خبریں

کیا ہے چمکی بخار، جس نے بہار کے 100 سے زائد بچوں کی جان لے لی؟

ایکیوٹ انسفلائٹس سنڈروم (Acute Encephalitis Syndrome) یعنی اے ای ایس(دماغی بخار )کا دائرہ بہت وسیع ہے، جس میں کئی انفیکشن شامل ہوتے ہیں اور یہ بچوں کو متاثر کرتا ہے۔بہار میں گزشتہ 20 دنوں میں اس کے 350 سے زیادہ معاملے سامنے آچکے ہیں ۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: بہار میں پچھلے 20 دنوں میں ایکیوٹ انسفلائٹس سنڈروم (Acute Encephalitis Syndrome) یعنی اے ای ایس(دماغی بخار )یا چمکی بخار کے 350 سے زیادہ معاملے سامنے آ چکے ہیں، جس میں تقریباً120 بچوں کی موت ہو چکی ہے۔ زیادہ تر بچوں کی اموات  ہائپوگلیسیمیا یا لو بلڈ شوگرکی وجہ سے ہوئی ہیں۔عام طور پر ہائپوگلیسیمیا کی علامت دماغی بخار کے مریضوں میں نظر آتے  ہیں۔ سالوں تک کی گئی تحقیق  کے بعد دونوں کے درمیان یہ تعلق قائم کئے گئے۔

کس وجہ سے ہوتی ہے اے ای ایس بیماری

دراصل دماغی بخار کا دائرہ بہت وسیع ہے جس میں کئی انفیکشن شامل ہوتے ہیں اور یہ بچوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ سنڈروم وائرس، بیکٹیریا کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ ہندوستان میں عام طور پر جو وائرس پایا جاتا ہے اس سے جاپانی انسیفلائٹس(جاپانی بخار)ہوتا ہے۔ وزارت صحت کے اندازے  کے مطابق دماغی بخار کے 5سے35 فیصد معاملے جاپانی بخار وائرس کی وجہ سے ہوتے ہیں۔انڈین ایکسپریس کے مطابق،بہار میں ڈی ایچ ایس کا دعویٰ ہے کہ اس سال جاپانی بخار وائرس کی وجہ سے دماغی بخار کے صرف دو معاملے سامنے آئے۔ اس کے ساتھ ہی یہ سنڈروم ٹائفس، ڈینگو، ممپس، میزلس، نپاہ اور زیکا وائرس کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔

حالانکہ، مظفرپور میں زیادہ تر بچوں کے معاملے میں بیماری کی وجہ کلینکلی طور پر پتہ لگانا باقی ہے۔ مظفرپور، ویتنام اور بنگلہ دیش میں دماغی بخار کے ساتھ ہائپوگلیسیمیا کا تعلق انوکھا ہے۔بہار میں ڈی ایچ ایس کے سابق ڈائریکٹر کوندر سنہا نے کہا، ‘ ہائپوگلیسیمیا کوئی علامت نہیں بلکہ دماغی بخار کی علامت ہے۔ بہار میں بچوں کو ہوئے دماغی بخار کا تعلق ہائپوگلیسیمیا کے ساتھ پایا گیا ہے۔ یہ ہائپوگلیسیمیا غذائی قلت اور مقوی غذا کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

کس طرح ہائپوگلیسیمیا اے ای ایس سے جڑا ہوا ہے؟

ڈاکٹر اموات کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہار میں دماغی بخار کے 98 فیصد مریض ہائپوگلیسیمیا سے متاثر ہیں۔ 2014 میں مظفرپور میں کئے گئے ایک مطالعے میں ڈاکٹر ارون شاہ اور ٹی جیکب جان نے مشورہ دیا تھا کہ ہائپوگلیسیمیا کے علاج سے ہی دماغی بخار کو ختم کیا جا سکتا ہے۔سال 2014 میں ایک ریسرچ پیپر’ایپیڈیمولوجی آف ایکیوٹ انسیفلائٹس سنڈروم ان انڈیا: چینجنگ پیراڈیم اینڈ امپلیکیشن فار کنٹرول ‘میں بہار کے مظفرپور اور ویتنام کے باک گیانگ ریاست کے معاملوں میں یکسانیت دکھائی گئی تھی۔ دونوں ہی جگہوں پر پڑوس میں ہی لیچی کے باغ تھے۔مطالعے میں کہا گیا تھا، اس بیماری کا لیچی یا ماحول میں موجود کسی زہر کے ساتھ ممکنہ تعلق کو درج کیا جانا چاہیے۔جانوروں پر کئے گئے ٹیسٹ میں ہائپوگلیسیمیا ہونے کی وجہ لیچی میں موجود میتھلین سائکلوپروپل گلیسن کو پایا گیا تھا۔

ڈاکٹر سنہا نے کہا کہ جب مئی میں لیچی توڑنے کا کام شروع ہوتا ہے تب کئی مزدور کھیتوں میں وقت گزارتے ہیں۔ انہوں نے کہا، یہ بہت ہی عام ہے کہ بچے زمین پر گری ہوئی لیچی کو کھاتے ہوں‌گے اور پھر بنا کھانا کھائے سو جاتے ہوں‌گے۔ اس کے بعدرات کے وقت لیچی میں موجود زہریلا مادہ ان کا گلوکوز لیول کم کر دیتا ہے اور یہ بچےصبح کے وقت بےہوش ہو جاتے ہیں۔حالانکہ، بہار اسٹیٹ سرولانس افسر ڈاکٹر راگنی مشرا کہتی ہیں، اگر لیچی میں موجود زہریلے مادہ کی وجہ سے ہائپوگلیسیمیا ہوتا ہے تو یہ معاملے ہرسال اتنی ہی مقدار میں سامنے آنا چاہیے اور ہر طرح کی سماجی-اقتصادی حالت والے بچوں کو متاثر کرنا چاہیے۔ اس سال موت کے تمام معاملے کم آمدنی طبقہ والے کے سامنے آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جہاں دماغی بخار کی وجہ پر ابھی بھی ریسرچ کیا جا رہا ہے تو وہیں ہائپوگلیسیمیا دماغی بخار کی وجہ سے غذائی قلت، گرمی، بارش کی کمی اور آنتوں سے متعلق انفیکشن ہو سکتے ہیں۔

مظفرپور میں اے ای ایس کی تاریخ کیا ہے؟

واضح ہو کہ، مظفرپور میں دماغی بخار کا پہلا معاملہ 1995 میں سامنے آیا تھا۔ وہیں، مشرقی یوپی میں بھی ایسے معاملے اکثر سامنے آتے رہتے ہیں۔اس بیماری کے پھیلنے کا کوئی خاص پیمانہ تو نہیں ہے لیکن شدید گرمی اور بارش کی کمی کی وجہ سے اکثر ایسے معاملے میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ڈاکٹر مشرا نے کہا، گزشتہ سال مظفرپور میں بہت کم معاملے سامنے آئے تھے۔ گزشتہ سال بہت کم دن ہی درجۂ حرارت زیادہ تھا اور بارش بھی ٹھیک ہوئی تھی۔ اس سال، گرمی بہت زیادہ ہے اور بارش نہیں ہو رہی ہے۔

کس وجہ سے ان علاقوں میں پھیلتی ہے بیماری

وہیں، اتر پردیش اور بہار دونوں ہی ریاستوں میں غذائی قلت بہت ہی زیادہ ہے اور غذائی قلت کی وجہ سے ہی بچے اس کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ وزارت صحت اور فیملی ویلفیئر کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک بھر میں صرف اتر پردیش اور بہار سے ہی 35 فیصد بچوں کی موتیں ہوتی ہیں۔قومی فیملی صحت سروے-4 کے اعداد و شمار کے مطابق، سال 2015سے16 میں پانچ سال سے کم عمر کے 48 فیصد بچے بہار میں موت کا شکار ہوگئے تھے، جو کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ تھا۔سینٹر فار ڈیزیزکنٹرول ، اٹلانٹا اور ویلور کے کرسچین میڈیکل کالج کی ایک ٹیم نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ ان علاقوں میں گرمی ، امس ،ماحولیات اور غذائی قلت کی وجہ سے اے ای ایس میں اضافہ ہوتا ہے ۔ لیچی کے جن باغ کے آس پاس غذائی قلت کے شکار بچے رہتے ہیں وہاں یہ زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