گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں ہوئے آکسیجن اسکینڈل میں ملزم ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف کی جا رہی جانچ کی رپورٹ گزشتہ اپریل میں ملنے کے بعدحکومت اب تک کوئی فیصلہ نہیں لے سکی ہے۔ اس کے علاوہ بہرائچ معاملے میں ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف جانچ کے لئے اسی مہینے افسر مقرر کیا گیا ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ ڈاکٹرکفیل پر لگے الزامات کی تیزی سے جانچ کرانے میں خود حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
اتر پردیش میں گورکھپور واقع بی آر ڈی میڈیکل کالج کے آکسیجن اسکینڈل میں ڈاکٹر کفیل احمد خان کو گھیرنے کے چکر میں ریاستی حکومت خود الجھتی نظر آ رہی ہے۔ ایک ہفتے کے اندر شعبہ جاتی جانچ کو لےکر حکومت کا بیان جاری کرنا اورپھر چیف سکریٹری) طب( کا پریس کانفرنس کرنا، ان سب سے کئی اور سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ آکسیجن اسکینڈل کی شعبہ جاتی جانچ میں جن نئے دستاویزوں کے سامنے آنے کی بات کر پھر سے جانچ کرانے کی بات کہی گئی ہے، وہ دستاویز حکومت کے سامنے نئےسوالوں کو جنم دے رہے ہیں، جس کا جواب دینا اس کے لئے کافی مشکل ہوگا۔ حکومت کو یہ بھی جواب دینا ہوگا کہ بہرائچ معاملے میں ڈاکٹر کفیل کو دس مہینے بعد جولائی 2019 میں کیوں معطل کیا گیا اور اتنے وقت بعد کیوں شعبہ جاتی کاروائی شروع کی گئی؟ اس دیری کی وجہ کیاہے؟
گزشتہ27 ستمبر کو حکومت کی طرف سے جاری کی گئی پانچ صفحوں کی ریلیز اور اب تین اکتوبر کو چیف سکریٹری رجنیش دوبے کا پریس کانفرنس کا لب ولباب یہ ہے کہ آکسیجن اسکینڈل میں بی آر ڈی میڈیکل کالج کے ترجمان ڈاکٹر کفیل احمد خان کو بادی النظر میں قصوروار پائے جانےکی وجہ سے معطل کیا گیا تھا۔اس کے بعد ان کے خلاف شعبہ جاتی کارروائی شروع کی گئی۔ ان کے اوپر کل چارالزام لگائے گئے، جن میں سے دو پرائیویٹ پریکٹس اور دو آکسیجن اسکینڈل سے متعلق تھے۔ جانچ افسر چیف سکریٹری، اسٹامپ اور رجسٹریشن، پیڈیالوجی اور مائننگ ہمانشو کمار نے اپنی جانچ میں پرائیویٹ پریکٹس کے دونوں الزام کو صحیح پایا، لیکن آکسیجن اسکینڈل سے متعلق دونوں الزام (الزام نمبر 3 اور 4)صحیح نہیں پائے گئے۔
اب حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ جو دو الزام صحیح پائے گئے ہیں اس پر اصول کےمطابق ڈاکٹر کفیل سے پھر سے حزب لیا جانا تھا، جو اس کو مل گیا ہے۔ اس پر فیصلہ ابھی زیر التوا ہے۔جو دو الزام جانچ افسر نے صحیح نہیں پائے، وہ حکومت کو منظور نہیں ہے۔ان الزامات کے متعلق حکومت نے بتایا ہے کہ اس کو نئے حقائق ملے ہیں، جس پر آگےکی جانچ کی جا رہی ہے۔