اتر پردیش کے کسی شہر میں امت شاہ کا روڈ شو لوگوں کے دل میں ڈر اور خوف پیدا کر سکتا ہے، لیکن مغربی بنگال یوپی نہیں ہے۔
اقتداربدعنوانی میں شامل ہوتی ہے اور لامحدود اقتدار مکمل طور پر بدعنوانی میں ملوث ہوتی ہے۔ نریندر مودی-امت شاہ کی جوڑی کے ممتا بنرجی کے آمنے سامنے سے یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ کس کے پاس پوری طاقت ہے۔ کم سے کم اس سچائی پر تو شک کی کوئی گنجائش نہیں رہنی چاہیے۔لامحدود یا مطلق العنانیت خطرناک ہوتی ہے کیونکہ یہ آپ کو لگاتار اس کا استعمال کرنے کا اشارہ دیتی رہتی ہے۔ ایک ماہر سیاستداں طاقت کو ہلکے طریقے سے استعمال کرنا سیکھتا ہے، لیکن کم تجربہ کار رہنما اس کو ہتھوڑے کی طرح استعمال کرنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں، جس کا اثر اپنےآپ ہی بڑے پیمانے پر لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔بھلا ہو الیکشن کمیشن کے غیر متوقع حکم کا، جس نے مغربی بنگال کی لوک سبھا سیٹوں پر ایک دن پہلے (حالانکہ مودی کی طےشدہ ریلیوں کے ہونے کے بعد)انتخابی تشہیر پر روک لگا دی، جس کی بدولت ممتا بنرجی رائےدہندگان کی کچھ ہمدردی بٹورنے میں کامیاب رہیں۔
امت شاہ کی ان کی بےگناہی کے اعلان کے باوجود یہ صاف ہے کہ اس معاملے میں مغربی بنگال کے رائےدہندگان کی ہمدردی ممتا بنرجی کے ساتھ ہوگی، بھلےہی بی جے پی اپنے ٹی وی چینلوں کے ذریعے اس کو کوئی بھی شکل دے۔اس سے یہ بھی دکھتا ہے کہ عوام بےلگام طاقت کے استعمال / غلط استعمال کو کیسے دیکھتی ہیں۔بھگوا پہنے،’جئے شری رام ‘چلاتے نوجوانوں سے بھرا امت شاہ کا روڈ شو اکسانے والا تھا-اتر پردیش کے کسی شہر میں یہ لوگوں کے دل میں ڈر اور ہیبت طاری کر دیتا، لیکن مغربی بنگال اتر پردیش نہیں ہے۔اور ممتا بنرجی نے بھی سڑکوں کی کٹھن سیاست سیکھی ہوئی ہے۔ اس طرح بی جے پی کو ترنمول کانگریس میں اپنا میل مل گیا ہے۔ شاہ کو پتہ تھا کہ ان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑےگا اور واضح طور پراکساوا دونوں جانب سے تھا، جو اب سامنے آئے ویڈیو میں بھی دکھائی دیتا ہے۔
شاہ کے روڈ شو میں تشدد کیسے بھڑکا، اس کو تفصیل سے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اہم یہ ہے کہ مغربی بنگال میں نریندر مودی اور امت شاہ کسی بھی قیمت پر ایک حکمت عملی کے تحت کام کر رہے ہیں، جس سے ہندی پٹی میں رہی کمیوں کی تکمیل بنگال میں ہو سکے۔پارٹی کی حکمت عملی کا حصہ اقتدار کے مختلف طریقوں کے ذریعے ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی کے خلاف ایک نفسیاتی جنگ شروع کرنا تھا۔ شاہ نے بار بار یہ کہہکر کہ الیکشن کمیشن بنرجی کے حق میں کام کر رہا ہے، کمیشن پر دباؤ بنائے رکھا۔ایسا تب ہو رہا تھا جب عوامی جلسوں میں دیے تقریروں میں تمام طریقے کی خلاف ورزی پر مودی اور شاہ کو ایک کے بعد ایک کلین چٹ ملیں اور کمیشن کے تین میں سے ایک ممبر کے ذریعے اس کی مزاحمت کی گئی۔
الیکشن کمیشن کے اوپر مغربی بنگال میں کچھ کرنے کا بےحد دباؤ تھا۔ آخرکار، امت شاہ کے روڈ شو میں ہوئے تشدد کے بعد کمیشن نے انتخابی تشہیر کو وقت سے پہلے روکنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 324 کا استعمال کیا۔دلچسپ ہے کہ کمیشن نے اپنے اس غیر معمولی حکم میں لکھا ہے کہ ‘ کوئی بھی عوام کو فلم اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ یا میوزیکل کانسرٹ، ڈرامہ یا کوئی پروگرام منعقد کر کےانتخابی تشہیر سے متعلق مواد نہیں دکھا سکتا۔ ‘حالانکہ آرٹیکل 324 کے اس غیر معمولی حکم کے دائرے میں نمو ٹی وی آتا ہے یا نہیں، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔کمیشن نے مغربی بنگال میں پھیلے ڈرکے ماحول کا بھی ذکر کیا ہے، جہاں اوپر سے سب حسب معمول دکھتا ہے لیکن جس کا اثر ڈراونا ہو سکتا ہے۔ یہی دلیل اتر پردیش کے کئی حصوں کے لئے بھی دیا جا سکتا ہے، جہاں اوپری طور پر بھلےہی سب حسب معمول لگ رہا ہو لیکن ہندوتوا بریگیڈ اورمشہور باہوبلی انتخابات کے دوران خوف کے ماحول کو یقینی بناتے ہیں۔
کیا ملک کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار آرٹیکل 324 کو نافذ کرنے کے لئے یہ خاطر خواہ بنیاد ہے؟ یہ سوال لوگوں کے دل سے اتنی آسانی سے نہیں جائےگا۔صرف امید کی جا سکتی ہے کہ اس بار رائےدہندگان ایسا فیصلہ سنائیں، جس سے کسی بھی حکمراں جماعت کو اس طرح کی بےلگام طاقت نہ ملے۔
Categories: فکر و نظر