2014 کے عام انتخابات میں محض 18 فیصد ٹرانس جینڈر نے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔
نئی دہلی : قانونی طور پر پہچان ملنے کے بعد دہلی میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی نے گزشتہ اتوار کو پہلی بار تھرڈ جینڈر کےتحت حق رائے دہندگی کا استعمال کیا۔ الیکشن کمیشن کے دہلی دفتر کے مطابق اس بار ووٹر لسٹ میں تھرڈجینڈر کے تحت تقریباً 669 ٹرانس جینڈر کے نام رجسٹرڈ ہیں۔جبکہ حکومت کی 2011کی مردم شماری کے مطابق دہلی میں 4213 ٹرانس جینڈر ہیں ۔ وہیں ٹرانس جینڈر کے لیے کام کرنے والی ایک غیرت سرکاری تنظیم کمیونٹی امپاور منٹ ٹرسٹ کی صدر ریحانہ یادو کے مطابق دہلی میں اس وقت 10 ہزار سے زیادہ ٹرانس جینڈر ہیں ۔ اس کمیونٹی کے ممبروں کا کہنا ہے کہ ہمارا ووٹ ہماری زندگی میں ہر طرح سے تبدیلی لانے کے لئے ہے۔
ریحانہ یادو کا کہنا ہے کہ ،اس سے پہلے میں نے دو بار ووٹ ڈالا ہے۔ لیکن اس بار میں نے اپنی صحیح پہچان کے ساتھ ووٹ ڈالا ہے۔ نیشنل لیگل سروس اتھارٹی (این اے ایل ایس اے) کے فیصلےکے بعد جس نے ہمیں تھرڈ جینڈر کے طور پر پہچان دی ہے، اب لوگوں نے ہمیں قبول کرنا شروع کیا ہے۔ ووٹ ڈالتے وقت میرے ذہن میں یہ بھی تھا کہ حال میں دہلی حکومت نے ٹرانس جینڈر ویلفیئر بورڈ بنانے کی بات کہی ہے۔ممتاز بائی نے کہا،اس کمیونٹی کے ووٹر کا رجسٹریشن این اے ایل ایس اے کے فیصلے کی بنیاد پر ہوا ہے۔ ہمارے ملک میں غریبوں کے لئے پالیسیاں بنائی جاتیں ہیں، لیکن، ہمارے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ تھرڈ جینڈر کمیونٹی کو بےروزگاری کے مسئلہ سے بڑے پیمانے پر جوجھنا پڑ رہا ہے۔
ممتاز نے کہا کہ جو عورت یا مرد ہیں ان کو جاب نہ ملنے کا مسئلہ ہو سکتا ہے، لیکن ہمیں تو جاب کرنے لائق ہی نہی سمجھا جاتا ہے۔لولی بائی نے کہا قانونی طور پر پہچان ملنے کے بعد بھی اس کمیونٹی کے لوگوں کو مین اسٹریم میں آنے کے لئے جدو جہد کرنی پڑ رہی ہے۔ایک اور ٹرانس جینڈر سپنا بائی نے کہا کہ انہوں نے ایک نئی حکومت کے لئے ووٹ ڈالاہے جو اپنے کئے وعدوں کو پورا کرےگی۔قابل ذکر ہے کہ 2014 کے عام انتخابات میں محض 18 فیصد ٹرانس جینڈر نے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔
(خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں