جے این یو کوئی جزیرہ نہیں ہے، وہاں ہمارے ہی سماج سے لوگ پڑھنے جاتے ہیں۔جو بات اسے خاص بناتی ہے، وہ ہے اس کی جمہوری قدریں جن کی تعمیر کسی ایک شخص،پارٹی یا تنظیم نے نہیں، بلکہ الگ الگ فطرت اور نظریے کے لوگوں نے کی ہے۔ اگر ایسانہیں ہوتا، تب کسی بھی حکومت کے لئے اس کو ختم کرنا بہت آسان ہوتا۔
گزشتہ دنوں جواہرلال نہرو یونیورسٹی(جے این یو)کے طالبعلموں پر بہت ہی بزدلانہ اور وحشیانہ طریقے سے لاٹھی چارج کیا گیا۔پارلیامنٹ کی کارروائی کےپہلے دن وہ سنسد مارگ تک اپنی یہ بات پہنچانا چاہتے تھے کہ جے این یو کی فیس کی شرحوں میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ نیا ہاسٹل مینول ہٹایا جائے۔اس کے ساتھ ہی وہ پورے ملک میں تعلیم کی بازارکاری کے خلاف اپنی آواز بلندکر رہے تھے۔ بس یہی گناہ تھا ان کا۔ ان کے خلاف سی آر پی ایف کو اتار دیا گیا۔بیریکیڈ سے گھیر دیا گیا ان کو۔ گرفتار کرکے تھانوں میں رکھا گیا۔
میں نے وہاں 6 سالوں تک پڑھائی کی ہے ایم اے، ایم فل اور پھر پی ایچ ڈی۔ اسٹوڈنٹ پالیٹکس میں فعال کارکن رہا۔ جے این یو طلبہ یونین کا منتخب نائب صدررہا۔ آج کہنے کے لئے دل میں ہزاروں باتیں ہیں، جس میں سے کچھ شیئر کر رہا ہوں۔
جے این یو ایک اجتماعی حصولیابی ہے
سب سے پہلے تو یہ جان لیجیے کہ جے این یو کوئی آئی لینڈ یا جزیرہ نہیں ہے۔ہمارے ہی سماج سے لوگ وہاں پڑھنے جاتے ہیں۔ ایک غیر جانبدارانہ داخلہ امتحان ہوتاہے۔ یہ حکومت ہند اور یو جی سی کے اصولوں کے تحت ہی چلتا ہے اور جیسے اس ملک کی دیگر جگہیں ہیں، ویسے ہی جے این یو بھی ہے۔ جو بات اس کو مخصوص بناتی ہے، وہ ہیں اس کی جمہوری قدریں ۔ اور ان جمہوری قدروں کی تعمیر کسی ایک آدمی، پارٹی یا تنظیم نے نہیں کی ہے۔ اس جمہوری ماحول اور قدروں کی تعمیر لمبے وقت میں الگ الگ فطرت۔مزاج ،عادت اور نظریے کے لوگوں نے کی ہے۔
اگر اس کی تعمیر کسی ایک آدمی یا پارٹی نے کی ہوتی، تو اس کو ختم کرناکسی بھی حکومت کے لئے بہت آسان ہوتا۔ لیکن چونکہ یہ ایک اجتماعی حصولیابی ہے، اس لیے اس کو مٹانا ان تمام جمہوری قدروں کو مٹانا ہے جن کویہ یونیورسٹی صیقل کرتاہے۔
جھوٹی تشہیر
آج ایسا لگ رہا ہے جیسے ہندوستان اور جے این یو دو پڑوسی ملک ہو گئے ہوں۔میڈیا اورسنگھ-بی جے پی کے حامیوں نے جے این یو کے خلاف ایک اجتماعی مورچہ کھول دیا ہے۔ پورے ملک میں اس یونیورسٹی کے خلاف جھوٹی تشہیر زور شور سے کی جا رہی ہے۔اس پروپیگنڈے کی پہلی بات یہ ہے کہ؛
جے این یو میں لوگ بڑھاپے تک پڑھتے ہیں۔یہ ٹیکس پیئر کے پیسے کا غلط استعمال ہے۔
