سمر قند مشہور سائنسداں ابن سینا اور الجبرا کے موجد محمد الخوارزمی کی علمی شغل کی سرزمین بھی ہے۔ طالب علم خوارزمی سے برہم ہونگے، مگر اس کے علم نے حساب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔
گر آپ صبح دیر سے جاگنے کے عادی ہیں، تو ازبکستان کے دارلحکومت تاشقند کی صبح آپ کو گراں گزرے گی۔ گرمیوں میںسویرے ساڑھے چار بجے ہی سورج کی تیز کرنیں کھڑکیوں پر دستک دیکر جاگنے اور بستر چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ شاید یہ کہنے کی کوشش کر تی ہیں، کہ اُٹھ غافل، صبح کی تازہ ہوا اور آلودگی سے پاک فضالئے سرسبز و شاداب شہر، اسرار کھولنے کیلئے انتظار کر رہا ہے۔ تاشقند، سمر قند، بخارا اور فرغانہ وادی کی فرحت بخش فضا کو محسوس کرکے یہی لگتا ہے کہ تین کروڑ کی آبادی والا وسط ایشیا کا یہ ملک ایک پرستان ہے۔
سکندر اعظم اور چنگیز خان کے گھوڑوں کی ٹاپیں، امیر تیمور کی جلالی نگاہیں، شیبانی خان اور مغل شاہزادہ ظہیرالدین بابر کی معرکہ آرائیاں اور پھر 40کی دہائی میں سویت فوج کی بمباری، ازبکستان کے شہروں نے اپنے اندر ایک تاریخ سمیٹ کر رکھی ہوئی ہے۔ یہ ملک ایک طرح سے قدیم اور وسطی دور کے شاہراہ ریشم کا مرکز تھا۔ اناطولیہ (ترکی)اور بحر روم سے چین اور دوسری طرف جنوبی ایشیا سے یورپ و افریقہ کو ملانے والی شاہراہیں سمر قند کے ریگستان چوراہے پر بغل گیر ہو جاتی تھیں۔ جو ایک طرح سے قدیمی دور کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر تھا۔
پاکستان کی طرح ازبکستان چین کے بلٹ روڈ پروجیکٹ کا ایک اہم پڑاؤ ہے۔ حالیہ صدر شوکت مرزایوف کے مطابق اسکے مکمل ہونے کے بعد ازبکستان کی مرکزیت بحال ہوگی اور یہ علاقہ ایک بار پھر تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنے گا۔ ازبکستان ترکی کی قیادت میں ترک کونسل کا ممبر بھی بننے والا ہے۔ ترک نسل کے ملکوں پر مشتمل اس تنظیم میں آذربائیجان، قزاخستان، کرگیزستان اور ترکی شامل ہیں، جو مشترکہ تہذیب، وراثت، شناخت اورکلچرکی پاسداری کیلئے یکجا ہوئے ہیں۔ چند صدی قبل تک جب مغرب تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، مشرق کے شہر استنبول، سمرقند، بخارا اور نیشا پور علم و تمدن کے گہوار ہ تھے۔ ان شہروں میں صرف استنبول ہی کسی طرح اپنی شناخت بچا پایا ہے، باقی سب قصہ ٔپارینہ بن چکے ہیں۔
چاروں طرف خشکی سے محصور ازبکستان کے درو دیوار خاصی حد تک کشمیر سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اس علاقے کا دورہ کرکے ہی معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر جنوبی ایشیا سے زیادہ وسطی ایشیا کے قریب ہے۔ فنِ تعمیر، رہن سہن، خوراک و موسیقی غرض ہر چیز میں کشمیر کی پرچھائیں نظر آتی ہیں۔ تاشقند اور سمر قند کے درمیان450کلومیٹر طویل شاہراہ کے دونوں اطراف درختوں کی ایستادہ قطاریں سرینگر۔ بارہمولہ ۔ مظفر آباد روڈ کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ ہائی وے پر ریسٹورنٹ چنار اور توت کے د رختوں کی چھاؤں میں میز اور کرسیوں کے بجائے پر قالین اور گا ؤ تکیوں سے مزّین لکڑی کی چوکیوں پر کھانا سجاتے ہیں۔
