بی جے پی کے لوگ چاہے جو دکھاوا کریں، لیکن پرگیہ ٹھاکر ہندوستان کے لئےشرمندگی کا سبب ہیں۔ وہ پارلیامنٹ اور اس کے دفاعی امورکی کمیٹی کے لئے باعث شرمندگی ہیں۔ اور یقینی طور پر وہ اپنے سیاسی آقاؤں کے لئے بھی شرمندگی کا باعث ہیں۔لیکن شاید ان کو اس لفظ کا مطلب نہیں پتہ۔
سنگین دہشت گردانہ جرم کے لئے چارج شیٹ کا سامنا کر رہی بھوپال سے بی جےپی رکن پارلیامان پرگیہ ٹھاکر کو پارلیامنٹ کے دفاعی امور کی کمیٹی کا ممبر بنانے کا مودی حکومت کے فیصلے کی اپوزیشن پارٹیوں نے تنقید کی تھی ، جوصحیح بھی ہے۔ دہشت گردی کی ملزم کو وزارت دفاع کے امور کا تجزیہ کرنے والی اور سلامتی کونسل کے بڑے سوالوں کو دیکھنے والی ایک کمیٹی کا ممبر بنایا جانا اپنےآپ میں کسی ٹریجڈی سے کم نہیں تھا۔ لیکن بات اتنی ہی نہیں ہے۔
ٹھاکر ملک کے پہلے دہشت گرد ناتھو رام گوڈسے کو محب وطن کہہکر عزت بھی دے چکی ہیں۔ گوڈسے نے گاندھی کا قتل کیا تھا اور ٹھاکر اس قاتل کی مرید ہیں۔ ایساکوئی فرد اول توپارلیامنٹ میں اور بعد میں دفاعی امور کی پارلیامانی کمیٹی میں کیسے ہو سکتاتھا؟ اس کا جواب دو لفظوں میں ہے ؛نریندر مودی۔
ہمیں یہ پتہ ہے کہ لوک سبھا انتخاب میں ٹھاکر کو بی جے پی کا ٹکٹ نریندرمودی نے دیا تھا اور میں یہ شرط لگاکر کہہ سکتا ہوں کہ پارلیامنٹ کی معززکمیٹی میں ٹھاکر کی رکنیت وزیر اعظم کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی تھی۔ایسا میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ مئی میں انتخابی تشہیر کے دوران مودی نے گاندھی اور گوڈسے پر پرگیہ ٹھاکر کے بیان پر کہا تھا کہ ‘ وہ ٹھاکر کو کبھی دل سے معاف نہیں کریںگے۔ ‘انہوں نے بہت ہلکے انداز میں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
لیکن یہ دیکھتے ہوئے کہ مودی کا ٹریک ریکارڈ فرقہ وارانہ، خاتون مخالف،قوم پرستی اور سنک بھرے تبصروں کے لئے کبھی اپنی فیملی کے لوگوں کی تنقید کرنے کانہیں رہا ہے، یہ صاف تھا کہ وہ ٹھاکر کے کئے کو لےکر اپنی ناراضگی سب کو جتا دیناچاہتے تھے۔ بی جے پی اور مودی حکومت کے کام کاج کے طریقے کو دیکھتے ہوئے کیاپارلیامانی امور کی وزارت کے کسی چھوٹے-موٹے حکام میں مودی کی ناپسندیدہ شخصیت کو اس کمیٹی میں رکھنے کی جرأت ہو سکتی تھی؟
ایسی کوئی بھی تجویز پہلے ان کے پاس ان کے اتفاق کے لئے بھیجی گئی ہوگی۔یہ بھی ممکن ہے کہ مودی نے اپنے نئے اوتار میں جبکہ انتخابی تشہیر اور درست دکھنےکا دباؤ ختم ہو چکا ہے، خود فعال طریقے سے ٹھاکر کو یہ اعزازدئے جانے کی سفارش کی ہو۔ آخر حالیہ مہاراشٹر انتخاب کے دوران مودی نے ہی تو وی ڈی ساورکر کو بھارترتن دینے کی تجویز رکھی تھی۔ وہی ساورکر، جن پر مہاتما گاندھی کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں مقدمہ چلا تھا۔
ساورکر کو الزامات سے آزاد کر دیا گیا، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوں نےناتھو رام گوڈسے کو-جب وہ اپنے آخری مشن کے لئے ممبئی کے ساورکر سدن سے دہلی کےلئے چلا تھا-مراٹھی میں کہا تھا کہ کامیاب ہو اور لوٹکر آؤ۔مودی کے پسندیدہ سیاستداں سردار ولبھ بھائی پٹیل نے 27 فروری، 1948 کو نہرو کو لکھے خط میں اس سازش کے بارے میں لکھا تھا؛
باپو کے قتل کے معاملے کی تفتیش کی ہر دن کی پیش رفت پر میری نظر ہےساورکر کے تحت ہندو مہاسبھا کی ایک کٹرمذہبی شاخ نے یہ سازش [رچی] اور اس کو انجام تک پہنچایا۔
ساورکر، گوڈسے اور پرگیہ
سیاست کی تھوڑی-سی بھی سمجھ رکھنے والے کسی بھی شخص کو یہ معلوم ہے کہ ساورکر اور ان کی قوم کے مداح پر ناتھو رام گوڈسے کے ساتھ ان کے تعلقات کا داغ پڑنا طے ہے۔ یقینی طور پر یہ کسی بھی مشہور سیاستداں کے لئے ایک تکلیف دہ رشتہ ہے، اس لئے سنگھ پریوار میں برتری کی کسی بھی سطح کا شخص کبھی بھی گاندھی کے قاتل کے بارےمیں مثبت طریقے سے بات نہیں کرےگا۔
ٹھاکر کو ایسا لگتا کہ چونکہ بھگوا درجہ بندی میں وہ کافی نچلی سطح پرہیں، اس لئے اپنے دل کی بات کہہ سکتی ہیں۔ ان کا تبصرہ تھا،
‘ ناتھو رام گوڈسے دیش بھکت تھے،دیش بھکت ہیں اور دیش بھکت رہیںگے۔ ان کو دہشت گرد کہنے والے لوگ اپنے گریبان میں جھانککر دیکھیں، اب کے انتخاب میں ایسے لوگوں کو جواب دے دیا جائےگا۔ ‘
اس سے پہلے انہوں نے مہاراشٹر کے اے ٹی ایس کے چیف ہیمنت کرکرے کےقتل کرنے کے لئے 2008 میں ممبئی دہشت گردانہ حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی ایک طرح سے یہ کہتے ہوئے تعریف کی تھی کہ وہ بھگوان کی طرف سے ہیمنت کرکرے کو ان کے عمال کی سزا دینے کے لئے آئے تھے۔ غور طلب ہے کہ ہیمنت کرکرے کی جانچکی بنیاد پر ہی پرگیہ ٹھاکر کو گرفتار کیا گیا تھا۔
گوڈسے پر پرگیہ ٹھاکر کا تبصرہ بی جے پی کے لئے خراب وقت پر آیا تھاکیونکہ اس وقت انتخابی تشہیر پورے زور پر تھی، اس لئے پارٹی نے فوراً خود کو پرگیہ ٹھاکر کے بیان سے دور کر لیا۔ پارٹی صدر امت شاہ نے 10 دنوں میں ان کےخلاف انضباطی کارروائی کرنے کی بات کی۔ مودی نے بھی کہا کہ وہ ٹھاکر کو کبھی دل سےمعاف نہیں کریںگے۔ صاف طور پر یہ سب آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کیا گیا۔
سب سے پہلی بات، کسی نے بھی اس پر توجہ دینے کی زحمت نہیں اٹھائی کہ ٹھاکر نے اپنے تبصرہ کے لئے اصل میں کوئی معافی نہیں مانگی۔ انہوں نے کہا، ‘ میرے بیان کا مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں تھا۔ اگر اس سےکسی کے جذبہ کو ٹھیس پہنچی ہے، تو میں اس کے لئے معافی مانگتی ہوں۔ گاندھی جی نےملک کے لئے جو کیا ہے، اس کو بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔ میں ان کی بہت عزت کرتی ہوں۔ ‘
یعنی انہوں نے صرف ان سے ہی معافی مانگی جن کے جذبات کو ان کے بیان سے چوٹ پہنچی ہو۔ اس کے بعد انہوں نے ان منے ڈھنگ سے گاندھی جی کی تعریف میں کچھ لفظ کہے،لیکن انہوں نے گاندھی کے قاتل کو دیش بھکت قرار دینے والے اپنا تبصرہ واپس نہیں لیا۔ بلکہ انہوں نے میڈیا پر ان کی باتوں کو توڑ-مروڑکر پیش کرنے کا الزام لگایا۔
