بہار کے روہتاس ضلع کے دیومنی سنگھ یادو کے تین بچے وقت پر علاج نہ ملنے کی وجہ سے لقوے کا شکار ہو گئے ہیں۔ ریاستی حکومت ان کے بچوں کے علاج کا انتظام کر پانے میں ناکام رہی ہے، اس لئے انہوں نے اپنی فیملی کے لئے مرنےکی اجازت مانگی ہے۔
نئی دہلی: بہار کے روہتاس ضلع میں واقع ساسارام کی ایک غریب فیملی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھکر Euthanasia(عزت سے مرنے کی خواہش) کی اجازت مانگی ہے۔ فیملی کے تین بچے پیدائشی ہونے والی عضلات کی نایاب بیماری سے متاثر ہیں، جس کی وجہ سے ان کو لقوہ مار گیا ہے۔ ریاستی حکومت ان کے بچوں کے علاج کا انتظام کر پانے میں ناکام رہی۔
ہندوستان ٹائمس کے مطابق، دیومنی سنگھ یادو چھلکر گاؤں کے کسان ہیں جن کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں ہے۔ ان کے تین بچے 14 سالہ منتوش، 11 سالہ دھنتوش اور سات سالہ رامتوش ہیں۔انہوں نے کہا کہ اپنے تین بچوں کا علاج کرانے میں انہوں نے اپنا سب کچھ گنوا دیا لیکن ان کا علاج نہیں ہو سکا کیونکہ اس بیماری کا علاج بڑے شہر میں کسی اچھے ہاسپٹل میں ہو پائےگا اور ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں۔
یادو نے کہا کہ اس بارے میں جن انتظامی افسروں اور رہنماؤں سے ملاقات کی، انہوں نے یقین دلانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ بچوں کے علاج کے میں انہوں نے اپنی آدھی بیگھا زرخیز زمین اور چار ڈیسی مل گھر کی زمین بیچ دی۔اس کے بعد سے ہی یادو ایک جھوپڑی میں اپنی بیوی، بیٹی اور تین لکوہ زدہ بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہاں پر ان کو ٹوائلٹ، پانی اور ایک ٹھیک ٹھاک چھت جیسی بنیادی سہولیات بھی نہیں مل پا رہی ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ‘ان کی فیملی میں کوئی بھی اب ایسی زندگی نہیں جینا چاہتا اور اس لئے انہوں نے اپنی زندگی ختم کرنے کے لئے وزیر اعظم کو خط لکھا ہے۔ ‘ آج سے سات سال پہلے 2012 تک یادو کی فیملی کی زندگی خوش حال تھی لیکن اسی سال ان کے آٹھ سال کے بڑے بیٹے منتوش کے ہاتھ اور پیر میں غیرمعمولی تبدیلی ہونے لگی۔
یادو کہتے ہیں، ‘ وہ پتلے اور کمزور ہونے لگے جس کے بعد آخرکار انہوں نے بستر پکڑ لیا۔ شروع میں، میں نے ساسارام میں ڈیہری میں ایک فزیو تھراپسٹ کے علاوہ مقامی ڈاکٹروں سے رابطہ کیا، لیکن ان کے جسم میں ہو رہی تبدیلی نہیں رکی۔ ‘وارانسی کے بی ایچ یو میں منتوش کے علاج کے دوران ہی چھے مہینے بعد ان کے دوسرے بیٹے دھنتوش کے جسم میں بھی وہی تبدیلی دکھائی دینے لگی اور اس کے ہاتھوں اور پیروں نے بھی کام کرنا بند کر دیا۔ اس کے بعد سال 2017 میں ان کے تیسرے بیٹے رامتوش بھی اس کا شکار ہو گیا۔
اس کے بعد بینک کا ایک لاکھ کا لون ادا کرنے کے لئے ان کو اپنی پوری زمین، زیور وغیرہ بیچنے پڑے۔ اس کے بعد یادو نے بہت زیادہ سود پر گاؤں والوں سے چار لاکھ روپے کا لون لیا۔یادو کو نہ تو بی پی ایل کی فہرست میں شامل کیا گیا اور نہ ہی آیوشمان بھارت یوجنا میں۔ اس کی وجہ سے وہ آیوشمان بھارت اور پی ایم آواس یوجنا جیسی دیگر اسکیموں کا فائدہ لینے سے محروم رہ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘ان کا سب سے بڑا مسئلہ ٹوائلٹ کا نہ ہونا ہے۔ ہم ٹوائلٹ بنانے کے لئے پیسے نہیں جٹا پائے۔ میں، میری بیوی انیتا اور 16 سال کی بیٹی مدھو تینوں اپاہج بچوں کو کندھوں پر اٹھاکر ایک دن میں کم سے کم دو بار پاس کے کھیت میں لےکر جاتے ہیں۔ صبح اور شام دونوں وقت ہم ان کے جسم کو صاف کرتے ہیں۔ ‘
یادو کہتے ہیں، ‘صحافیوں کے ذریعے معاملے کو انتظامیہ کے سامنے اٹھانے کے بعد سے ان کے دونوں بڑے بیٹوں کو گزشتہ سال سے 400 روپےکی معذور پنشن اور کھادیہ سرکشااسکیم کے تحت فیملی کے ہر ممبر کو پانچ کلو کا راشن ملتا ہے۔ لیکن یہ اونٹ کے منھ میں زیرہ کے برابر ہے۔ ‘
Categories: خبریں