خبریں

ڈی یو: کیا دلت ہو نے کی وجہ سے ایک پروفیسر کو صدر شعبہ نہیں بنایا جا رہا ہے؟

خصوصی رپورٹ : دہلی یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے صدر کے عہدے کے لئے دوپروفیسروں کے درمیان کھینچ تان چل رہی ہے۔ اس کی وجہ سے شعبہ کے صدر کے عہدے کی تقرری اب تک نہیں ہو سکی ہے۔

 دہلی یونیورسٹی(فوٹو : وکی میڈیا)

دہلی یونیورسٹی(فوٹو : وکی میڈیا)

نئی دہلی: دہلی یونیورسٹی(ڈی یو)کے شعبہ ہندی کے صدر کا عہدہ ان دنوں تنازعے میں ہے۔ اس عہدے کے لئے دو پروفیسروں کے درمیان سینئرہونے  کا معاملہ تنازعےکی وجہ بنا ہوا ہے۔

یہ پروفیسر ہیں شیوراج سنگھ بےچین اور کیلاش نارائن تیواری۔ شیوراج سنگھ بےچین کو گزشتہ 13 ستمبر کو ہندی کے صدر شعبہ کا عہدہ رسمی طور پر سنبھالنا تھا لیکن پروفیسر کیلاش نارائن تیواری نے اپنے  سینئرہونے کےتعین کے لئے ڈی یو انتظامیہ کو خط لکھ بھیجا اور اس عہدے کے لئے اپنی دعوےداری پیش کی۔

 حالانکہ ان کے خط کو خارج کر دیا گیا لیکن انتظامیہ نے اب تک صدر شعبہ کولےکر صورت حال کو واضح نہیں کیا ہے۔ نتیجتاً، ہندی کے صدر شعبہ کا عہدہ اب بھی خالی پڑا ہواہے۔

 الزام ہیں کہ پروفیسر بے چین کی ذات کی وجہ سے ڈی یو انتظامیہ پر سیاسی دباؤ ہے، جس وجہ سے بے چین کی تقرری بیچ میں لٹکا دی گئی ہے۔

کیا ہے تنازعہ؟

دہلی یونیورسٹی کے اصولوں کے مطابق، شعبہ ہندی کے صدر کے عہدے کی مدت کار تین سال کی ہوتی ہے۔ تین سال پورا ہونے کے بعد صدر 12 ستمبر کو عہدہ چھوڑ دیتا ہے اور سب سے سینئر پروفیسر 13 ستمبر کو ایچ او ڈی کا عہدہ سنبھال لیتا ہے۔ ایچ او ڈی کا عہدہ سنبھالنے کا یہ عمل سال در سال روٹیشن کے ذریعہ ہی چلتاہے۔ اصولوں کے مطابق اس سال بھی ایسا ہی ہونا تھا۔

 اس سال 12 ستمبر کوپروفیسر موہن کی مدت کار ختم ہوئی  اور 13 ستمبر کو سب سے سینئر پروفیسر شیوراج سنگھ بے چین کو صدر کا عہدہ سنبھالنا تھا لیکن ان کو اس کے لئے انتظامیہ سے کوئی خط نہیں ملا۔

 خط نہیں ملنے پر وائس چانسلر یوگیش تیاگی سے جب پوچھا گیا تو پتہ چلا کہ شعبہ ہندی کے ایک دیگر پروفیسر کیلاش نارائن تیواری نے اپنی سینئرہونے کے تعین کےلئے ڈی یو انتظامیہ کو خط لکھا ہے، جو صدر شعبہ کا عہدہ خالی ہونے سے کچھ دن پہلےان کو بھیجا گیا۔

حالانکہ پروفیسر تیواری کی دعوےداری کو خارج کیا جا چکا ہے۔ وی سی دفتر سےدعوےداری خارج ہونے کے بعد پروفیسر تیواری کی فائل ڈی یو کے لیگل سیل سے بھی خارج ہو چکی ہے، اس کے باوجود کسی کو بھی شعبہ ہندی کا صدر نہیں چنا گیا ہے۔ بے چین کے حامی اور ذاکر حسین کالج میں پڑھانے والے ایڈہاک ٹیچر لکشمن یادو کہتے ہیں،’دراصل یو جی سی نے 2009 میں ایک سرکلرجاری کیا تھا، جس کے تحت یونیورسٹی میں کام کرنے والے ریسرچ سائنٹسٹ کو ان کی پے-گریڈکے مطابق پروفیسرشپ دینے کو کہا گیا۔ ‘

وہ کہتے ہیں،’کیلاش ناتھ تیواری ریسرچ سائنٹسٹ تھے۔ یہ سرکلر ضرور 2009 میں جاری ہوا تھا لیکن ڈی یو انتظامیہ نے پروفیسرتیواری کو اکتوبر 2010 سے پروفیسر کےطور پر منظوری دی۔ اس طرح اکتوبر 2010 سے وہ پروفیسر ہیں، لیکن پروفیسر شیوراج سنگھ بے چین کی ڈی یو میں تقرری فروری 2010 میں ہوئی تھی۔پروفیسر تیواری بے شک ڈی یو میں 2008 سے تھے لیکن وہ ریسرچ سائنٹسٹ کے عہدے پر تھے۔ اس طرح بے چین سینئر ہوئےاور ڈی یو انتظامیہ ایسا ان کو بتا چکا ہے۔ ‘

سینئرہونے  کا معاملہ ذات سے کیسے جڑا

 دراصل، شیوراج سنگھ بےچین دلت کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے الزام لگائے جا رہے ہیں کہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے کسی دلت پروفیسر کو شعبہ کا صدر بننے سےروکا جا رہا ہے۔ بےچین کے حامیوں کا کہنا ہے کہ بے چین کی ذات کی وجہ سے ان کی تقرری کو جان-بوجھ‌کر لٹکایا جا رہا ہے۔

 پروفیسر شیوراج سنگھ بے چین(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

پروفیسر شیوراج سنگھ بے چین(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

لکشمن یادو کہتے ہیں،’شعبہ ہندی کے اب تک 20 ایچ او ڈی رہ چکے ہیں لیکن یہ تمام ایک ہی ذات کے ہیں۔ اس میں ایک بھی دلت، پچھڑا، آدیواسی یا اقلیت نہیں ہے۔ خواتین بھی صرف دو ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا 72 سال کی تاریخ میں کوئی دلت پروفیسرشعبہ ہندی کا صدر بننے کی صلاحیت نہیں رکھ پایا؟’

وہ کہتے ہیں،’وائس چانسلر دفتر اور لیگل سیل تیواری کے خط کو خارج کرچکے ہیں تو ایسے میں وائس چانسلر کو وضاحت دینی چاہیے۔ انصاف ملنے میں دیری ناانصافی ہی تو ہے۔ اگر آپ مناسب وقت پر فیصلہ نہیں لے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہےکہ آپ کوئی سازش رچ رہے ہیں۔ گزشتہ  تین-چار ہفتے سے شعبہ ٹھپ  پڑا ہے۔ ایم فل، پی ایچ ڈی کا داخلہ نہیں ہو رہا ہے۔ طالب علموں کے نیٹ اور جے آر ایف لیپس ہو گئے ہیں۔پورا تعلیمی کام رکا ہواہے۔ ‘

لکشمن کہتے ہیں،’ہمارا ڈی یو انتظامیہ سے سیدھا سا سوال ہے کہ شعبہ ہندی کے 70 سال کی تاریخ میں آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی پروفیسر کو ایچ او ڈی کے عہدے کے لئے اتنا لٹکاکر رکھا جائے۔ تین ہفتے سے زیادہ ہونے کے بعد بھی ڈی یو نے معاملے کو لٹکاکر رکھا ہے۔ ‘

انہوں نے دعویٰ کیا،’ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ وائس چانسلر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے اوپر سیاسی دباؤ بنایا جا رہا ہے کہ آپ اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہ لیں اور ڈی یو کے آئین کے آرڈیننس-3 کے تحت فیصلہ لیں، جس کی بنیاد پر وی سی کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اصولوں کو درکنار کر کے جو بھی فیصلہ لیں‌گے، اس کو صحیح مانا جائے‌گا۔ ‘

ڈی یو کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر این سکمار کہتے ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ کے پاس ایسی کوئی فہرست نہیں ہے، جس سے پروفیسر کے  سینئرہونے  کا پتہ لگایاجا سکے۔ اگر ہوتی تو یہ تنازعہ ہی نہیں ہوتا۔