جواب :اس ملک میں ٹیکس صرف مڈل کلاس کے لوگ نہیں دیتے ہیں۔ ملک کا ہرآدمی ٹیکس پیئر ہے اور انہی ٹیکس دینے والے لوگوں کے ذہین بچے جے این یو میں پڑھ رہے ہیں۔ جے این یو ملک کی ان یونیورسٹیوں میں سے ہے، جہاں امتحانات وقت پر ہوتےہیں۔ سیمسٹر وقت سے چلتے ہیں۔ پی ایچ ڈی اور ایم فل کی تھیسس وقت پر جمع ہوتی ہے۔کوئی بھی طالب علم یو جی سی کے اصولوں کے باہر نہیں جا سکتا۔ سب سے زیادہ وقت پرریسرچ جے این یو میں ہی ہوتے ہیں۔
ایک بات اور، جے این یو میں کچھ طالب علم ایسے بھی آتے ہیں جنہوں نے پوری زندگی نوکری کی، ٹیکس دیا اور ریٹائر ہونے کے بعد پڑھنے آئے۔ ہندوستانی سماج میں کہا جاتا ہے کہ سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی لیکن ان دنوں جے این یو کے نام پرپورے ملک پر جیسے ایک پاگل پن چھایا ہوا ہے۔
جے این یو کی فیس کیوں نہیں بڑھنی چاہیے؟یہاں 1980 کا فیس اسٹرکچر چل رہا ہے۔
جواب : جے این یو یا کسی بھی ادارے کی فیس کیوں بڑھنی چاہیے؟ تعلیم اورصحت تو عوام کا بنیادی حق ہے۔ یہاں سوال یہ ہونا چاہیےکہ پرائیویٹ اداروں کی فیس اتنی زیادہ کیوں ہے؟ یا سرکاری اداروں کی فیس اتنی کیوں بڑھائی جا رہی ہے؟
10 روپے میں دہلی کے اتنے پاش علاقے میں رہنے کو کیوں ملے؟
جواب : یہ سدھیر چودھری جیسے صحافیوں کے ذریعے پیدا کیا گیا سوال ہے۔ جےاین یو میں کوئی رہنے نہیں آتا، ایک داخلہ امتحان پاس کرکےیو جی سی کے اصولوں کےتحت پڑھنے آتا ہے۔ یونیورسٹی کوئی رینٹ ہاؤس، دھرم شالہ یا ہوٹل نہیں ہیں جہاں ہرسال کرایے میں بدلاؤ منصفانہ ہو۔ یونیورسٹی کا مقصد کرایہ وصول کرنا نہیں ہے۔ یونیورسٹی ایک بڑے نظریے(وژن)کےساتھ کھولے جاتے ہیں، جن کا مقصد سماج کو تعلیم یافتہ کرنا اور سائنٹفک سوچ کی توسیع ہوتی ہے۔
حکومت یہ یونیورسٹی کھولتی ہے تاکہ وہ اپنے سماج کو صحیح سمت میں لے جاسکے۔ ایک بہتر اور جمہوری سماج بن سکے۔ اور جے این یو نے کبھی اس وژن کےخلاف کوئی کام نہیں کیا ہے۔
الگ الگ اقتصادی اور سماجی پس منظر پر ایک ہموار زمین-جے این یو
جے این یو صرف تعلیم نہیں جینے کے طور-طریقے کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ کچھ قدریں جو یہیں بنے رہ پاتے ہیں۔ ایک دوست کا قصہ سناتا ہوں۔ وہ بڑے خوددار آدمی تھے اور گھر کی اقتصادی حالت ٹھیک نہیں رہتی تھی۔جے این یو کے ذریعے دئے جانے والے میرٹ کم مینس اسکالرشپ (ایم سی ایم-ایک کم از کم فیلوشپ، جو ان طالب علموں کو ملتی تھی جن کے گارجین کی سالانہ آمدنی ڈھائی لاکھ یا اس سے کم ہو) سے ہی ان کا کام چلتا تھا۔
