جبار بھائی کی تنظیم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے، جس میں ہندو و مسلم کاندھے سے کاندھا ملا کر کام کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب سے قیمتی انسانی جان تھی جس کو بچانے کے لیے وہ زندگی بھر کوشاں رہے، یہاں تک کی اپنے جان کی پروا نہیں کی۔ ان کی مقبولت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بھوپال میں مشہور تھا کہ جس گیس متاثر کا کوئی نہیں ہے اس کے جبار بھائی ہیں۔
بھوپال گیس ٹریجڈی کے متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے جدوجہد کرنے والے سماجی کارکن عبدالجبارکا جمعرات کو طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔ وہ بھوپال گیس متاثرین کے حق میں کام کرنے اور ان کو عزت کے ساتھ زندگی بسر کرنے لئے لڑنا سکھانے والی کی ایک تنظیم،بھوپال گیس پیڑت مہیلا ادھیوگ سنگٹھن کے روح رواں تھے۔ان کی زندگی کا موٹو /اصول تھا، ‘سنگھرش اور نرمان’یعنی،اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کے ساتھ ایسے کام بھی کرنا جس سے آپ خود مختار بن سکیں اور کسے کے سامنے آپ کو ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔
اسی مقصد سے انہوں نے’سوابھیمان کیندر’ کے نام سے ایک ٹرینگ سینٹر بھی قائم کیا تھا جہاں لوگوں کو معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھایا جاتا تھا۔ وہ حکومت سے معاوضہ کا مطالبہ کرتے وقت یہ واضح کردیتے تھے کہ معاوضہ متاثرین کا حق ہے نہ کی کوئی خیرات۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ریلیوں میں’خیرات نہیں ،روزگار چاہیے’ اور’ہم اپنا ادھیکار(حق) مانگتے ، نہیں کسی سے بھیک مانگتے’کے نعرے لگائے جاتے تھے۔
معمولی قد اور غیر معمولی ہمت اوربلندقوت ارادی والے عبدالجبار ہر خاص و عام میں جبار بھائی کے نام سے مقبول تھے۔وہ خود دسمبر 1984 میں ہونے والے گیس حادثے کے متاثرین میں سے تھے۔ اسی حادثے میں جبار بھائی نے اپنی والدہ، والد اور بھائی کو کھو دیاتھا۔خود ان کے آنکھوں کی60فیصد بینائی چلی گئی تھی ۔لیکن ان تمام چیزوں نےان کے عزائم کو کم نہیں ہونےدیا۔ وہ گزشتہ 35سالوں سے بنا تھکے، بنا ڈرے سرگرم تھے۔ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بھوپال میں مشہور تھا کہ جس گیس متاثر کا کوئی نہیں ہے اس کے جبار بھائی ہیں۔ انہوں شاید ہی کسی گیس متاثر کو مایوس کیا ہو۔
اس کے باوجود ان سے اور ان کے کام سے بہت کم لوگ ہی واقف تھے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے کام میں دلچسپی رکھتے تھے اور میڈیا سے ضرورت بھر رابطہ رکھتے تھے۔پیسہ اور شہرت کو وہ دور سے ہی سلام کرتے تھے۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2009میں جب بھوپال گیس ٹریجڈی کی25ویں برسی منائی جا رہی تھی اور جگہ جگہ اس کو لےکر پروگرامز منعقد کیا جا رہا تھا اور دہلی میں کسی حد تک میں بھی اس سلسلے میں سرگرم تھا تو جبار بھائی کا نام نہ کہ برابر ہی سنائی دیتا تھا۔حقیقت تو یہ ہے کہ زیادہ تر دہلی اور دوسرے بڑے شہروں والوں کی طرح میں بھی تب تک ان سے اور ان کے کام سے ناواقف تھا۔کوئی پانچ سال قبل میں ان کے کام سے واقف ہو پایا۔
لیکن جیسے جیسے ان کے بارے میں پتہ چلتا گیا ایسا محسوس ہونے لگا کہ جبار بھائی کی شخصیت اور عزم وحوصلے کے سامنے سب بونے ہیں۔ایسا لگنے لگا کہ جتنا جلدی ممکن ہو ان سے بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل کرنا چاہیے۔اپنے اسی خواہش کے پیش نظر میں نے دسمبر2017 میں بھوپال کا سفر کیا۔ ان سے ملاقات کروانے میں ہمارے دوست اور سینئر صحافی ، شمس الر حمٰن علوی نے مدد کی۔ جبار بھائی سے ملاقات سے قبل میری ان سے صرف ایک دو بار فیس بک پربالواسطہ طور پر بات چیت ہوئی تھی۔لیکن جب ان سے بالمشافہ ملاقات ہوئی تو وہ جس والہانہ انداز میں ملے ایسا لگا مانو اپنے کسی بہت پرانے دوست سے مل رہے ہوں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہی ان کا انداز ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ جو کوئی بھی ان سے ایک بار مل لیتا ان کا گرویدہ ہو جاتا۔
اپنے تین دن کے قیام کے دوران میں ان سے کوئی تین ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی ملاقات میں ان گیس متاثرین کے مسائل اور دوسرے مسائل پر تفصیل سے باتیں ہوئیں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم لوگ ایک وقت کھانا کھانے جائیں گے اور طے پایا کہ دوسرے دن دوپہر کا کھانا ساتھ کھائیں گے اور وہ اس دن مجھے اپنی اسکوٹی پر بٹھا کر اپنی پسندیدہ بریانی کی دکان پر لے گئے، ساتھ میں شمس بھائی تھے۔ اس بات چیت کے دوران پتہ چلا کہ ان کا آبائی وطن پنجاب تھا۔
وہ کئی دفعہ اپنے آبائی وطن جانے کا پلان بناتے لیکن جانا ممکن نہیں ہو پاتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ تو اس کے لئے ان کے پاس وقت تھا اور نہ ہی وسائل۔مگر خوداری کا عالم یہ تھا کہ وہ کسی سے کہہ نہیں سکتے تھے کہ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے مجھے پیسہ چاہیے۔گزشتہ چند سالوں میں ان کی صحت لگاتار بگڑتی رہی، کئی دفعہ ہاسپٹل میں بھرتی ہوئے اور مالی تنگی کے شکار رہے،لیکن کبھی کسی سے مطالبہ نہیں کیااور نہ زبان پر کوئی حرف شکایت کہ -لوگ ان کی مدد کیوں نہیں کرتے۔ وہ چاہتے تو آسانی سے اپنے لیے، اپنے گھر والوں کے لیےاور اپنےعلاج کے لئے پیسوں کا انتظام کرسکتےتھے۔لیکن ایسا کرناانہوں نے مناسب نہیں سمجھا کیوں کہ یہ ان کے اصول کے خلاف تھا۔
جبار بھائی صرف گیس متاثرین کے حقوق کے لئے کوشاں نہیں تھے۔ وہ ہر طرح کے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنے میں یقین کرتے تھے۔بھوپال میں شاید ہی کوئی عوامی تحریک ہوئی ہو جس میں وہ شریک نہیں ہوئے ہوں۔بابری مسجد کو مسمار کئے جانے کے بعد جب بھوپال میں فرقہ وارانہ فساد ہوا تو انہوں نے اس وقت گھر گھر جا کر امن و امان کی اپیل کی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے کام کیا۔اس وقت کی حکومت، جس کے خلاف وہ آئے دن مورچے نکالتے تھے، احتجاج کرتے تھے، ان کے ساتھ مل کر شہر کے حالات پر قابو پانے کی کوشش کی۔ وہ تاحیات فرقہ پرست طاقتوں سے لڑتے رہے۔ ان کی تنظیم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے، جس میں ہندو و مسلم کاندھے سے کاندھا ملا کر کام کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب سے قیمتی انسانی جان تھی۔جس کو بچانے کے لیےوہ زندگی بھر کوشاں رہے، یہاں تک کی اپنے جان کی پروا نہیں کی۔
ابھی ستمبر کی ہی بات ہے کہ انہوں نے اپنے فیس بک پر کسی کا مندرجہ بالا اسٹیٹس شئیر کیا تھا؛
جس طرح لوگ مردہ انسان کو کندھا دینا ثواب کا کام سمجھتے ہیں ،کاش اسی طرح زندہ انسان کو سہارا دینے کو بھی ہم ثواب سمجھنے لگے تو زندگی آسان ہو جائے گی۔
شاید، ہمارے لیے جبار بھائی کا یہی آخری پیغام تھا۔ امید ہے کہ ہم ان کے اس پیغام کو آگے بڑھائیں گے۔
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر