فیک نیوز راؤنڈ اپ: جالندھر سے ایک آزاد امیدوار کو صرف پانچ ووٹ کیسے ملے جبکہ اس کے خاندان میں ہی 9 افراد تھے؟ کیا سی پی آئی کے امیدوار کنہیا کمار نے غیر قانونی طریقے سے دولت حاصل کی؟ کیا ایک ہندوستانی کروڑپتی نے امریکہ کی سڑکوں پر مودی کی جیت کی خوشی میں کرنسی نوٹوں کی برسات کی؟
گزشتہ ہفتے 17ویں لوک سبھا کے لئے عام انتخابات مکمل ہوئے اور 23مئی کو الیکشن کمیشن آف انڈیا نے نتائج کا اعلان کیا جس میں بی جے پی کو بڑی جیت حاصل ہوئی۔تقریباً تین مہینے تک 7 مرحلوں میں ہوئے ان انتخابات میں فیک نیوز کی اشاعت بڑے پیمانے پر ہوئی جو نتیجے آنے کے بعد بھی جاری رہی۔ انتخابات کے دوران سب سے زیادہ ممتا بنرجی کو نشانہ بنایا گیا۔ممتا کے بعد کانگریس پارٹی کےصدر راہل گاندھی اور بیگو سرائےسےکنہیاکمارنشانےپررہے۔
فیس بک پر دعویٰ کیا گیا کہ بے روزگار کنہیا کمار کے پاس تقریباً 18کروڑ روپے کا اثاثہ ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کنہیا کے پاس غیر قانونی طریقوں سے حاصل کی گئی دولت اور جائیداد ہے۔ ‘آئی لو مائی انڈیا‘ نامی فیس بک پیج پر کنہیا کے اثاثے اور سادھوی پرگیہ ٹھاکر کے اثاثے کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا گیا؛
سادھوی پرگیا ٹھاکر کا کل اثاثہ4 لاکھ 50 ہزار روپے ہے اور بے روزگارکنہیا کمار کے پاس18کروڑ روپے ہیں! یہ 18کروڑ روپے کا اثاثہ کہاں سے آیا؟
مذکورہ فیس بک پیج پر یہ دعویٰ 10 مئی کو کیا گیا تھا جو گزشتہ ہفتے بھی سوشل میڈیا پر عوام میں گمراہی کا سبب بنا رہا۔ اسی پیج سے اس پوسٹ کو تقریباً 3400 مرتبہ شئیر کیا گیا۔
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ فیس بک پر کنہیا کے اثاثے کے تعلق سے کئے گئے دعوے حقیقت کے برعکس تھے۔ کنہیا نے اپنے الیکشن حلف نامے میں یہ درج کیا ہے کہ ان کی دو سال کی آمدنی5 سے 8لاکھ روپے ہے اور زمین جائیداد کا دام5 لاکھ روپے ہے۔کنہیا کمار نے اپنے حلف میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ بے روزگار ہیں اور ان کی آمدنی کے ذرائع مختصر ہیں جن میں فری لانسنگ،مضمون نگاری، اور ان کی کتاب ‘بہار سے تہاڑ’ کی آمدنی شامل ہے۔ لہٰذا یہ ثابت ہو جاتی ہے کہ فیس بک پر کنہیا کمار کے آمدنی و اثاثہ کے تعلق سے کئے گئے دعوے جھوٹے تھے۔
انتخابات کے نتیجے آنے کے بعد ایک دلچسپ ویڈیو سوشل میڈیا میں عام ہوا۔ اس ویڈیو میں ایک پنجابی صحافی لوک سبھا الیکشن کے آزاد امیدوار نیتو شتران والہ سے گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک شتران والہ رو پڑے اور انہوں نے اپنی پریشانی کا سبب بتایا کہ وہ پنجاب کی جالندھر سیٹ سے لوک سبھا امیدوار تھے۔ ان کا شکوہ تھا کہ ان کے خاندان میں ہی 9 افراد موجود ہے اور ان کو صرف5 ووٹ ہی ملے ہیں۔ شتران والہ کا ماننا ہے کہ ان کے ووٹ چرا لئے گئے اور ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ لہٰذا انہوں نے اب قسم لی ہے کہ وہ کبھی الیکشن نہیں لڑینگے! ویڈیو:
شتران والہ کا یہ ویڈیو بہت وائرل ہوا اور اس خبر کو انگریزی اخباروں میں بھی جگہ ملی جس کی وجہ سے عوام میں الیکشن کمیشن اور الکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں شبہات پیدا ہوئے۔ لیکن اس سے پہلے کہ یہ شبہات پختہ ہو پاتے، بوم لائیو نے اس حقیقت سے عوام کو آگاہ کرایا۔ بوم نے بتایا کہ شتران والہ نے پنجابی چینل کو یہ انٹرویو 23 مئی کو بہت شروعاتی دور میں گنتی کے پہلے مرحلے کے بعد ہی دے دیا تھا، پہلے مرحلے کی گنتی میں ان کو صرف پانچ ووٹ ہی حاصل ہوئے تھے لیکن جیسے جیسے گنتی آگے بڑھتی چلی گئی، ان کے ووٹوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اور کل 856 ووٹ حاصل ہوئے۔یہ حقیقت الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ اس طرح شتران والہ کا یہ مغالطہ ان کی کم علمی پر مبنی تھا جو سوشل میڈیا میں فیک نیوز کی شکل میں رونما ہوا۔