اس کے علاوہ بہرائچ ضلع ہاسپٹل معاملے میں ڈاکٹر کفیل کے خلاف معطلی کی کارروائی کی گئی ہے اور ان کے خلاف شعبہ جاتی جانچ شروع کی گئی ہے۔ شعبہ جاتی جانچ میں ان پر تین الزام لگائے گئے ہیں۔اس طرح اترپردیش حکومت کے مطابق ڈاکٹر کفیل آکسیجن اسکینڈل میں معطل رہتےہوئے بہرائچ ضلع ہاسپٹل معاملے میں دوبارہ معطل کئے گئے ہیں اور دونوں معاملوں کے کل سات الزامات میں ان کے خلاف شعبہ جاتی کارروائی چل رہی ہے۔ حکومت کی سطح پر اس میں کوئی آخری فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔
اب سب سے پہلے آکسیجن اسکینڈل پر آتے ہیں۔ اس معاملے میں شعبہ جاتی کارروائی میں چار الزام تھے جس کی جانچ ہوئی۔الزام نمبر ایک اور دو سرکاری خدمات میں سینئر ریزیڈنٹ اور باقاعدہ ترجمان رہتے ہوئے پرائیویٹ پریکٹس کرنے اورنجی نرسنگ ہوم چلانے کا تھا۔ ان دونوں الزامات کو جانچ افسر نے صحیح مانا ہے لیکن انہوں نے اپنی رپورٹ میں ایک اہم تبصرہ کیا ہے، ’08 اگست 2016 کے بعد ملزم افسر کے ذریعے پرائیویٹ پریکٹس کئےجانے کا کوئی ثبوت دستاویزوں میں دستیاب نہیں ہے۔ ‘یہ تبصرہ ڈاکٹر کفیل کے حق میں جاتا ہے کیونکہ آکسیجن اسکینڈل 10 اگست 2017 کو ہوا تھا اور اس وقت ڈاکٹر کفیل کا پرائیویٹ پریکٹس کرنا ثابت نہیں ہوتا ہے۔ جن دو الزامات (الزام نمبر3 اور 4)کو جانچ افسر نےطےنہیں پایا ہے، وہ آکسیجن اسکینڈل سے سیدھے جڑے ہوئے ہیں۔
اس میں ڈاکٹر کفیل پر الزام لگایا گیا ہے کہ’بی آر ڈی میڈیکل کالج کےشعبہ اطفال میں بچوں کی ناگہانی موت کے معاملے کے وقت وہ موجود تھے اور وہ 100 بیڈ اے ای ایس وارڈ کے نوڈل انچارج تھے۔ انہوں نےلائف سیور آکسیجن کی کمی جیسی اہم بات فوراً اعلیٰ حکام سے نہیں بتائی، جو ان کی میڈیکل غیرذمہ داری کا مظہر ہے۔ ‘اس الزام میں یہ بھی جوڑا گیا تھا کہ ‘ڈاکٹر کفیل نے اس وقت کے پرنسپل ڈاکٹر راجیو مشر کے ساتھ ملکر سازش کے تحت سرکاری اصولوں کی خلاف ورزی کی۔ ‘جانچ اافسر ہمانشو کمار نے الزام نمبر تین اور چار کو خارج کرتے ہوئےاپنے تبصرہ میں لکھا ہے کہ ‘الزام نمبر 3 کے تعلق سے محکمے کے ذریعے پیش کئے گئے ثبوت کمزور اور غیر مدلل ہیں۔ اس تعلق سے ملزم افسر کے ذریعے دیا گیا جواب اطمینان بخش معلوم ہوتا ہے۔ یہ الزام ملزم افسر پر صحیح نہیں پایا جاتا ہے۔ الزام نمبر چار کی تصدیق میں دئے گئے ثبوت ناکافی اور غیر مدلل ہیں۔ یہ الزام ملزم افسر پر صحیح نہیں پایا جاتا ہے۔ ‘