بہت نپے-تلے طریقے سے رہتے تھے۔ بہت کم وسائل تھے، لیکن انہوں نے کبھی اس کا رونا نہیں رویا۔ ہمیشہ ہنسکر ملتے تھے۔ ایک دن ملے تو غصے میں تھے، پوچھنے پربولے، ‘ 6 مہینہ ہو گیا، ابھی تک ایم سی ایم نہیں ملا۔’مجھے اس کی جانکاری تھی۔ کئی بار ایسا ہو جاتا تھا۔ کبھی فنڈ کی بات، توکبھی انتظامیہ کی بدمعاشی۔ وہ مجھے اپنے کمرے پر لے گئے اور بتایا کہ ان کا میس بل نہیں جمع ہے اور باقی روز مرہ کی ضروریات کے لئے بالکل پیسہ نہیں رہ گیا ہے۔ ایک چائے کی بھی مشکل ہو رہی ہے۔
وہ عموماً ایسا نہیں کہتے تھے۔ میں ایم سی ایم کی اہمیت سمجھتا تھا پر ایک طالب علم اس قدر اس ایم سی ایم پر منحصر ہے، یہ سوچکے میرا گلا بھر آیا۔ میں اپنےگاؤں جانے والا تھا، سو میں نے 500 روپے ان کو دےدیے۔ انہوں نے کہا کہ اس کو چکا دوںگا۔ میں نے کہا، ‘ کوئی بات نہیں، میں ایک بارجاکر انتظامیہ میں پتہ کرتا ہوں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور ہم کوشش کریںگے کہ ایم سی ایم کا پیسہ جلد ہی مل جائے۔ ‘
بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ دن بعد گھر سے لوٹا اور کسی کام سے ان کے ہاسٹل کے پاس کھڑا تھا۔ کہیں سے مجھے دیکھکر وہ آئے اور بولے ‘بھائی، تھوڑا، رکیے،میں ابھی آتا ہوں۔ ‘ لوٹکر آئے اور میری شرٹ کی جیب میں ایک تہہ کیا ہوا کاغذ رکھ دیا۔ ایک ہاتھ سے میری بائیک کا ہینڈل پکڑا اور دوسرے سے میرا ہاتھ دباتے ہوئےلرزتی آواز میں کچھ بولے اور چل دئے۔ میں نے بعد میں اس تہہ کئے ہوئے کاغذ کو کھولا تو اس میں 500 روپے کا ایک نوٹ تھا اور لکھا تھا ‘ شکریہ، میرےبھائی ‘۔
اس لکھاوٹ کا ایک ایک لفظ جیسے بار بار مجھ سے کچھ کہہ رہا تھا۔ میں بتانہیں سکتا اپنی حالت۔ آج یہ لکھتے ہوئے بھی گلا بھر آیا۔
اسی لئے یہاں بات صرف فیس یا پیسے کی ہی نہیں ہے، ایسے رشتے کی بھی ہے، جس نے دو الگ اقتصادی اور سماجی پس منظر کے لوگوں کو ایک سطح پر کھڑا کر دیا تھا۔ جے این یو کی کم فیس نے اس شخص کی خودداری کو بچائے رکھا۔ اگر فیس زیادہ ہوتی تو یا تو وہ پڑھ ہی نہ پاتا یا پھر چھوٹے-چھوٹے قرض اس کی خودداری کو آہستہ آہستہ مٹا دیتے۔
جے این یو مساوات سکھاتا ہے
آپ کو یاد ہوگا کہ جب ارجن سنگھ وزیر برائے ترقیِ انسانی وسائل تھے، تب وہ اعلیٰ تعلیم میں 27 فیصدی او بی سی ریزرویشن اور اس کے ساتھ 54 فیصد سیٹ اضافہ کی تجویز لائے تھے۔ تب راتوں رات ایک تنظیم بن گئی جس کا نام تھا ‘ یوتھ فار اکوالٹی ‘ جس نےجگہ جگہ اس کی مخالفت کرنا شروع کر دی۔ اس تنظیم کے ممبر اصل میں سماج سے عدم مساوات کو ختم نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔
تب جے این یو کے وائس چانسلر بی بی بھٹاچاریہ تھے، جو کانگریسی تھے۔انہوں نے وہ سارا پیسہ، جو ہاسٹل بنانے اور طالبعلموں کی سہولیات پر خرچ کرنے کےلئے آیا تھا، اس کو گملا لگوانے، باغبانی کروانے، ریفلیکٹر لگوانے اور بس اسٹاپ پریہ لکھوانے میں خرچکر دیا کہ ‘ یہ بس سٹاپ ہے۔ ‘
ان دنوں جے این یو طلبہ یونین نے ایک بڑی تحریک چلائی تھی۔ ہماری تحریک کایہ نعرہ خوب مقبول ہوا تھا کہ ‘ جب گملے لگواتا ہے، وی سی پیسہ کھاتا ہے۔ ‘ کورٹ-کچہری کے بعد جب یہ طے ہوا کہ یہ ریزرویشن اور سیٹ اضافہ ہر ادارے میں نافذ ہوگا، توبھٹاچاریہ جی نے اس کو نافذ کرنے کے عمل کی کارروائی کے لئے ایک ‘ تاریخی ریزرویشن مخالف’ کمیٹی بنائی۔ایک ایسی پالیسی بنائی گئی، جس سے زیادہ نمبر پانے والا او بی سی طالب علم جے این یو میں داخلہ نہیں پاتا، جبکہ اس سے کم نمبر پانے والے عام طبقے کے طالبعلم کو داخلہ مل جاتا تھا۔ ہم نے دھرنا کیا، احتجاجی مظاہرہ کئے، سیمینار اور پبلک میٹنگ کی۔ آر ٹی آئی کے تحت جے این یو انتظامیہ سے ہزاروں پیج نکالے اور ان کاتجزیہ کیا گیا۔
جب لگا کہ یہ وی سی اور انتظامیہ نہیں مانےگا تو مقدمہ کیا، لڑے اورجیتے۔ یہ ستمبر 2010 تھا۔ اس تحریک میں کئی اساتذہ نے ہماری خوب مدد کی۔ ان میں سے زیادہ تر محروم کمیونٹی سے آتے تھے،لیکن کچھ ایسے بھی تھے جو اشرافیہ تھے۔ تجزیے سے لےکر چندے تک، سب جگہ انہوں نے مدد کی۔ تو ایسا ہے جے این یو اور مساوات کا جذبہ۔ ‘
وسودھو کٹم بکم(زمین ہی خاندان ہے)کے وارث بھی اور ذات پرستی کے ‘ مربی ‘ بھی
ہندوستانی سماج کانام نہاد مین اسٹریم اپنی اصل ساخت میں احسان فراموش اوردوغلہ ہے۔ اب اس نے آہستہ آہستہ پورے سماج کو ہی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ ہم خودکو ‘ وسودھو کٹم بکم’ کا وارث بھی مانتے ہیں اور ذات پات پر’عمل’بھی پوری سختی سے کرتے ہیں۔ہم فیاض بھی بنتے ہیں اور اپنے فائدے کے لئے دوسرے کا گلا کاٹ دینے کوبھی بےچین رہتے ہیں۔ ایسے ہی ہم جے این یو کی مخالفت بھی کرتے ہیں، اس کو گالیاں بھی دیتے ہیں اور اپنے بچوں، پوتے-پوتیوں کا جے این یو میں ایڈمیشن ہو جانے پرسینہ چوڑا کرکے گانا بھی گاتے پھرتے ہیں۔
ہم بنیادی طور پر ایسے ہی ہیں اور نئے آئینی ہندوستان میں اس کو بدلنے کی لگاتار ضرورت ہے۔ ہمیں ‘ ایک پانی پر رہنا ‘ سیکھنا ہوگا۔
(مضمون نگار اروناچل پردیش کی راجیو گاندھی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسرہیں۔)
Categories: فکر و نظر