وسطی ایشیا صوفیا اور اولیا کی آرام گاہ بھی ہے۔ ایران میں پیدا ہوئے میر سید علی ہمدانی نے بھی اسی خطے کو وطن بنایا۔ وہ یہیںہی سے واردِ کشمیر ہوئے تھے، جو جنوبی ایشیا کا واحد خطہ ہے، جہاں بڑی تعداد میں اونچی ذات کے ہندو یا برہمن اسلام کی پناہ میں آگئے۔ ان کی آرام گاہ تاجکستان کے شہر قلب میں ہے۔ اسی طرح بخارا کے نواح میں سلسلہ نقشبندیہ کے بانی حضرت بہاؤالدین نقشبندی کا مزار ہے۔ سمر قند اور بخارا میں خانقاہوں کی کثر ت ہے، جن کی حالت اب ناگفتہ بہ ہے۔ یہ کسی زمانے میں تلاش حق کے مسافروں ، صوفیوں اور درویشوں کی پناہ گاہ ہوتے تھے۔
ایک معمر ازبک تیمور تیلیفاف کے مطابق 19ویں صدی تک یہ خانقاہیں ، درویشوں سے آباد رہتی تھی، جو ترکی اور جنوبی ایشیا سے روحانی فیض حاصل کرنے کیلئے ازبکستان کا رخ کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا ان کے بزرگ بتاتے تھے کہ درویشوں کی آمدسے ایک طرح سے جشن کا سا ماحول بنتا تھا اور ان کو کھانا وغیرہ پہچانے پر مقابلہ آرائی ہوتی تھی۔ سو ویت یونین کے دور میں خانقاہوں پر تالے لگائے گئے۔ سرحدیں بند ہوگئیں، لوگوں کا آنا جانا بند ہوگیا ۔ تمدن و تہذیب کے صدیوں پرانے رشتے ٹوٹ گئے۔
ازبکستان کی فرغانہ وادی ہی سے نوجوان سردار ظہیر الدین بابر نے پامیر اور ہندو کش کے بلند و بالا پہاڑوں کو عبور کرکے پہلے کابل اور پھر درۂ خیبر کو عبور کرکے 1526میں دہلی پر قبضہ کرکے مغل سلطنت کی بنیاد ڈالی، جو 1857تک قائم رہی۔ بابر کا پایہ تخت بھی سمر قند ہی تھا، جہاں ازبک سردار شیبانی خان نے اسکو شکست سے دوچار کرکے کابل کی طرف بھاگنے پر مجبور کردِیا۔ بابر کے جدِ امجد امیر تیمور یا تیمور لنگ کو ازبکستان حکومت نے قومی ہیرو کا درجہ دیا ہوا ہے۔
تاشقند کے مرکز میں گھوڑے پر سوار امیر تیمور کا مجسمہ شان سے کھڑا ہے۔ بتایا گیا کہ اس جگہ پر پہلے تاشقند میں روسی گورنر کونسٹنٹن کافمین اور بعد میں لینن اور پھر اسٹالن اور آخر میں کارل مارکس کا مجسمہ نصب تھا۔اس کے بغل ہی میں ایک خوبصورت سبز گنبد والی عمارت میں امیر تیمور میوزم ہے۔ ایک نظر میں اس مسجد جیسی عمارت میں امیر تیمور سے متعلق پانچ ہزار نوادرات محفوظ کئے گئے ہیں۔ تاشقند میں چورسو بازار کے علاوہ جس مقام پر سب سے زیادہ بھیڑ ہوتی ہے وہ خوست امام چوک کے پاس لائبریری میوزم ہے۔ یہاں اس قران شریف کا نسخہ محفوظ ہے، جو حضرتِ عثمان غنی شہادت کے وقت تلاوت کر رہے تھے۔ ہرن کی کھال پر تحریر قران شریف کے اس نادر نسخے کے اوراق پر خون کے دھبے نمایاں ہیں۔میں شیشے میں بند اس نسخے کو دیکھنے میں محو تھا کہ میوزم کے ایک ملازم عظمت ایکمتوف نے پوچھا ،کہ کیا میں مسلمان ہوں؟
میں نے سر ہلا کر ہاں کہا، تو اس نے دوسرا سوال داغا، کہ کس فرقے یا کس مسئلک سے تعلق رکھتا ہوں؟