چیف سکریٹری رجنیش دوبے نے گزشتہ تین اکتوبر کو پریس کانفرنس میں کہا کہ الزام نمبر 3 اور 4 کے بارے میں ڈاکٹر کفیل نے جانچ افسر کودستاویز دستیاب کرایا تھا کہ واقعہ کے وقت 100 بیڈ اے ای ایس کے انچارج وہ نہیں ڈاکٹر بھوپیندر شرما تھے۔ اس دستاویز کی بنیاد پر جانچ افسر نے ڈاکٹر کفیل پر الزام صحیح نہیں پایا۔ ان کے مطابق، حکومت کے علم میں کچھ دستاویز آئے ہیں، جس سے بادی النظر میں یہ واضح ہوتا ہے کہ سال 2016 اور 2017 میں ڈاکٹر کفیل احمد خان 100 بیڈ اے ای ایس وارڈ کے نوڈل افسر تھے۔ ان کے ذریعےنوڈل افسر کے طورپرخط وکتابت کئے گئے ہیں۔ان کو نوڈل افسر کے طور پر خریداری کمیٹی کا ممبر بھی بنایا گیا تھا۔ اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے الزام نمبر 3 اور 4 میں آگے کی جانچ کی جا رہی ہے۔ ‘
یہاں اہم ہے کہ 100 بیڈ اے ای ایس وارڈ کے انچارج اور نوڈل افسر کے الگ الگ عہدے ہیں، نہ کہ ایک۔ 100 بیڈ اے ایس ای کے نوڈل افسر کا کوئی عہدہ ہی نہیں ہے، جیسا کہ چیف سکریٹری رجنیش دوبے نے پریس کانفرنس میں کہا ہے۔ ڈاکٹر کفیل خان کا دعویٰ ہے کہ وہ آکسیجن اسکینڈل کے وقت نوڈل افسر این ایچ ایم تھے، نہ کہ 100 بیڈ اے ای ایس وارڈ کے انچارج یا 100 بیڈ وارڈ کےنوڈل افسر۔ڈاکٹر کفیل خان نے اپنے دعویٰ کی حمایت میں جانچ افسرر ہمانشو کمار کوآر ٹی آئی سے حاصل ثبوت مہیا کرایا تھا۔ اس آر ٹی آئی میں بی آر ڈی میڈیکل کالج کے ذریعے یہ جانکاری دی گئی ہے کہ ’11 مئی 2016 سے ڈاکٹر بھوپیندر شرما، ایسوسی ایٹ پروفیسرکو اے ای ایس اور 100 نمبر وارڈ کا انچارج افسر بنایا گیا ہے۔ ‘
پولیس چارج شیٹ میں ڈاکٹر کفیل خان کو این ایچ ایم کا نوڈل افسر اور 100 بیڈ اے ایس ای وارڈ کا انچارج بتایا گیا ہے۔چارج شیٹ میں بی آر ڈی میڈیکل کالج کےشعبہ اطفال کی صدر ڈاکٹر مہیمامتل کا بیان درج ہے۔بیان کے مطابق، ‘ پرنسپل ڈاکٹر راجیو مشر نے 29 دسمبر 2016 کو دفتری حکم جاری کرکے ڈاکٹر کفیل خان کو این ایچ ایم میڈیکل کالج کا انچارج بنایا۔ محکمے میں سینئرڈاکٹر ہونے کے باوجود جونیئر ڈاکٹر کفیل کو نوڈل افسر بنایا گیا۔ ان کو 20 ہزار روپے تک کا خریداری کا حق دیا گیا۔ ‘اس بیان میں حالانکہ انہوں نے یہ بھی جوڑا ہے کہ ‘وہ (ڈاکٹر کفیل) این ایچ ایم کے تحت 100 بیڈ اے ای ایس وارڈ کے بھی انچارج تھے۔ ‘
ڈائریکٹر جنرل میڈیکل ایجوکیشن ڈاکٹر کےکے گپتا نے اپنی جانچ رپورٹ میں ایک مقام پر ڈاکٹر ستیش کمار کو 100 نمبر وارڈ کاانچارج افسر بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ذریعے رکھ رکھاؤ کی مناسب کارروائی نہیں کی گئی۔اس رپورٹ پر ہی ڈاکٹر کفیل، ڈاکٹر راجیو مشر، ڈاکٹر ستیش کمار، ڈاکٹرپُرنیما شکل سمیت آٹھ لوگوں کو معطل کیا گیا اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی۔ڈاکٹر کفیل کا کہنا کہ این ایچ ایم کے نوڈل افسر کے بطور ان کا کام این ایچ ایم کے تحت انسانی وسائل کا انتظام وانصرام تھا۔پولیس چارج شیٹ، آر ٹی آئی سے حاصل جواب اور ڈاکٹر کےکے گپتا کی جانچ رپورٹ ڈاکٹر کفیل کی ذمہ داری کے بارے میں الگ الگ دعوے کرتے ہیں۔