 سکمار کہتے ہیں،’1922 میں قائم دہلی یونیورسٹی میں شعبہ ہندی کا قیام 1952 میں ہوا لیکن اب تک کوئی دلت پروفیسر صدر شعبہ نہیں بنا ہے۔ اگر کوئی دلت ایچ او ڈی بننے کے لائق ہوتا ہے تو انتظامیہ ڈس کرشنری (خصوصی اختیارات)معاملوں کا حوالہ دے دیتا ہے۔ ڈی یو انتظامیہ، ایم ایچ آر ڈی وزارت اورسنگھی حکومت کو شرم آنی چاہیے کہ وہ سوشل جسٹس کی بات کرتے ہیں، لیکن یونیورسٹی میں 10 سے زیادہ ایس سی-ایس ٹی پروفیسر نہیں ہیں۔ ‘

وہ کہتے ہیں،’دلت آگے بڑھتا ہے تو اس کو روکنے کے لئے نئے-نئے قاعدے-قانون سامنے آ جاتے ہیں۔ ڈی یو انتظامیہ سے سوال پوچھا جانا چاہیے کہ فیصلہ لینے والی کمیٹیوں میں اعلیٰ کمیٹیوں میں کتنے ایس سی-ایس ٹی پروفیسر ہیں۔ ‘

 سکمار کے مطابق، ‘میں خود دلت کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہوں۔ پچھلے دو مہینے میں مجھے 20 کالجوں سے فون آئے ہیں اور سب ایک ہی بات کہتے ہیں کہ ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی آبزرور کے طور پرمیری  تقرری کرنا چاہتے ہیں۔ اس سےآگے ہمارے لئے کبھی سوچا نہیں جاتا۔ کیوں؟ کیا ہمارے پاس میرٹ نہیں ہے؟ ‘

دہلی یونیورسٹی کے نارتھ کیمپس میں پروفیسر شیوراج سنگھ بے چین کی حمایت میں بیتے دنوں مظاہرہ کیا گیا۔ (فوٹو: ریتو تومر)

دہلی یونیورسٹی کے نارتھ کیمپس میں پروفیسر شیوراج سنگھ بے چین کی حمایت میں بیتے دنوں مظاہرہ کیا گیا۔ (فوٹو: ریتو تومر)

وہ آگے کہتے ہیں،’شعبہ ہندی دور کی بات ہے، ڈی یو انتظامیہ کے پاس پروفیسر کے  سینئرہونے کی بنیاد پر کوئی فہرست ہی نہیں ہے۔’

دہلی یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن کی سابق صدر رنجنا نارائن کہتی ہیں،’ہمارے سماج میں مساوات کہیں نہیں ہے۔ میں اس کو سیدھے طور پر ڈی یو انتظامیہ کی غلطی مانتی ہوں کہ وہ معاملے کو لٹکاکر کیوں رکھ رہا ہے۔ اگر کیلاش نارائن تیواری کے خط کو خارج کر دیاگیا ہے تو پھر تو معاملہ ہی ختم ہو گیا، پھر بے چین جی کو کیوں لٹکاکر رکھا ہے۔ یہ ایک طرح سے دلت مخالف قدم ہی ہے۔ ‘

اس پورے معاملے پر پروفیسر شیوراج سنگھ بےچین کا کہنا ہے،’میں پچھلےتقریباً چار سال سے صدر شعبہ کی غیرحاضری میں صدر شعبہ کا کردار نبھا رہاہوں۔ ڈین کی غیرحاضری میں بھی اس عہدے کی ذمہ داری میری رہتی ہے۔ اگر میں مستقبل کا صدر شعبہ نہیں تھا تو یہ ذمہ داری مجھے کیوں دی جاتی تھی۔ ‘

پروفیسر شیوراج سنگھ بے چین گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے پڑھا رہے ہیں۔اکادمک پس منظر کے ساتھ-ساتھ وہ ادب سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ اخباروں اور رسالوں میں لکھتے رہے ہیں۔ کئی کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔ ان کی آپ بیتی کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔ ان پر کئی ریسرچ ہو چکے ہیں۔ ان کو ہندی ساہتیہ پروسکار سے بھی نوازاجا چکا ہے۔

 ڈی یو انتظامیہ کے اس قدم کو دلت مخالف بتاتے ہوئے سات اکتوبر کو شیوراج سنگھ بے چین کی حمایت میں ڈی یو کے نارتھ کیمپس میں نیائے مارچ (مارچ فار جسٹس)نکالاگیا تھا، جس میں اساتذہ، طالب علموں، کارکنان نے حصہ لیا اور ڈی یو انتظامیہ کے اس قدم کی مذمت کی۔

کیا کہتے ہیں کیلاش نارائن تیواری ؟

 پروفیسر کیلاش نارائن تیواری سال 2008 میں دہلی یونیورسٹی میں بطور ریسرچ سائنٹسٹ جڑے تھے۔ 2009 میں یو جی سی نے ایک سرکلر جاری کیا تھا، جس کےمطابق ریسرچ سائنٹسٹ بطور پروفیسر کام کریں‌گے لیکن ڈی یو نے ان کو اکتوبر 2010 میں بطور پروفیسر جوائن کرایا۔

 پروفیسر کیلاش نارائن تیواری(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

پروفیسر کیلاش نارائن تیواری(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

پروفیسر تیواری کہتے ہیں،’ہاں، میں نے وی سی کو ایک خط لکھا تھا، مجھےنہیں پتہ تھا کہ میرے ایک خط سے اتنی بڑی تحریک کھڑی ہو جائے‌گی۔ میں نے خط میں صرف اتنا لکھا تھا کہ ڈی یو انتظامیہ میری سینئرہونے کا تعین کریں۔ میں نے اس بارے میں وی سی سے جانکاری مانگی تھی۔ ‘

وہ کہتے ہیں،’مجھ پر بے تکے الزام لگائے جا رہے ہیں۔ سیاسی دباؤ بنانے کاجو الزام لگایا ہے، اس کے حقائق  کہاں ہیں۔ ثبوت دیجئے۔ ذرائع کے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ سیاسی دباؤ بنایا جا رہا ہے، تو ذرائع بتائیے۔ ‘

پروفیسر تیواری کا کہنا ہے، ‘میں نے اپنی سینئرہونے کی جانکاری مانگی ہےکہ یونیورسٹی طے کرے کہ سینئر کون ہے۔ ہم تو اپنا حق مانگ رہے ہیں، حق جان رہےہیں۔ انتظامیہ کو جواب دینا چاہیے۔ مجھے کچھ کشمکش تھی، میں نے وی سی کو خط لکھا،اب وی سی کو فیصلہ لینا ہے۔ ‘

وہ کہتے ہیں،’میری یہ مانگ نہیں ہے کہ میں بڑا ہوں یا چھوٹا ہوں۔ ڈی یومیں سارے اختیارات وی سی کے ہاتھوں میں ہیں۔ انتظامیہ کے فیصلے کا انتظار کریں۔ اس چھوٹے سے مسئلے کو دلت استحصال کے طور پر پھیلایا جا رہا ہے۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘میں اس مدعے کو دلت مخالف بنائے جانے کو لےکر دکھی ہوں۔ایک آدمی بالکل خاموش ہے جبکہ دوسرا گروپ پوری تحریک چلا رہا ہے۔ 13 تاریخ کو پروفیسر بےچین کو خط کیوں نہیں ملا، اس کایونیورسٹی کو جواب دینا ہے، مجھے نہیں۔ ‘

معاملے میں سابق صدر شعبہ پروفیسر موہن کے کردار پر سوال

ڈی یو کے شعبہ ہندی کے صدر کا عہدہ تین سال تک سنبھال چکے پروفیسر موہن کی مدت کار12 ستمبر کو ختم ہو گئی تھی، لیکن معاملے کا حل نکلنے تک ڈی یو انتظامیہ نے ان کو اس عہدے پر بنے رہنے کو کہا ہے۔ دراصل اس پورے معاملے میں ایک گروہ پروفیسر موہن کے رول پر سوال کھڑے کر رہا ہے لیکن پروفیسر موہن نے اس سے متعلق وی سی کو خط لکھا تھا اب ان کی مدت کار ختم ہوگئی ہے۔ہندی شعبہ کے صدر کے تعین کرنے کا اختیار پوری طرح سے وی سی کے پا س ہے۔

ذرائع کے مطابق، پروفیسر موہن نے 12ستمبر سے ایک دن پہلے پروفیسر شیور اج سنگھ بے چین کو وی سی سے ملوایا تھا لیکن وی سی دفتر نے اب تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ ہندی میں 2010 میں کل تین لوگوں کی تقرری ہوئی تھی، جس میں پروفیسر پریم سنگھ، شیوراج سنگھ بےچین اور پروفیسر اپوروانند تھے۔ پروفیسر پریم سنگھ ریٹائر ہو گئی ہیں۔