گزشتہ ہفتے مغربی بنگال میں مبینہ طور پر ’ جئے شری رام ‘ نہ کہنے پرمدرسہ ٹیچر کو ٹرین سےدھکہ دے دیا گیا تھا۔ مدرسہ ٹیچر محمد شاہ رخ کا دعویٰ ہے کہ حملہ کرنے والے لوگوں اور ان کی تنظیم کے بارے میں پولیس کو بتانے کے باوجود کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
کولکاتہ: 24 سالہ حافظ محمد شاہ رخ حلدر دوسرے دنوں کی طرح ہی 20 جون کی دوپہر 24 پرگنہ ضلع کے کیننگ سے سیالدہ اسٹیشن کے لئے لوکل ٹرین میں سوار ہوئے تھے۔پورے سفر میں سب کچھ ٹھیک ہی چل رہا تھا، لیکن کولکاتا میں داخل ہوتے ہی ٹرین میں کچھ لوگ سوار ہو گئے اور ان سے ان کی ڈاڑھی، ٹوپی اور لمبے کرتے کے بارے میں جرح کرنے لگے۔محمد شاہ رخ بتاتے ہیں، ‘ ٹرین بالی گنج ریلوے اسٹیشن کو کراس کر چکی تھی کہ تبھی ایک شخص میرے پاس آیا اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ میرے سر پر ٹوپی کیوں ہے، میں نے ڈاڑھی کیوں رکھی ہے، لمبی پنجابی (کرتا) کیوں پہنا ہے؟ انہوں نے مجھے جئے شری رام بولنے کو بھی کہا۔ ‘
محمد شاہ رخ آگے کہتے ہیں، ‘ فوراً ہی اور بھی لوگ آ گئے اور مجھ سے گالی-گلوج کرنے لگے۔ اسلام کو لےکر بھی قابل اعتراض باتیں کہیں۔ اس کے بعد ہی 10 سے 15 لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے میرا گلا دبانے کی بھی کوشش کی۔ میں نے کسی طرح ان کا ہاتھ چھڑا لیا اور ٹرین سے اترنے کی کوشش کی، مگر انہوں نے اترنے نہیں دیا۔ اسی بیچ پارک سرکس اسٹیشن آ گیا۔ ٹرین کی رفتار کافی دھیمی ہو گئی تھی، تبھی انہوں نے مجھے لات مارکر نیچے گرا دیا۔ اس وقت ٹرین میں اور بھی لوگ تھے، لیکن کسی نے بھی آگے بڑھکر ان کی مخالفت نہیں کی۔ ‘
اسٹیشن پر موجود کچھ مسافروں نے ان کو فرسٹ ایڈ دیا۔ طبیعت ذرا ٹھیک ہونے کے بعد وہ شکایت درج کرانے کے لئے تپسیا تھانے میں گیا، تو انہوں نے بالی گنج جی آر پی میں شکایت کرانے کی بات کہی کیونکہ جائے واردات جی آر پی کے حلقہ اختیار میں آتا ہے۔تپسیا تھانے کے افسروں نے کہا کہ انہوں نے فوراً بالی گنج جی آر پی کو فون لگایا، تو وہ یہاں آئے اور متاثرہ کو جی آر پی تھانے لے گئے۔ بالی گنج جی آر پی میں ان کا بیان لےکر نامعلوم لوگوں کے خلاف شکایت درج کی گئی۔
محمد شاہ رخ کیننگ سے تقریباً 100 کلومیٹر دور ہگلی ضلع کے حیات پور کے ایک مدرسے میں استاد ہیں اور عربی پڑھاتے ہیں۔ وہ پچھلے ایک سال سے اس مدرسے میں پڑھا رہے ہیں۔فون پر ہوئی بات چیت میں انہوں نے بتایا، ‘ کیننگ سے میں لوکل ٹرین لےکر سیالدہ جاتا ہوں اور وہاں سے بس لےکر ہاوڑہ اسٹیشن۔ ہاوڑاہ اسٹیشن سے پھر لوکل ٹرین لےکر ہگلی جاتا ہوں۔ پچھلے ایک سال سے ہگلی جا رہا ہوں، لیکن کبھی میرے ساتھ ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ ‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ شکایت درج ہونے کے ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی ایک بھی ملزم پولیس کی گرفت میں نہیں آ سکا ہے، جبکہ محمد شاہ رخ نے بتایا تھا کہ حملہ آور کس تنظیم سے جڑے ہوئے تھے۔محمد شاہ رخ نے کہا کہ حملہ آوروں نے سر پر کپڑا باندھ رکھا تھا، جس پر ہندو سنہتی (Hindu Samhati)لکھا ہوا تھا۔ ہندو سنہتی ایک رائٹ ونگ مذہبی تنظیم ہے، جو تقریباً ایک دہائی سے جنوبی 24 پرگنہ میں فعال ہے۔
یہ تنظیم خود کو این جی او بتاتی ہے اور اس کا اہم کام مغربی بنگال میں مبینہ طور پر ہندؤوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر نگرانی رکھنا ہے۔ تنظیم یہ بھی بتاتی ہے کہ اس کا کام سرکاری اور دیگر اداروں کے ساتھ ملکر ہندوؤں کو تعلیم دینا بھی ہے۔تنظیم کے بانی تپن گھوش ہیں، جو متنازع سرگرمیوں کے لئے بدنام ہیں اور کئی دفع جیل جا چکے ہیں۔ گزشتہ سال فروری میں ہندو سنہتی کی طرف سے ہی کولکاتا کے دھرم تلا میں 14 مسلمانوں کی مبینہ طور پر گھر واپسی کرائی گئی تھی۔
اس پروگرام میں مسلمانوں سے بات چیت کرنے کو لےکر ہندو سنہتی کے اہلکاروں اور صحافیوں میں ہاتھا پائی بھی ہو گئی تھی، کیونکہ ہندو سنہتی کے اہلکار نہیں چاہتے تھے کہ وہ ان سے (مسلمانوں سے) بات کریں۔ پولیس نے اس متنازعہ پروگرام کو منعقد کرنے کے الزام میں 3 لوگوں کو گرفتار بھی کیا تھا۔
بہر حال، ہندو سنہتی کے اہلکاروں نے یہ قبول کیا ہے کہ 20 جون کو ان کے کارکن مذکورہ لوکل ٹرین میں سوار تھے۔ ہندو سنہتی کی طرف سے 20 جون کو شیا م بازار میں پشچم بنگ دیوس منایا جا رہا تھا۔ اسی پروگرام میں شامل ہونے کے لئے جنوبی 24 پرگنہ کےکیننگ اور دیگر اسٹیشنوں سے تنظیم کے کارکن ٹرین میں سوار ہوئے تھے۔
ٹائمس آف انڈیا کے ساتھ بات چیت میں ہندو سنہتی کے دیوتانو بھٹاچاریہ نے کہا ہے، ‘ ٹرین میں ہمارے حمایتی جھنڈا لہرا رہے تھے اور نعرے بازی کر رہے تھے۔ کچھ مسلم جوانوں نے اس کی مخالفت کی، جس کو لےکر دونوں طرف سے ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔ بعد میں انہوں نے (مسلمانوں) پارک سرکس اسٹیشن پر کچھ اور لوگوں کو بلا لیا اور ٹرین پر پتھراؤ کیا۔ اس میں ان کے ایک حمایتی سپریہ سرکار زخمی ہوئے ہیں۔ ‘
ہندو سنہتی کی طرف سے اس بارے میں سیالدہ جی آر پی میں شکایت درج کرائی گئی ہے۔ وہیں، محمد شاہ رخ کی طرف سے بالی گنج میں درج کرائی گئی شکایت میں مارپیٹ کا ذکر تو ہے، لیکن ان کے لباس کو لےکر تبصرہ کرنے اور جئے شری رام کے نعرے لگوانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔بالی گنج جی آر پی سے رابطہ کرنے پر وہاں کے ایک افسر نے بتایا کہ شکایت میں ٹرین میں سوار ہونے اور اترنے کو لےکر مارپیٹ کی بات کہی گئی ہے۔ مذہبی نعرہ لگانے کے لئے زبردستی کرنے اور لباس پر سوال اٹھانے کا ذکر نہیں ہے۔
اس بابت جب محمد شاہ رخ سے پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ پولیس نے جان بوجھ کر مذہبی نعرہ لگانے کے لئے زبردستی کرنے اور لباس پر سوال اٹھانے کا ذکر نہیں کیا ہے۔انہوں نے کہا، ‘ پولیس نے مجھ سے بیان نہیں لکھوایا تھا بلکہ اس نے میرے بھائی سے کہا کہ میں نے پولیس کو سب کچھ بتا دیا ہے، اس لئے وہ (پولیس افسر) جو کہہ رہے ہیں وہی لکھا جائے۔ پولیس جب بیان لکھوا رہی تھی، تو مجھے تھانے سے یہ کہہکر باہر کر دیا گیا تھا کہ میری صحت ٹھیک نہیں ہے ۔ میرے ساتھ جو ہوا ہے، وہ میں نے سبھی میڈیا کو بتایا ہے۔ ‘
اس بارے میں سیالدہ جی آر پی کے سپرنٹنڈنٹ سے رابطہ کیا، تو ان کے دفتر کے ایک ملازم نے کہا کہ اپنا نام لکھا دیں، وہ کال کریںگے۔ خبر شائع ہونے تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ ان کا جواب ملنے پر اس کورپورٹ میں اپ ڈیٹ کیا جائےگا۔ادھر، اس واقعہ کے بعد سے محمد شاہ رخ مدرسہ نہیں جا رہے ہیں۔ بدھ کی شام وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے مقامی ایم ایل اے کے ذریعے ان کی خیریت معلوم کی اور مدد کے طور پر 50 ہزار روپے دیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ، ‘ جن لوگوں نے بھی یہ سب کیا ہے، ان کو سزا ملنی چاہیے تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ بنگال میں لوگ امن و سکون سے رہیں۔ ‘
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
Categories: فکر و نظر