کانگریس صدر راہل گاندھی اس لوک سبھا الیکشن میں دو جگہ سے اپنی امیدواری پیش کر رہے تھے۔ امیٹھی کے ساتھ ساتھ وہ کیرالہ کے وائناڈ سے بھی کانگریس پارٹی کے امیدوار تھے۔ امیٹھی میں ان کو اسمرتی ایرانی کے سامنےشکست حاصل ہوئی لیکن وائناڈ میں وہ فاتح ہوکر ممبر آف پارلیامنٹ بنے۔ لیکن ان کی اس فتح میں اس وقت ایک عجیب معاملہ سامنے آیا جب سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا گیا کہ راہل گاندھی کو تقریباً 13 لاکھ ووٹ حاصل ہوئے تھے لیکن الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر صرف 7 لاکھ ووٹ ہی درج کئے گئے ہیں، یعنی تقریباً 6 لاکھ ووٹوں کو غائب کر دیا گیا ہے! یہ دعویٰ ایک یو ٹیوبر شہزاد عالم برنی نے اپنے پروگرام ‘دی برنی شو’ میں کیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ شام 4:25 پر راہل گاندھی کے ووٹوں کی تعداد13 لاکھ تھی جس کو بعد میں7 لاکھ کر دیا گیا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ راہل گاندھی کے ساتھ دوسرے پائیدان پر موجود امیدوار کے ووٹوں کو بھی تبدیل کیا گیا تھا۔ ویڈیو؛
آلٹ نیوز نے واضح کیا کہ راہل گاندھی کے ووٹوں کے تعلق سے کیا گیا دعویٰ پختہ نہیں ہے۔ آلٹ نیوز نے انگریزی اخبار دی ہندو کی ایک مہینہ پہلے 24 اپریل کی خبر کو بنیاد بناکر یہ بات کہی کہ وائناڈ میں کل ووٹروں کی تعداد 1357819تھی جس میں صرف 1089819 ووٹروں نے ہی ووٹ ڈالے اور اس طرح تقریباً77 سے 79فیصد ووٹنگ ہوئی۔ اگر وائناڈ میں صد فیصد ووٹنگ ہوتی تو یہ ممکن تھا کہ 13 لاکھ ووٹ درج کئے جاتے لیکن اس صورتحال میں بھی یہ ممکن نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ 13 لاکھ ووٹ صرف راہل گاندھی کو ہی ملتے! لہٰذا، ووٹوں کو غائب کرنے کے حوالے سے جو دعوے کئے گئے ہیں وہ پختہ نہیں ہیں اور گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔ البتہ اس موقف سے اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی سائٹ پر اعداد کی انٹری کرتے وقت ٹیکنکل غلطی ہو گئی ہو جس کو بعد میں درست کر دیا گیا ہو۔
بی جے پی کی بڑی جیت کے بعد سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو بہت وائرل ہوا۔ ویڈیو میں ایک شخص کسی شاہراہ پر کرنسی نوٹوں کی برسات کر رہا تھا اور عوام ان نوٹوں کو اٹھا اٹھا کر اپنے پاس رکھ رہے تھے۔ اس ویڈیو کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ ویڈیو نیو یارک کا ہے جہاں ایک ہندوستانی کروڑپتی بی جے پی کی شاندار جیت کی خوشی میں اپنی دولت لٹا رہا ہے! ویڈیو:
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ ویڈیو بے شک نیو یارک کا ہے جس کو Joe Kush نامی شخص نے اسی سال15 مئی کو اپلوڈ کیا تھا۔ Joe Kush ویڈیو انجنیئر اور میوزک پروڈیوسر ہیں۔ ان کے انسٹاگرام پروفائل پر ان کی ایسی متعدد ویڈیو دستیاب ہیں۔ لہٰذا، ہندوستان میں سوشل میڈیا پر ہندوستانی کروڑپتی کے نام سے معروف کئے گئے شخص دراصل امریکی فنکار نکلے اور یہ کہاوت پھر ثابت ہو گئی کہ ‘جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے’۔
(محمد نوید اشرفی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں اور ہر اتوار فیک نیوز پر دی وائر اردو کے لئے کالم لکھتے ہیں. ان کے پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)
Categories: خبریں