عجیب بات ہے کہ ملک کے وزیر اعظم لگاتار 5 ٹریلین ڈالر کی اکانومی بنانے کی بات کہہ رہے ہیں لیکن 5000ہزار بچوں کو پڑھانے کےلیے ملک کی حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے۔
جے این یو کی فیس بڑھاکر اور لون لےکر پڑھنے کا ماڈل سامنے رکھکر حکومت نے ایک بار پھر صاف کر دیا ہے کہ ترقی کی اس کی تعریف میں ہمارے گاؤں-قصبوں کے لوگ شامل ہی نہیں ہیں۔ جن کسان مزدوروں کے ٹیکس کے پیسے سےیونیورسٹی بنی، ان کے ہی بچوں کو باہر کا راستہ دکھایا جائےگا تو ملک کے نوجوان چپ بیٹھیںگے، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔
حکومت ابھی سب کچھ بیچ دینے کے موڈ میں ہے۔ ملک کے لوگوں کے ٹیکس کے پیسے سے بنے سرکاری ادارے کو مسلسل نجی سیکٹر کے حوالے کیا جارہا ہے۔ہرسال دل کھولکر امیروں کے کروڑوں اربوں روپے کے لون معاف کرنے والی یہ حکومت سرکاری تعلیمی اداروں کے بجٹ میں لگاتار کٹوتی کر رہی ہےاور تعلیم کو بازار کے حوالے کر رہی ہے۔
سرکاری اسکولوں کی حالت کسی سے چھپی نہیں ہے اور نجی اسکول ملک کی اکثریتی آبادی کے بجٹ سے باہر ہو چکے ہیں۔ دم توڑتے انہی سرکاری اسکولوں سے پڑھکر کل ہند داخلہ امتحان پاس کرکے جب غریبوں کے بچے ملک کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی میں پہنچ رہے ہیں تو یہ بات بھی ملک کے کروڈپتی رکن پارلیامان اور حکومت کے راگ-درباریاریوں کو اکھر رہی ہے ۔
جے این یو کے تعلیمی ماڈل پر لگاتارحملہ اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ جیو یونیورسٹی کے ماڈل کو ملک میں قائم کیا جاسکے، جہاں صرف امیروں کے بچےاعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔ فرانسیسی مفکر فوکو نے کہا ہے کہ’نالیج از پاور ۔’
ملک کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی وسائل پر قبضہ کرکے رکھنے والے لوگ غریبوں کو علم کی حصولیابی سے بھی دور کر دینا چاہتے ہیں اوراسی لئے ان کو جے این یو ماڈل سے اتنی نفرت ہے۔
عجیب بات ہے کہ ملک کے وزیر اعظم لگاتار 5 ٹریلین ڈالرکی اکانومی بنانے کی بات کہہ رہے ہیں لیکن 5000 بچوں کو پڑھانے کے لئے ملک کی حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے۔
حکومت ایک مورتی پر 3 ہزار کروڑ روپے خرچکر سکتی ہے،رہنماؤں کے لئے 200 کروڑ کے پرائیویٹ جیٹ خرید سکتی ہے، لیکن یونیورسٹیوں کے لئےاس کے پاس بجٹ نہیں ہے۔ یونیورسٹی کوئی مال نہیں ہے جہاں آپ 50فیصدڈسکاؤنٹ کا بورڈلٹکا دیں۔ ایک ترقی پسند سماج کو تعلیم کو سرمایہ کاری کے نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیےنہ کہ اخراجات کے۔
اصل میں معاملہ پیسے کا ہے ہی نہیں، بلکہ غریب کسان-مزدوروں کے بچوں اور لڑکیوں کو کیمپس سے دور رکھنے کی سازش کا ہے۔ حکومت نے ‘بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ ‘ کا نعرہ دیا اور کام کیا ‘ فیس بڑھاؤ، بیٹی ہٹاؤ’ کا۔
جس جے این یو میں لگاتار کئی سالوں سے لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ رہی ہے، وہاں فیس بڑھنے سے نہ جانے کتنی لڑکیوں کے بہتر کل کے خواب چکناچور ہو گئے ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں میں داخلہ امتحان کا ماڈل بدلکر محروم کمیونٹی کے بچوں کو جےاین یو سے دور رکھنے کی تمام سازشوں کے باوجود آج بھی جے این یو میں 40 فیصد طالب علم ان فیملیوں سے آتے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی 12000 روپے سے کم ہے۔ حکومت فیس بڑھاکران طبقوں سے آنے والے طالبعلموں کے حوصلوں اور امیدوں کو توڑ دینا چاہتی ہے۔
