خبریں

جھارکھنڈ : بیف کھانے کے حق پر مبینہ پوسٹ لکھنے والے آدیواسی پروفیسر گرفتار

آدیواسی پروفیسر جیترائی ہانسدا کے وکیل نے کہا کہ ان کے خلاف جون، 2017 میں معاملہ درج کیا گیا تھا۔ وکیل نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ یہ گرفتاری جان بوجھ کر انتخابات کے بعد کی گئی ہے۔ انتخاب سے پہلے گرفتاری کرکے بی جے پی آدیواسیوں کو ناراض کرکے انتخابات میں ان کا ووٹ گنوانا نہیں چاہتی تھی۔

جیترائی ہانسدا،فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر@JharkhandJanad1

جیترائی ہانسدا،فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر@JharkhandJanad1

نئی دہلی : ہانسدا ایک آدیواسی کارکن اور تھیٹر آرٹسٹ ہیں۔ اپنے فیس بک پوسٹ میں انہوں نے آدیواسی سماج کےگائے کا گوشت کھانے کے حق کی بات کی تھی۔ہفنگٹن پوسٹ کے مطابق، جیترائی ہانسدا کے معاملے کو دیکھنے والی ٹیم کے ایک وکیل نے بتایا کہ ان کے ذریعے لکھے گئے ایک فیس بک پوسٹ کے لئے جون 2017 میں ان کے خلاف ایک شکایت درج کی گئی تھی۔اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر وکیل نے کہا کہ ان کو شک ہے کہ یہ گرفتاری جان بوجھ کر انتخابات کے بعد کی گئی ہے کیونکہ انتخاب سے پہلے گرفتاری کرکے بی جے پی آدیواسیوں کو ناراض کرکے انتخابات میں ان کا ووٹ گنوانا نہیں چاہتی تھی۔

واضح ہو کہ جھارکھنڈ میں وزیراعلیٰ رگھوبر داس کی قیادت میں بی جے پی کی ہی حکومت ہے۔ وہیں بی جے پی نے ریاست کی 14 لوک سبھا سیٹوں میں سے 12 میں جیت درج کی ہے۔2017 میں ہانسدا کے فیس بک پوسٹ کو لےکر کی گئی شکایت کی تفتیش کرنے کے بعد انسپکٹر انل سنگھ نے  ایف آئی آر درج کی تھی۔جیترائی ہانسدا کے وکیل کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے جب ہانسدا کو پولیس اسٹیشن بلایا جاتا تھا، تو پوچھ تاچھ کے بعد چھوڑ دیا جاتا تھا، لیکن سنیچر 25 مئی کو ان کی گرفتاری کر لی گئی۔انہوں نے کہا کہ سنیچر سے ہی ان کو حراست میں رکھا گیا ہے۔ ہانسدا نے پیشگی ضمانت کی عرضی بھی داخل کی تھی لیکن اس کو خارج کر دیا گیا۔

جمشیدپور کے ساکچی پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ہانسدا نے ایک فیس بک پوسٹ لکھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں آدیواسی کمیونٹی میں گائے کا گوشت کھانے اور گائے کی قربانی کی لمبی روایت رہی ہے۔ایف آئی آر کے مطابق، انہوں نے کہا کہ گوشت کا استعمال کرنا ان کا جمہوری‎ اور ثقافتی حق ہے۔ پوسٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ گائے کا گوشت کھانے پر ہندوستان کے قوانین کی مخالفت کرتے ہیں اور ان کی کمیونٹی ملک کے قومی پرندہ مور کوبھی کھاتا ہے۔ انہوں نے ہندو رسم و رواج پر اپنی  عدم دلچسپی کا بھی اظہار کیا۔

ہانسدا کے خلاف مذہبی عقائد کی توہین کرنے اور لوگوں کے درمیان دشمنی کو بڑھاوا دینے کے لئے آئی پی سی کی دفعہ 153 (اے)، 295 (اے) اور 505 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔اس سے پہلے 2017 میں جیترائی ہانسدا کے خلاف درج شکایت کی مخالفت کرتے ہوئے آدیواسی روایتوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والا ادارے ماجھی پرگنہ محل کے چیف دسماتھ ہانسدا نے کالج کے وائس چانسلر کو خط لکھ‌کر ان سے درخواست کی تھی کہ فرقہ وارانہ تنظیم اکھِل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کی شکایت کی بنیاد پر ان کو کالج سے نہ نکالا جائے۔