ٹھاکر نے تو معافی نہیں ہی مانگی، ان کے خلاف کارروائی کرنے کے امت شاہ کاوعدہ بھی ڈھکوسلہ ہی تھا۔
بی جے پی کی ڈسپلنری کمیٹی نے کیا کیا؟
چونکہ پارٹی نے آج تک یہ نہیں بتایا ہے کہ اس نے ٹھاکر کے خلاف کیاکارروائی کی، اس لئے اس کے بارے میں پتہ لگانے کے لئے میں نے 21 نومبر کو بی جے پی کی انضباطی کمیٹی کے صدر اویناش رائے کھنہ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی رپورٹ اور سفارشات پارٹی صدر کو سونپ دی تھی۔اس پر آگے کارروائی کرنا ان کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ ہمارا کام صرف رپورٹ دینا تھا۔ ‘ انہوں نے کافی وقت پہلےرپورٹ دے دینے کی تصدیق کی اور بتایا کہ اس کے بعد سے ان کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ غالباً انضباطی کارروائی کرنے کا ارادہ امت شاہ کانہیں تھا۔
اسی طرح سے پرگیہ ٹھاکر کو کبھی بھی معاف نہ کرنے کا مودی کے دعویٰ میں بھی کوئی ایمانداری نہیں تھی اور اس کا مقصد صرف فوری شرمندگی سے بچنا ہی تھا۔ اس سے پہلے اس حکومت نے پرگیہ کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کو ختم کرنےکی ہرممکن کوشش کی۔ این آئی اے نے مالیگاؤں دھماکے کی سماعت کر رہے کورٹ سے کہا کہ وہ ان کے خلاف معاملے کو آگے بڑھانے کے حق میں نہیں ہے۔لیکن استغاثہ کے معاملے سےاچھی طرح سے آشنا کورٹ ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوا۔
میری نظر میں بی جے پی کا اصلی گناہ پرگیہ ٹھاکر اور ان کے مددگاروں کی حمایت کرنا اور اس کے لئے یہ دلیل دینا تھا کہ دہشت گرد ہندو نہیں ہو سکتے ہیں۔ مودی کے تحت این آئی اے نے اجمیر شریف، سمجھوتہ ایکسپریس، حیدر آباد کی مکہ مسجددھماکے جیسے تمام معاملوں، جن میں ہندوتوا کے شدت پسندوں پر بم رکھنے کا الزام تھا، کوکمزور کرنے کا کام کیا ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخاب سے پہلے مودی اور شاہ اپنی حصولیابیوں کو لےکراتنے غیر یقینی حالت میں تھے کہ انہوں نے دہشت گردی کے ان ملزمین کے ارد-گرد انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کا کام کیا۔ پرگیہ ٹھاکر کو ٹکٹ دینا اس طرح سے ایک منطقی قدم تھا۔
مودی اور شاہ کو پختہ طورپر پتہ تھا کہ کہ وہ کس طرح کے زہر کو گلے لگا رہےہیں۔ اور اس طرح سے ہندوستان دنیا کا پہلا ملک بن گیا جو ایک طرف تو دہشت گردی کےخطرے کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، تو دوسری طرف دہشت گردانہ بم دھماکے کے ملزم کوپارلیامنٹ میں جگہ دیتا ہے۔ بی جے پی کے لوگ چاہے جو بھی دکھاوا کریں، لیکن پرگیہ ٹھاکر ہندوستان کےلئے شرمندگی کا سبب ہیں۔ وہ پارلیامنٹ اور اس کے دفاعی امور کی کمیٹی کے لئےشرمندگی کے باعث ہیں۔ اور یقینی طور پر وہ اپنے سیاسی آقاؤں کے لئے بھی شرمندگی کی باعث ہیں۔ لیکن شاید ان کو اس لفظ کا مطلب نہیں پتہ۔
Categories: فکر و نظر