پہچان دی جا سکے۔ اس کی شروعات بھی پنجاب سے ہوئی۔ معاہدے کے تحت کمپنی نے کسانوں کو ایف سی-5 آلو کا بیج دیا اور ان سے پیداوار خریدنے لگی۔ آگے چل‌کر یہی ماڈل گجرات میں اپنایا گیا جہاں سابرکانٹھا ضلع کے ہزاروں کسان یہ آلو اگانے لگے۔اس بیچ، 2016 میں پیپسی کو نے ہندوستان کے پروٹیکشن آف پلانٹ ویرائٹیز اینڈ فارمرس رائٹس ایکٹ، 2001 (پی پی وی اینڈ ایف آر اے) کے تحت آلو کی ایف سی-5 ویرائٹی کو رجسٹرڈ کرا لیا۔ لیکن چونکہ سالوں سے اس آلوکو  ملک میں اگایا جا رہا ہے اس لئے جن کسانوں کے ساتھ کمپنی کا معاہدہ نہیں ہے، ان تک بھی یہ قسم پہنچی اور وہ بھی اس کی زراعت کرنے لگے۔

کیا ایسا کرنا غیرقانونی ہے؟ نہیں!

جانیے کیسے؟

جس پی پی وی اینڈ ایف آر ایکٹ کو بنیاد بناکرپیپسی کو نے کسانوں کے خلاف مقدمہ کیا، اسی قانون کا سیکشن 39 کسانوں کو رجسٹرڈ ویرائٹی کی پیداوار اپنے پاس بچا کر رکھنے، اس کو دوبارہ اگانے اور بیچنے کی چھوٹ دیتا ہے۔ بشرطیکہ کسان رجسٹرڈ وےیرائٹی کے برانڈیڈ بیج نا بیچیں۔ مطلب کسان رجسٹرڈ بیج اُگا سکتے ہیں۔ آپس میں اس کا لین دین اور فروخت کر سکتے ہیں لیکن اس کی خود برانڈنگ کر نہیں بیچ سکتے۔یہ کہنا مشکل ہے کہ گجرات کے کسانوں نے اس اہتمام کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں۔ لیکن ایک بات صاف ہے کہ پیپسی کو کے پاس ایف سی-5 آلو کا ایسا کوئی پیٹنٹ نہیں ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی دوسرا اس آلو کو اُگا ہی نا پائے۔ یہ ایک غلط نظریہ تھا جو شروعات میں میڈیا کے ذریعے پھیلایا گیا۔

پی پی وی اینڈ ایف آر ایکٹ کا سیکشن 42 کہتا ہے کہ اگر کسان کو کسی اہتمام کی خلاف ورزی کے وقت اس کی جانکاری نہیں ہے تو اس کو مذکورہ خلاف ورزی کا قصوروار نہیں مانا جانا چاہیے۔ یہ بات بھی پیپسی کو کے رویے کے خلاف جاتی ہے کیونکہ تمام رجسٹرڈ اقسام کی جانکاری کسانوں کو ہونا ضروری نہیں ہے۔تیسری بات یہ ہے کہ ایف سی-5 ویرائٹی کے آلو کی کھوج 2016 میں نہیں ہوئی تھی۔ ہندوستان میں یہ آلو 2009 سے اگایا جا رہا ہے۔ پیٹنٹ قانون کے تحت اس کا رجسٹریشن بھی پہلے سے مروجہ قسم کے زمرہ میں ہی ہوا ہے۔ شاید اس پہلو کو بھی پیپسی کو نے نظرانداز کیا۔ویسے، عام جانکاری والی مروجہ اقسام کے رجسٹریشن کے ساتھ بھی کئی دقتیں ہیں۔2001 میں جب پی پی وی اینڈ ایف آر ایکٹ بنا تب بھی کئی ماہرین نے اس پر اعتراض کیا تھا۔ ان کی دلیل تھی کہ کمپنیاں اپنی پرانی اقسام کا رجسٹریشن کراکر کسانوں کو ان کے استعمال سے روک سکتی ہیں یا ان کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتی ہیں۔تقریباً 20 سال بعد یہ خدشہ صحیح ثابت ہوا۔