چیف سکریٹری رجنیش دوبے نے پریس کانفرنس میں ڈاکٹر کفیل کا آکسیجن اسکینڈل کے وقت عہدہ کے بارے میں جو جانکاری دی ہے جس کے بارے میں اب تک کسی بھی کاغذ میں ذکر نہیں ملتا ہے۔ اب حکومت اگر این ایچ ایم کے نوڈل افسر کے بطور ڈاکٹر کفیل کی آکسیجن اسکینڈل میں ذمہ داری طے کرتی ہے تو اس کو اس بات کا بھی جواب دینا ہوگا کہ 100 بیڈ اے ای ایس وارڈ کے انچارج کیسے اپنی ذمہ داری سے آزاد ہو سکتے ہیں؟ کیا آکسیجن کی کمی اور فرض کی ادائیگی میں لاپروائی اکیلے ڈاکٹر کفیل خان نے ہی کی؟ آکسیجن کی کمی کے لئے بی آر ڈی میڈیکل کالج کے نگراں پرنسپل، صدر شعبہ جس کے تحت 100 بیڈ اے ای ایس وارڈ آتا ہے، نہرو ہاسپٹل کے چیف میڈیکل سپرنٹنڈنٹ، 100 بیڈ کے انچارج سمیت دیگر کو کیوں نہیں ذمہ دار ٹھہرایا گیا؟ کیا ان کاکوئی رول نہیں بنتا ہے؟
ڈاکٹر کفیل نے جانچ افسر کو جو دستاویز دستیاب کرائے ہیں، ان میں سےزیادہ تر آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل دستاویز ہیں۔یہ دستاویز بی آر ڈی میڈیکل کالج اور سرکاری محکمہ جات کے ذریعے دستیاب کرائے گئے ہیں۔ ان دستاویزوں کی صداقت کوچیلنج دینا حکومت کے لئے مضحکہ خیز صورت ہی پیدا کرےگی۔ بہرائچ ضلع ہاسپٹل کا واقعہ 22 ستمبر 2018 کا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں یہ خبر آئی تھی کہ بہرائچ ضلع ہاسپٹل میں 45 دن میں 71 بچوں کی موت ہوئی ہے۔ہاسپٹل کی طرف سے کہا گیا کہ بچوں کی موت پراسرار بخار سے ہوئی ہے۔ وہیں، ڈاکٹر کفیل خان کا کہنا تھا کہ بچوں کی موت انسفیلائٹس سے ہوئی ہے۔وہ 22 ستمبر 2018 کو بہرائچ ضلع ہاسپٹل پہنچے اور وہاں بھرتی بچوں کے رشتہ داروں سے بات چیت کرنے لگے۔اسی وقت پولیس نے ان کو ماحول خراب کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔
ان کےخلاف ضلع ہاسپٹل کے چیف میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (سی ایم ایس)کی تحریر پر سرکاری کام کاج میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام میں مقدمہ بھی درج کیا گیا۔ اس معاملے میں 10 مہینے بعد اس سال جولائی میں حکومت پھر فعال ہوئی ہے۔ محکمہ برائےطبی تعلیم نے نہ صرف اس معاملےمیں ڈاکٹر کفیل خان کو معطل کیا ہے بلکہ ان کے خلاف شعبہ جاتی جانچ شروع کی گئی ہے۔چیف سکریٹری رجنیش دوبے نے کہا ہے کہ ڈاکٹر کفیل کے ذریعے 22 ستمبر 2018 کو 3-4 لوگوں کے ساتھ ضلع ہاسپٹل بہرائچ جاکر شعبہ اطفال میں جبراً مریضوں کا علاج کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس واقعہ کے بارے میں ضلع ہاسپٹل بہرائچ کے چیف میدیکل سپرنٹنڈنٹ نے 17 جولائی 2019 کو حکومت کو واقف کرایا، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر کفیل کے اس کارنامےسے ہاسپٹل میں افرا تفری کا ماحول پیدا ہوا اور پی آئی سی یو میں بھرتی نازک بچہ مریضوں کی زندگی کو لے کر بحران پیدا ہوا۔ اس واقعہ کے تعلق سے ڈاکٹر کفیل کے خلاف بہرائچ کے کوتوالی نگر میں ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی تھی۔
چیف سکریٹری رجنیش دوبے نے اپنے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ معطلی کی مدت کےدوران ڈاکٹر کفیل کے ذریعے ڈائریکٹر جنرل میں خدمات نہ دےکر سوشل میڈیا پر سرکارمخالف سیاسی تبصرے کیے گئے۔سرکاری خادم کےطور پر ان کا یہ کام شدید غیراخلاقیات کے زمرہ میں آتا ہے۔ ان کے مطابق، اس بارے میں 31 جولائی 2019 کو اتر پردیش سرکاری خادم نظم وضبط اور اپیل دستورالعمل 1999 کے مطابق ڈاکٹرکفیل کو معطل کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ڈاکٹر کفیل کے خلاف شعبہ جاتی کاروائی شروع کی گئی ہے جس میں کل تین الزام لگائے گئے ہیں۔ ان الزامات کی جانچ 18 ستمبر 2019 کو چیف سکریٹری طب اور صحت اور فیملی ویلفیئر کو سونپی گئی ہے۔
بہرائچ معاملے میں 10 مہینے بعدڈاکٹر کفیل خان پر معطلی کی کارروائی اور الزامات کی جانچ شروع کرنا بھی حکومت اورمحکمہ برائے طبی تعلیم کو کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے۔ اصول ہے کہ شعبہ جاتی کارروائی کے بعد شعبہ جاتی جانچ فوراً شروع کر دینی چاہے اور تین مہینے میں جانچ پوری کر رپورٹ کے مطابق فیصلہ لیا جانا چاہیے۔ آکسیجن اسکینڈل میں شعبہ جاتی جانچ پوری کرنے میں دیری کے خلاف ڈاکٹرکفیل خان ہائی کورٹ میں گئے تھے، جہاں سے حکومت کو تین مہینے میں جانچ پوری کرضروری کارروائی کرنے کو کہا گیا تھا۔ اپریل 2019 میں جانچ رپورٹ ملنے کے بعد حکومت ابھی تک اس معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں لے سکی ہے۔ بہرائچ معاملے میں تو اسی مہینے جانچ افسر کی تقرری کی گئی ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ ڈاکٹرکفیل پر لگائے گئے الزامات کی تیزی سے جانچ کرانے میں خود حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
کل ملاکر شعبہ جاتی جانچ رپورٹ نے آکسیجن اسکینڈل کو لےکر حکومت کے دعووں پر ہی سوال کھڑا کر دیا ہے۔ جانچ رپورٹ سے آکسیجن اسکینڈل کی سرکاری کہانی کی بنائی پوری طرح سے ادھڑ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس رپورٹ کے عوامی ہونے کے بعدحکومت کو بار بار صفائی دینے میڈیا کے سامنے آنا پڑ رہا ہے۔
(مضمون نگار گورکھپور نیوزلائن ویب سائٹ کے مدیر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر