خبریں

جب ٹی این شیشن کی وجہ سے پر نب مکھرجی کو استعفیٰ دینا پڑا تھا…

سابق الیکشن کمشنر ٹی این شیشن کا اتوار کی دیر رات انتقال ہوگیاوہ گزشتہ چند سالوں سے علیل تھے ۔مانا جاتا ہے انہوں نےالیکشن کمیشن کو اس کی اصل طاقت سے واقف کرایا اور انتخابی اصلاحات کے تحت جمہوریت کو صاف شفاف اور مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ٹی این شیشن، فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا

ٹی این شیشن، فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا

نئی دہلی: ہندوستان میں انتخابات کو لے کر سخت رویہ اپنانے، ضابطہ اخلاق کو مضبوط بنانے اور انتخابی نظام کےمصلح کے طور پر معروف سابق چیف الیکشن کمشنر ٹی این شیشن کا اتوار کو طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔

ان کی بیٹی شری ودیا نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ، پچھلے کچھ سالوں سے ٹی این شیشن کی صحت اچھی نہیں تھی۔ اتوار کی رات 9.45 بجے ان کا انتقال ہو گیا۔انہوں نے بتایا کہ، گزشتہ چند سالوں میں بڑھتی عمر  سےمتعلق پریشانیوں کی وجہ سے ان کا کہیں بھی آنا جانا بند ہوگیا تھا، وہ بہت حد تک اپنے گھر تک ہی محدود ہوگئے تھے۔ان کو اپنے سفر، لوگوں کو جاننے اور عوامی خدمات میں برسوں تک رہنے کے بارے میں لکھنے کا شوق تھا۔

1955 بیچ کے آئی اے ایس افسر رہے شیشن نے حکومت ہند میں سکریٹری دفاع اور کابینہ سکریٹری سمیت کئی اہم عہدوں پر اپنی خدمات دیں۔حالاں کہ 1990 میں چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی ان کو مقبولیت حاصل ہوئی۔

انہوں نے الیکشن کمیشن کو اس کی اصل طاقت سے واقف کرایا اور انتخابی اصلاحات کے تحت جمہوریت کو صاف شفاف اور مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔واضح ہو کہ ہندوستان میں تقریباً 99 فیصد رائے دہندگان کو شناختی کارڈ فراہم کرانے کاسہرا بھی ٹی این شیشن کو دیا جاتا ہے۔ دراصل ان کی مدت کار میں ہی اس کی شروعات ہوئی اور 1996 میں اس کا استعمال شروع ہوا۔

ٹی این شیشن کی بات کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ  فرضی ووٹنگ کو روکنے میں وہ پیش پیش رہے۔  90 کی دہائی میں بہار، اتر پردیش اور دہلی جیسی ریاستوں میں جہاں فرضی ووٹنگ کی شکایت عام تھی۔ شیشن کے زمانے میں بہت حد تک لوگوں کی یہ شکایت دور ہوئی۔

غور طلب ہے کہ ٹی این شیشن کے الیکشن کمشنر بننے سے پہلے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی بھی بہت عام تھی، لیکن انہوں نے اس کوسختی سے اپنایا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان سے پہلے انتخابی مہم کو لے کر بھی اصولوں اور ضابطے کی پیروی نہیں کی جاتی تھی اور سیاسی پارٹیاں بے حساب پیسے خرچ کرتی تھیں۔ لیکن شیشن کے زمانے میں ضابطہ اخلاق کی سخت گیری کی وجہ سے بہت حد تک اس کے اثرات مرتب ہوئے۔ان کے زمانے میں ہی رات 10 بجے کے بعد انتخابی مہم پر روک لگی۔ امیدواروں کے لیے انتخابی مہم کے دوران باقاعدگی سے اخراجات کا حساب دینا لازمی ہوگیا تھا۔

ٹی این شیشن نے پارٹیوں اور امیدواروں کی من مرضی پر روک لگانے کے لیے مشاہد/آبزرور کی تعیناتی  کو سختی سے لاگو کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے انہی اقدامات کی وجہ سے نوکر شاہی کو کام کرنے کی آزادی ملی اور تشدد میں کمی آئی۔ سال 1995 میں ہوئے بہار کے انتخابات کو اسی بھی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔قابل ذکر ہے کہ اس انتخاب میں پولنگ بوتھ پر قبضہ کرنے اور اس کو لوٹنے کی واردات میں غیر معمولی کمی دیکھی گئی تھی۔

انہوں نے اسٹیٹ مشینری کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سینٹرل فورسز کی تعیناتی کو بھی مؤثر بنایا۔ کئی معنوں میں یہ ٹی این شیشن کی خوبی رہی کہ جہاں انہوں نے سیاسی رہنماؤں پر سختی کی وہیں ووٹرس کا خوب دھیان رکھا۔یہی وجہ تھی کہ لوگوں نے بنا کسی خوف و ہراس کے ووٹ ڈالنا شروع کیا۔ انہوں نے اپنے زمانے میں ووٹوں کی گنتی سے پہلے ووٹوں کو مکس کرنے کی ہدایت بھی دی، دراصل انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ جیتنے کے بعد کوئی امیدوار انتقام کے جذبے سے کام نہ کر پائے۔

ہندوستان میں انتخابی سیاست کی سمت و رفتار بدلنے میں ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔ انتخابات میں شفافیت کے لیے ان کو جانا جاتا ہے۔ ٹی این شیشن کے اہل خانہ نے بتایا کہ 86 سالہ شیشن کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوا۔

T.N. Seshan during an interview. Photo: Kiruba Shankar/Flickr, CC BY 2.0

T.N. Seshan during an interview. Photo: Kiruba Shankar/Flickr, CC BY 2.0

ٹی این شیشن تمل ناڈو کیڈر کے 1955 بیچ کے آئی اے ایس آفیسر تھے۔ دسویں الیکشن کمشنر کے طور پر انہوں نے ملک کو اپنی خدمات دیں۔ بتاتے چلیں کہ 86 سالہ شیشن نے 1990 سے 1996 کے بیچ چیف الیکشن کمشنر کے طور پر اپنی خدمات دیں۔سیشن کو ریمن میگسیسے ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان میں ایک وقت ایسا بھی تھا، جب ملک بھر کے رہنما ٹی این شیشن کی سخت گیری سے خوف کھاتے تھے۔ سیشن اس لیے بھی اکثر حوالے میں رہے کہ انہوں نے پرامن ووٹنگ  کے لیے یوپی اور بہار جیسی ریاستوں میں پیرا ملٹری فورسز کی تعیناتی کو یقینی بنا کر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے۔ انہوں نے 1995 کے بہار اسمبلی انتخابات کو غیر جانبدار بنانے کی غرض سے الیکشن کی تاریخوں میں چار بار پھیر بدل بھی کیا۔

بی بی سی کے سینئر صحافی ریحان فضل نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ؛سال 1992 کے شروع سے ہی شیشن نے سرکاری افسروں کو ان کی غلطیوں کے لیے لتاڑنا شروع کر دیا تھا۔ اس میں مرکز کے سکریٹری  اور ریاستوں کے چیف سکریٹری  بھی شامل تھے۔ ایک اہم واقعہ  کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں؛

ایک بار اربن ڈیولپمنٹ منسٹری کے جوائنٹ سکریٹری کے دھرم راجن کو تریپورہ میں ہو رہے انتخاب  کا آبزروربنایا گیا۔ لیکن وہ اگرتلہ جانے کے بجائے ایک سرکاری کام پر تھائی لینڈ چلے گئے۔ شیشن نےفوراً حکم دیا،دھرم راجن جیسے افسروں کو یہ غلط فہمی ہے کہ الیکشن  کمیشن کے تحت  ان کا کام ایک طرح کا رضاکارانہ کام ہے، جسے وہ چاہے کریں یا نہ کریں۔ وہ اگر سوچتے ہیں کہ بیرون ملک  جانا یا ان کے شعبے کا کام، الیکشن کمیشن کے کام سے زیادہ اہم ہے، تو ان کی اس غلط فہمی کو دور کیا جانا چاہیئے۔

شیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا؛

ویسے تو انہیں اس کی سخت سے سخت  سزا ملنی چاہیے، لیکن الیکشن کمیشن نے اس اختیار  کا ااستعمال  نہ کرتے ہوئے صرف ان کی خفیہ  رپورٹ میں نیگیٹو ریمارک دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

فضل آگے لکھتے ہیں ؛شیشن کے اس حکم سے اقتدار کے گلیاروں میں تہلکہ مچ گیا۔ لیکن ابھی تو بہت کچھ آنا باقی تھا۔

2 اگست، 1993 کو رکشا بندھن کے دن ٹی این شیشن نے ایک 17 صفحے کا حکم جاری کیا کہ جب تک سرکار الیکشن کمیشن  کے اختیارات کو منظوری  نہیں دیتی، تب تک ملک  میں کوئی بھی انتخاب  نہیں کرایا جائےگا۔

شیشن نے اپنے حکم  میں لکھا،جب تک موجودہ کشمکش دور نہیں ہوتا، جو کہ صرف حکومت ہند  کے ذریعے بنایا گیا ہے، الیکشن  کمیشن اپنے آپ کو اپنی آئینی ذمہ داری نبھا پانے میں نااہل  پاتا ہے۔ اس نے طے کیا ہے کہ اس کے اختیار  میں ہونے والے ہر چناؤ، جس میں ہر دو سال پر ہونے والے راجیہ سبھا کے چناؤ اور ودھان سبھا کے ضمنی انتخاب بھی ہین ، جن کا اعلان  کیا جا چکا ہے، اگلے حکم  تک ملتوی  رہیں گے۔

اس حکم کے خلاف سیاستدانوں نے شدید ردے عمل کا اظہار کیا۔ شیشن نے مغربی بنگال کی راجیہ سبھا سیٹ پر چناؤ نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے پرنب مکھرجی کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ بنگال کےوزیراعلیٰ  جیوتی باسو اتنے ناراض ہوئے کہ انہوں نے انہیں ‘پاگل کتا’ کہہ ڈالا۔

وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے کہا، ہم نے پہلے کارخانوں میں ‘لاک آؤٹ’ کے بارے میں سنا تھا، لیکن شیشن نے توجمہوریت  کو ہی ‘لاک آؤٹ’ کر دیا ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹی این شیشن نے ملک کے قدآور رہنماؤں کو بھی انتخابی مہم کے لیے طے شدہ وقت کے بعد اجلاس کی اجازت نہیں دی تھی۔ وہ اصولوں کے اتنے پکے اور سخت گیر واقع ہوئے تھے کہ ذرا سی گڑبڑی  ہونے کے بعد الیکشن کو رد کر دیتے تھے۔

ٹی این سیشن15 دسمبر 1932 کو کیرل کے پلکڑ ضلع کے تھرنیلئی میں پیدا ہوئے۔وہیں سے اسکول کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور بعد میں مدراس کرشچین کالج سے فزکس میں گریجویشن کیا۔ انہوں نے مدراس کرشچین کالج میں تین سال تکDemonstratorکے طور پر بھی کام کیا۔اس دوران انہوں نے آئی اے ایس کی تیاری بھی کی۔بعد میں ایک فیلوشپ پر ہارورڈ یونیورسٹی گئے، جہاں انہوں نے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

ٹی این شیشن کے انتقال پر وزیراعظم نریندر مودی سمیت تمام دوسرے رہنماؤں نے اپنے رنج کا اظہار کیا ہے۔ پی ایم مودی نے اپنے ٹوئٹ میں گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ، ٹی این شیشن نے انتخابی اصلاحات میں جو اہم رول نبھایا اس نے ہماری جمہوریت کو اور مضبوط بنایا۔

پی ایم مودی نے اپنے اس ٹوئٹ میں مزید لکھا ہے کہ، ‘شری ٹی این سیشن ایک شاندار عوامی خدمتگار تھے۔انہوں نے پوری لگن اور ایمانداری کے ساتھ ہندوستان کی خدمت کی۔ انتخابی اصلاحات کے لیے کی گئی ان کی کوششوں نے ہماری جمہوریت کو اور مضبوط اور کثیرالجہت بنایا ہے۔ ان کے انتقال سے مجھے گہرا رنج پہنچا ہے۔’

دریں اثنا سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے ٹوئٹ کر کے کہا ہے کہ شیشن اپنے تمام جاں نشینوں کے لیے ایک سچےاورسرکردہ رہنما تھے۔میں ان کی آتما کی شانتی کے لیے پرارتھنا کرتا ہوں۔

(خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے ان پٹ کے ساتھ)