بہر حال ایک بات صاف ہے جو پیٹنٹ قانون پیپسی کو جیسی کمپنیوں کو اپنے بیج رجسٹرڈ کرانے کی سہولیت دیتا ہے، اسی قانون سے کسانوں کو بھی کئی حق ملے ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے ہندوستانی قانون امریکہ اور یورپی ممالک کے قوانین سے الگ ہے۔تمام کسان بازار سے بیج نہیں خریدتے۔ بہت سے کسان پرانی پیداوار کا ایک حصہ بیج کے لئے بچاکر رکھ لیتے ہیں یا پھر آپس میں بیجوں کا لین دین کرتے ہیں۔ بیجوں کے استعمال کی یہ آزادی کسانوں کے ساتھ-ساتھ حیاتیاتی تنوع اور ملک کا اشیائےخوردنی کی برتری کے لئے بھی ضروری ہے۔ اس لئے پی پی وی اینڈ ایف آر ایکٹ کسانوں کو رجسٹرڈ بیج کے استعمال کی آزادی اور حق بھی دیتا ہے۔

اس تنازعے کا ایک پہلو اس الزام سے بھی جڑا ہے جس کے مطابق، ایف سی-5 آلو اگانے والے گجرات کے کسان لیز کے حریف برانڈ کو اس کی فراہمی کرتے ہیں جوپیپسی کو کے مفادات کے خلاف ہے۔ ایسے کسانوں پر شکنجہ کس‌کر کمپنی لوکل کمپٹیشن کو شکست دینا چاہتی ہے۔ اس طرح یہ ایک کارپوریٹ جنگ ہے جس میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی اور اس کو ٹکر دینے والی مقامی برانڈ آمنے سامنے ہیں اور کسان بیچ میں پس رہے ہیں۔

اب آگے

ہندوستان کے لئے یہ معاملہ خطرہ کی گھنٹی ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہندوستان ڈبلیوٹی او کے سمجھوتہ کے تحت زراعتی شعبے میں نافذ ہوئے انٹلکچوئل پروپرٹی رائٹ ایکٹ میں کسانوں کے حق اور اپنی اشیائےخوردنی برتری کے حق کو محفوظ رکھ پاتا ہے یا نہیں۔ زراعت سے جڑے پیٹنٹ قانون کے کئی اہتمام پوری طرح واضح نہیں ہیں۔ جن کا فائدہ اٹھاکرپیپسی کو جیسی بڑی کمپنیاں کسانوں کا استحصال کر سکتی ہیں۔

 آئی پی آر سے جڑے معاملوں کے ماہر پروفیسر بشوجیت دھر کا ماننا ہے کہ اس معاملے نے پی پی وی اینڈ ایف آر ایکٹ سے جڑے کئی مسائل کو ابھارا ہے جو اس کے متنازعہ اہتماموں اور ان کو نافذ کرنے کے طریقوں سے جڑے ہیں۔ اگر ان مدعوں کو اس قانون کا اصل جذبہ اور کسان کمیونٹی پر اثر کو دھیان میں رکھتے ہوئے نہیں سلجھایا گیا تو ہندوستانی زراعتی شعبے کے سامنے موجودہ بحران اور سنگین ہو جائے‌گا۔

کسان حقوق کی پیروی کرنے والی تنظیم آشا کی کنوینر کویتا کروگنٹی نے ایک بیان جاری کر کسانوں کے خلاف مقدمہ واپس لینے کےپیپسی کو کے فیصلے کو ہندوستانی کسانوں کی جیت بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستانی قانون سے کسانوں کو ملی بیج آزادی برقرار رہنی چاہیے۔ کسانوں پر ظلم وستم کرنے والی پیپسی کو کو معافی مانگ‌کر اور کسانوں کو معاوضہ دینا چاہیے۔ مستقبل میں ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو اس کے لئے حکومت کو بھی پختہ نظام بنانا ہوگا۔

پیپسی کو کے ذریعے کسانوں سے مقدمہ واپس لینا ہی کافی نہیں ہے۔ جن دلیلوں کے ساتھ کمپنی نے کسانوں پر ایک ایک کروڑ روپے کے مقدمہ ٹھوکے تھے ان میں قانونی وضاحت آنی ضروری ہے۔ بہتر ہوتا اگر یہ معاملہ عدالت کے فیصلے سے سلجھتا اور مستقبل کے لئے مثال بنتا۔

(اجیت سنگھ اصلی بھارت کے بانی مدیر ہیں ، یہ مضمون ویب سائٹ کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے۔)