اقتدار میں قابض طاقتوں نے ہمیشہ سے محروم لوگوں کو علم سے دور رکھنے کے لئے تمام طرح کی سازشیں رچی ہیں۔ دروناچاریہ نے ایکلویہ کاانگوٹھا اس لئے کٹوا دیا تاکہ راجا کا بیٹا ارجن بہترین تیرانداز بنا رہے۔
آج بھی حکومت علم پر مٹھی بھر لوگوں کا قبضہ قائم رکھنا چاہتی ہے، کیونکہ علم میں وہ طاقت ہے جس کے بل بوتے غریب لوگوں کے بچے اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ فیس اتنی زیادہ ہو کہ غریب کا بچہ پی ایچ ڈی کرکے کسی یونیورسٹی میں پروفیسر نہ بنے۔ وہ یاتو دسویں پاس کرکے ڈھابہ پر کام کرے یا بی اے کرکے گھر-گھر جاکر سامان ڈیلیوری کرے۔امیر کے بچے بےفکر ہوکر پڑھیں اور غریب کے بچے پارٹ ٹائم جاب کرکے فیس چکائیں،یہ عدم مساوات بڑھانے والی بات ہے یا نہیں؟
حکومت چاہتی ہے کے کسانوں کو ان کی فصل پر سبسڈی نہ ملےلیکن اسی کسان کی فصل پر بنے کھانے پر پارلیامنٹ کی کینٹین میں ملک کو کروڈپتی رکن پارلیامان کو سبسڈی ملتی رہنی چاہیے۔ یونیورسٹی میں غریب بچوں کو رہنے کےلئے مفت ہاسٹل نہ ملے لیکن حکومت سے لاکھوں روپے تنخواہ پانے والے انہی کروڑپتی رکن پارلیامان کو لٹینس میں فری میں رہنے کے لئے بنگلہ ملتا رہنا چاہیے۔سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے والے ارب پتی صنعتکاروں کے بینک کا لون معاف ہو جاناچاہیے اور غریب بچوں کو لون کے جال میں پھنسنے پر مجبور کیا جانا چاہیے۔
حکومت نوجوانوں کی ایسی نسل بنانا چاہتی ہے جو لون لےکرپڑھائی کرے اور بعد میں قرض چکانے میں ہی اس کی حالت اتنی زیادہ خراب ہو جائے کہ اس کے پاس بنیادی سوال اٹھانے کا نہ ہی وقت ہو نہ ہی طاقت۔ سازش کرکے جے این یو کےبارے میں غلط باتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔
جیسے، یہ کہا جا رہا ہے کہ یہاں ہاسٹل فیس بس 10 روپے مہینہ ہے، جبکہ سچ تو یہ ہے کہ یہاں کے ہاسٹل میں طالب علم پہلے سے ہی تقریباً تین ہزار روپے مہینے میس بل دیتے آئے ہیں۔
یہی نہیں، جو لوگ جے این یومیں پانچ سال میں پی ایچ ڈی کرنے کی بات کہتے ہیں، ان کو اصل میں یہ پوچھنا چاہیےکہ یوپی-بہار کے سرکاری کالجوں میں آج بھی تین سال کا بی اے پانچ سال میں کیوں ہورہا ہے۔
لیکن ان کو دقت اس بات سے ہے کہ سبزی کا ٹھیلہ لگانے والے کا بچہ رشین یافرنچ پڑھکر ٹورازم کے علاقے میں اپنی کمپنی کیوں کھول رہا ہے، یا پھر افریقی یا لاطینی امریکن اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کرکے فارین پالیسی ایکسپرٹ کیسے بن رہا ہے۔
آج ان تمام لوگوں کو سامنے آکر جے این یو کی جدو جہد میں شامل ہونا چاہیے جو سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد حکومت کوانکم ٹیکس اور جی ایس ٹی دونوں دے رہے ہیں۔ اگر آج وہ خاموش رہے تو کل ان کے بچوں کو لون لےکر یا پارٹ ٹائم جاب کرکے تعلیم حاصل کرنی پڑےگی۔
پورے ملک میں سرکاری کالجوں کی فیس لگاتار بڑھائی جا رہی ہے اور جے این یو نے ہر بار اس کے خلاف آوازاٹھائی ہے۔ آج جے این یو کو بچانے کی جدو جہد کسی ایک یونیورسٹی کو بچانے کی جدوجہد نہیں ہے، بلکہ یہ مساوات اور انصاف کے ان اقدار کو بچانے کی جدو جہد ہے جن کی بنیاد پر ہماری جمہوریت کی تشکیل کی گئی ہے۔
یاد رکھیے، آج اگر خاموش رہے تو کل سناٹا چھاجائے گا۔
(مضمون نگار جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر ہیں ۔ یہ مضمون ان کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر