خبریں

بہار: ’نامعلوم بخار‘ سے تقریباً 120 بچوں کی موت، سسٹم کی ناکامی یا کچھ اور؟

محکمہ صحت  کے اعداد و شمار کے مطابق؛ سال 2014 میں اس بیماری کی وجہ سے 86 بچوں کی موت ہوئی تھی جبکہ 2015 میں 11، سال 2016 میں 4، سال 2017 میں 4 اور سال 2018 میں 11 بچوں کی موت ہوئی تھی۔

(فوٹو : دی وائر)

(فوٹو : دی وائر)

نئی دہلی:’نامعلوم بخار ‘کی وجہ سے گزشتہ تقریباً 20 دنوں میں بہار کے مظفرپور اور آس پاس کے کچھ ضلعوں کے تقریباً 120 بچوں کی موت کے بعد لوگوں کا غصہ  بڑھتا جا رہا ہے۔ناراضگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اتوار کو یہاں کے سرکاری ایس کےایم سی ایچ ہاسپٹل  آئے مرکزی صحت وزیر ہرشوردھن کو کالے جھنڈے  دکھائے گئے۔ لوگوں کے بڑھتے غصے کو دیکھتے ہوئے پولیس بھی محتاط ہے اور ہاسپٹل کے آس پاس سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

شری کرشن میڈیکل کالج اور ہاسپٹل ( ایس کے ایم سی ایچ) کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سنیل کمار شاہی نے بتایا کہ ایس کے ایم سی ایچ میں ‘ اے ای ایس ‘ سے گزشتہ  تقریباً تین ہفتے میں 85 بچّوں کی جان چلی گئی اور یہ سلسلہ رک نہیں رہا ہے۔ سوموار کو صبح اس سے متاثر 19 بچوں کو داخل کرایا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ سوموار کو بھی تین بچوں کی موت ہو چکی ہے۔ ایمس پٹنہ سے علاج میں مدد کے لئے کچھ ڈاکٹر آئے ہیں۔ 6 اسپیشلسٹ  نرسوں کو وینٹی لیٹر سہولیات  کے لئے لگایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں 1993 میں سب سے پہلے اس بیماری کا معاملہ سامنے آیا لیکن اس کی وجہ اب تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ کیجریوال ہاسپٹل  کے افسروں نے بتایا کہ وہاں بھی گزشتہ دنوں میں 20 سے زیادہ بچوں کی موت ہوئی اور کئی بچوں کو علاج کے بعد چھٹی دے دی گئی۔افسروں نے بتایا کہ پٹنہ واقع پی ایم سی ایچ ہاسپٹل میں بھی پانچ بچوں کی موت کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ مشرقی چمپارن اور ویشالی میں بھی تقریباً پانچ بچوں کی موت ہوئی ہے۔

محکمہ صحت  کے اعداد و شمار کے مطابق؛ سال 2014 میں اس بیماری کی وجہ سے 86 بچوں کی موت ہوئی تھی جبکہ 2015 میں 11، سال 2016 میں 4، سال 2017 میں 4 اور سال 2018 میں 11 بچوں کی موت ہوئی تھی۔ ایس کےایم سی ایچ اور کیجریوال ہاسپٹل میں اے ای ایس سے متاثر کئی بچے ہیں۔

ایس کے ایم سی ایچ میں داخل  میناپور کی چار سالہ اجلی خاتون کی ماں کہتی ہیں کہ بچی کو بخار اور اینٹھن کی علامت نظر آنے پر پہلے تو آس پاس کے کئی اسپتالوں میں اس کو لے جایا گیا۔ کچھ ہاسپٹل  میں ڈاکٹر نہیں تھے۔ ایک ہاسپٹل میں ڈاکٹر تھے۔ انہوں نے کچھ دوائیاں دیں اور بچی کو فوراً مظفرپور کے سرکاری ہاسپٹل ایس کے ایم سی ایچ لے جانے کو کہا۔

ہرسال مئی-جون میں قہر برپاکرنے والی اس بیماری نے پچھلے تقریباً 25 سال سے مظفرپور اور آس پاس کے علاقے کو اپنی چپیٹ میں لیا ہے۔ اس کا کوئی مستقل حل نہیں نکالا جا سکا ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں صحت خدمات  پوری طرح سے خستہ حالت میں ہے، گاؤں میں صحت مراکز کی کمی ہے اور جہاں مرکز ہے، وہاں ڈاکٹر نہیں ہے۔ نامعلوم بخار کے بارے میں جانچ ، پہچان اور مستقل علاج کے لئے مقامی سطح پر ایک لیب قائم کرنے کی مانگ لمبے وقت سے مانگ ہی بنی ہوئی ہے۔

مظفرپور میں ہاسپٹل  کی حالت ایسی ہے کہ ایک بیڈ پر تین بچوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ، گزشتہ سوموار 16 اضافی بیڈ لگائے گئے۔مرکزی صحت اور فیملی ویلفیئرکے وزیر ڈاکٹر ہرشوردھن کے ساتھ اتوار کو جب ڈاکٹر کی ایک ٹیم میڈیکل کالج ہاسپٹل میں جائزہ لے رہا تھا، اس وقت بھی دو بچوں کی موت ہوئی۔ ڈاکٹر ہرشوردھن نے کہا تھا کہ 100 بچوں کی موت بےحد تشویشناک ہے اور حکومت اس بارے میں سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔

مرکزی حکومت نے ریاست میں وسائل کو بہتر بنانے کے لئے مدد کی یقین دہانی کرائی اور ریاستی حکومت سے تجویز بھیجنے کو کہا ہے۔ مظفرپور اور آس پاس کے علاقوں سے مچھر اور مکھی کے نمونے لینے کو بھی کہا گیا ہے جس کا مطالعہ ایمس میں ہوگا۔بہار کے محکمہ صحت کی طرف سے جاری پریس ریلیز کے مطابق، اس سال زیادہ تر اموات  ہائپوگلیسیمیا کی وجہ سے ہوئیں۔ حالانکہ سرکاری افسر یہ کہنے سے بھی بچتے رہے کہ ہائپوگلیسیمیا اے ای ایس کی درجن بھر  بیماریوں میں سے ایک ہے۔

ڈاکٹر غذائی قلت، صاف پانی کی کمی، مناسب مقوی غذا کی کمی، صاف-صفائی اور بیداری کی کمی کو اس بیماری کا محرک مانتے ہیں۔ اس بیماری سے بہار کے 12 ضلع اور 222 بلاک  متاثر ہیں۔ بچوں کی موت کے بڑھتے اعداد و شمار نے اب حکومت کی پیشانی پر شکن لا دی ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)