پھر خود ہی ازبک لہجے میں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میںپوچھا کہ کیا میں حنفی مسئلک سے ہوں؟میں نے جواب دیا کہ میں حضرت عثمان غنی کے مسلک سے ہوں۔ وہ شاید ابھی جواب تول ہی رہا تھا، کہ میں نے پوچھا کہ حضرت عثمانؓ کس فرقے سے تعلق رکھتے تھے؟آخر زِچ ہوکر پوچھا کہ میں کس ملک سے تعلق رکھتا ہوں، ہندوستان یا پاکستان؟ میں نے کہا اہل کشمیر ہوں۔ وہ پھر بغلیں جھانک کر کشمیر کے محل وقوع کے بارے میں استفسار کرنے لگا۔ افسوس کہ پچھلی ایک صدی میں جس طرح سرحدوں نے روابط کو محدود کرکے رکھ دیا، کہ یہ ازبک شخص کشمیر کے نام ہی سے واقف نہیں تھا۔ بتایا گیا کہ قرآن شریف کا یہ نسخہ امیر تیمور سمرقند لے کر آگیا تھا۔ لیکن 1868 میں روسیوں نے اسکو ماسکو منتقل کیا۔ پھر 1924میں لینن نے ترکستان کے مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے یہ نسخہ تاشقند بھیج دیا۔ میوزم میں اور بھی نادر و نایاب کتب کا ذخیرہ ہے۔
تاشقند کا ازبکستان ہوٹل اور اسکے مقابل کانفرنس ہال اور شہر میں لعل بہادر شاستری کا مجسمہ ، 1965کی جنگ کی یاد دِلاتا ہے۔ تاشقند معاہدے پر دستخط ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی ہندوستان کے وزیر اعظم لعل بہادر شاستری کا انتقال ہوگیا ۔ یہی صدرِ پاکستان ایوب خان اور انکے وزیر خارجہ ذوالفقارعلی بھٹوکے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ واپسی پر بھٹو نے حکومت سے علٰحیدگی اختیار کرکے پاکستان پیوپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی، اور چند برسوںہی میں وزیر اعظم کے عہدے پرفائز ہوگئے۔ ہندوستان میں بھی شاستری کی موت کے بعد زمام ِاقتدار 48سالہ اندرا گاندھی کے سپرد کر دیا گیا۔جو دوبرسوں کے وقفہ کو چھوڑ کر 1984تک اس عہدے پر فائزرہیں۔ اسی طرح جنوبی ایشیا کو ازبکستان نے نہ صرف مغل سلطنت ،بلکہ گاندھی اور بھٹو سیاسی خانوادے بھی عطیہ کے طور پر دِئے۔
جہاں تاشقند میں سوویت زمانے اور کمیونزم کے آثار ابھی بھی نظر آتے ہیں، وہیں سمر قند نے انکو اکھاڑ پھینک دیا ہے۔ مسجدوں اور میناروں کا ایک لامنتاہی ساسلسلہ شہر کی تاریخ اور انفرادیت بیان کرتا ہے۔ حکومت نے بھی ہر عمارت اور مقام کو محفوظ بنانے ‘ اس کے روایتی حسن کو برقرار رکھنے کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہایا۔ شہر میںجہاں بھی جائیں قدیم اور جدید تہذیب کا امتزاج دیکھنے کو ملتاہے۔ پرانی آبادیوں کو اس طرح سنوارا گیا ہے کہ وہ شہر کی رونق بن گئی ہیں۔صفائی ستھرائی کا معیار یورپ سے کم نہیں۔ پارکوں اور سیر گاہوں کاکوئی شمار نہیں۔شہر کی سیر کرتے ہوئے، ایک پہاڑی پر ایک قلعہ کے کھنڈرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہماری گائیڈ انارہ نے کہا کہ یہ وہ سمر قند ہے جس کو چنگیز خان نے تباہ کردیا تھا۔ 2750سالہ قدیم اس شہر کا اصل نام افراسیاب تھا۔ مسلم دنیا کے گہر یا موتی کہلانے والے اس شہر نے متعدد حملہ آورں کو دیکھا ہے۔ ابنِ بطوطہ نے اس شہر کے نواح میں باغات اور انکے میووں کی شیرینی کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔
شہر کے وسط میں امیر تیمور کا مزار ایرانی و ترک فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ امیر تیمور کے ساتھ اسکے استاد اور دیگر شہزادوں کی بھی قبریں ہیں۔تاج محل کی طرح اصل قبریں مقبرہےکے تہہ خانے میں ہیں۔ مگر یہاں اس کا دروازہ سیل کیا گیا ہے اور باہر سخت پہرہ ہے۔ معلوم ہوا کہ اس تہہ خانے کا دروازہ کھولنے کی سختی سے ممانعت ہے،کیونکہ اسکے کھولنے سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہے۔ گائیڈ بتا رہی تھی کہ 1941میں کیمونسٹ حکومت کی ایما پر محکمہ آثار قدیمہ کے دو روسی افسران نے اس مقبرے کی کھدائی کرکے امیر تیمیور اور شہزادو ں کی باقیات کو ماسکو منتقل کیا۔ مقامی افراد نے ان کی منتیں کیں، مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ باقیات کی ماسکو روانگی کے دو ہی دن بعد نازی جرمنی نے سوویت یونین کے خلاف اعلانِ جنگ کردِیا اور روسی فوجوں کو روندتے ہوئے ماسکو کے نواح میں پہنچ گئے۔ تین سال کے بعد اسٹالن نے کسی کے کہنے پر باقیات کو ماسکو سے بذریعہ طیارہ سمرقند واپس لا کر سرکاری اعزار کے ساتھ مقبرہ میں دفن کرکے تہہ خانہ کو سیل کردیا۔ اتفاق کہ اسکے ایک ماہ بعدہی سویت فوجوں نے اسٹالن گراڈ کی فیصلہ کن جنگ میں جرمنوں کو ہراکر ان کی کمر توڑ دی۔ اس کے بعد جرمن فوج مسلسل پیچھے ہٹتی رہی تاآنکہ روسی فوج برلن میں داخل ہوگئی۔
سمر قند مشہور سائنسداں ابن سینا اور الجبرا کے موجد محمد الخوارزمی کی علمی شغل کی سرزمین بھی ہے۔ طالبعلم خوارزمی سے برہم ہونگے، مگر اس کے علم نے حساب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ اسکندر اعظم کی بیوی رخسانہ بھی سمرقند کی تھی، جس کو اس نے دنیا کی حسین ترین خاتون قرار دیا تھا۔ اسی شہر نے امریکی شاعر ایڈگرالن پاو کو تیمورلین نظم لکھنے پر اکسایا۔ مزار تیمور سے کچھ دوری ہی پر ریگستان چوراہا ہے۔ یہی قدیم شاہراہ ریشم کا مرکز تھا۔ قافلے والےیہاں رُک کر اپنی مصنوعات کی نمائش لگاتے تھے ۔
یہ ایک طرح کا عالمی تجارتی مرکز تھا۔ یہاں نہ صرف اشیاء کا بلکہ افکارِ و خیالات کا بھی تبادلہ ہوتا تھا۔ اسی لئے اس چوراہے کے دونوں اطراف دو عظیم الشان مدرسے اور سامنے ایک وسیع وعریض مسجد ہے۔ سمر قند میں پیغمبر دانیال، امیر تیمور کے روحانی پیشواشیخ برہان الدین اور پیغمبر محمد کے چچا زاد قاسم بن عباس یا شاہ زندہ کی آرام گاہیں بھی ہیں۔ شاہ زندہ کے مقبرے تک جانے کیلئے تقریباً 40سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ ہماری گائیڈ بتا رہی تھی، کہ سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے وقت اسکے پایہ گنتے ہوئے اگر کسی خواہش کا اظہار کیا جائے، تو وہ پوری ہو جاتی ہے۔ شرط ہے کہ اترتے اور چڑھتے وقت سیڑھیوں کے پایوں کے عدد یکساں آنے چاہیں۔ لگتا ہے کہ کسی نے یہ ایک طرح کی مائنڈ گیم ایجاد کی ہے۔ ایک طرف سیڑھیاں گننا او رہر سیڑھی چڑھتے ہوئے خواہش کا اظہار بھی کرنا ، دماغی ورزش ہے۔
سمر قند کے نواح میں تقریباً 25کلومیٹر کے فاصلے پر محدث امام بخاری کاعالیشان روضہ ہے، جو فنِ تعمیر کا مثالی نمونہ ہے۔ اس سے ملحق مسجد، میوزم ، لائبریری اور یونیورسٹی ہے۔ باقی مقبروں کے برعکس امام بخاری کی آرام گاہ کھلے احاطے میں ہے۔ امام بحاری یا محمد ابن اسماعیل ابن ابراہیم نے احادیث جمع کرکے اور انکو کتابی شکل دینے کا ایک بڑا کارنامہ انجام دیا۔ سوویت دور میں یہ روضہ بند کر دیا گیا تھا۔ 1954میں جب انڈونیشیا کے صدر سوکارنو ماسکو کے دورے پر آئے، تو انہوں نے امام بخاری کے روضےپر جانے کو خواہش ظاہر کی، فی الفور ایک ٹیم روانہ کی گئی، جس نے صاف صفائی کی۔ اس سے متصل مسجد ایک کھنڈر بن چکی تھی۔ اس کے بعد جب صومالیہ کے صدر نے بھی اپنے دورے کے دوران ، روٖضے پر جانے کی خواہش ظاہر کی، تو سوویت حکام نے اسکی دیکھ ریکھ کیلئے ایک کمیٹی مقر رکی۔ 1998میں اسلام کریموف نے مزار کی تعمیر شروع کی ۔سرینگر کی جامع مسجد کی طرز پر صحن خاصاسرسبز ہے اور ایک حصے میں ایک تالاب ہے، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسکا پانی شفا بخش ہے۔
عام شہریوں میں روس کے خلاف کوئی نفرت یا انتقام کا جذبہ نہیں پایاجاتا۔ہوٹل سے تاشقند ایرپورٹ واپس جاتے ہوئے میں نے معمر ڈرائیور رفیق کریموف سے پوچھا کہ سوویت دور کی زندگی کیسی تھی؟ تو اس نے کہا، ـ’’کہ ایک آہنی خول تھا، ہم دُنیا سے کٹے ہوئے تھے۔ جس کسی بھی چیز پر کمیونسٹ پارٹی کی رضامندی نہیں ہوتی تھی وہ قابلِ تعزیر تھی چاہے تحریر ، تقریر یا کانا پھوسی ہی کیوں نہ ہو۔ قطاریں معمول تھیں۔ راشن لینا ہو یا اگر آ پ کے پاس پیسہ ہے ، گاڑی خریدنے کیلئے بھی لائن لگانی پڑتی تھی۔ ہر چیز کیلئے حکومت پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ ہاں، بھونکنے کی پابندی تو تھی، مگر کھانے کیلئے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا تھا۔ بھوکے پیٹ سونے کاسوال ہی نہیں تھا، نہ ہی کوئی بھیک مانگتا تھا۔
صرف 100روبل میں ماسکو کا ہوائی ٹکٹ مل جاتا تھا۔ مگر اس وقت سو روبل بچانا آسان کام نہیں تھا۔ اب ہمارے پاس کئی ملین روبل ہیں، مگر آج بھی ماسکو کے ایرٹکٹ خریدنے کے متحمل نہیں ہیں۔مگر تو کیا ہوا، آزاد تو ہیں۔ میں آپ سے دل کھول کر بات کرپاتا ہوں، رات کو بھوکے پیٹ سوؤں تو کیا ہوا۔ بس یہی فرق ہے۔‘‘ ایر پورٹ سامنے آچکا تھا۔ ڈرائیور کی باتیں سن کر مجھے پاکستان میںپہلی بار مارشل لا نافذ ہونے کے و قت قدرت اللہ شہاب اور قرۃ العین حیدر کامکالمہ یاد آرہا تھا۔ عینی آپا نے کہا تھا ’’کون روز روز بھونکنا چاہتا ہے، مگر آپ بھونک سکتے ہو، اس کا احساس ہی فرحت بخش ہے۔‘‘ ۔
میں نے ٹیکسی سے اتر کر بیگ اٹھا کر گیٹ کی طرف دوڑ لگائی۔ معمر ازبک ڈرائیور کے آخری الفاظ میرے کانوں کی گھنٹیاں بجا رہی تھیں۔وہ کہہ رہا تھا ’آزادی ایک نعمت ہے، جو پیٹ بھر کھانے سے کئی گنا زیادہ آسودگی عطا کرتی ہے۔‘
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اوران کا کالم بدھ کے روز شائع ہوتا ہے۔ پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر