ہندی سے فارسی یاعربی کے الفاظ کو چھانٹکر باہر نکال دینا ناممکن ہے۔ایک ہندی داں روزانہ نادانستہ طورپر ہی کتنی فارسی، عربی یا ترکی کے لفظ بولتا ہے، جن کے بنا کسی جملےکی ساخت تک ناممکن ہے۔
روبرو،اشتہار، ظاہر ،راضی نامہ ،مجرم ، گفتگو،سنگین جرم اور تفتیش -یہ چند الفاظ ہیں، جن کو دلی ہائی کورٹ نے 383 الفاظ کی اس فہرست میں رکھا ہے جن کو اب عدالتی زبان اور ایف آئی آر سے باہر رکھا جاناہے۔ اگست 2019 میں ہائی کورٹ نے پولیس کمشنر سے پوچھا تھا کہ اب تک اردو اور فارسی کے الفاظ کا استعمال ایف آئی آر درج کرنے کی زبان میں کیوں ہوتا ہے، جبکہ شکایت گزار اس کا استعمال نہیں کرتے۔
کورٹ کا ماننا ہےکہ اردو کے یہ الفاظ صرف وہی آدمی سمجھ سکتے ہیں جن کے پاس اردو یا فارسی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہو۔ عدالت نے ہدایت دی ہے کہ پولیس ایسی معمولی زبان کا استعمال کرے جس کو ایک عام آدمی بھی پڑھکر سمجھ سکے۔ زبان کے کسی اسکالر کے لئے یہ سوال دلچسپ ہو سکتا ہے کہ ‘گفتگو ‘ اور ‘تفتیش ‘ کب ایسےبیگانے اور ناقابل فہم الفاظ ہو گئے، جن کو سمجھنے کے لئے ‘ ڈاکٹریٹ ‘ کی ڈگری کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔
دراصل، اگست میں ایک وکیل کے ذریعے دائر پی آئی ایل سے شروع ہوا یہ معاملہ جو ‘اردو-فارسی کےالفاظ ‘بنام ‘ آسان زبان کے الفاظ ‘کے طور پر عدالت کے سامنے آیا، اس میں زبان کے ماضی میں دلچسپی رکھنے والوں کو ایک تاریخی تکرار کی بو محسوس ہوگی۔ یہی تو وہ دلیل تھی جنہوں نے 19صدی کے ہندوستان میں’ہندوی’، ‘ بھاکھا’ یا ‘ ہندوستانی ‘کہلانے والی کھڑی بولی ہندی کے دو ٹکڑے کر دئے تھے۔
وہ بھی کچہری کاہی جھگڑا تھا جب فارسی زبان کو کچہری سے ہٹاتے ہوئے عام لوگوں کے درمیان بولی اورسمجھی جانے والی زبان کے طور پر اردو کو اپنایا گیا تھا۔ وہ اردو آج کی اردو نہیں تھی۔اودھ کےگاؤں-دیہات کے الفاظ اور دیسی پن کی رنگت لئے یہ وہ اردو تھی جس کو ہندی سے الگ ٹھہرانے کے لئے صرف رسم الخط کا امتیاز ہی ایک دلیل ہو سکتی تھی۔ وہ فارسی رسم الخط میں لکھی جانے والی ہندوی ہی تھی۔
اس کو بولنے اورلکھنے والے ہندو زیادہ تھے اور مسلمان کم۔ وہ مذہب کی زبان نہ تھی۔ مذہبی شناخت کی زبان تو بالکل بھی نہیں۔ کچہری کی زبان کے اس جھگڑے نے ہی ہندی اور اردو کو بھی بانٹ دیا اور آگے چلکر ہندوستان کو بھی۔ مؤرخ بتاتے ہیں کہ یہ منشی گیری جیسی سرکاری نوکریوں کا جھگڑا تھا۔ ہندوؤں میں فارسی قلم کے جانکار کچھ ایک ذاتیں ہی تھیں۔ فارسی رسم الخط کے جان کار مسلمان زیادہ تھے۔
اس طرح اگر عدالت کی رسم الخط فارسی بنی رہتی تو کھڑی بولی کے وہاں نافذ ہو جانے پر بھی یہ نوکریاں ہندوؤں کو نہیں مل پاتیں۔ اس لئے ہندو متوسط طبقہ نے ‘گئورکشا تحریک’کے ساتھ ‘دیوناگری تحریک’ کو جوڑتے ہوئے ایک لمبی تحریک چلائی۔ یہ تحریک کچہریوں میں دیوناگری رسم الخط میں لکھی جانے والی ہندی کو شامل کرنے کے لئے چلائی گئی تھی۔ ہندی اور اردو جو دراصل ایک ہی زبان کی دو شکل تھی جن کو دیوناگری اور فارسی دونوں ہی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا، اس وقت مذہبی گروپ بندی کی وجہ سے ان کو ایک دوسرے سے الگ ثابت کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔
جنہوں نے اس کواردو کہا انہوں نے احتیاطاً اس کو عربی-فارسی کی طرف موڑا اور اس میں بھاری بھرکم عربی فارسی کے لفظ شامل کئے جانے لگے اور خالص تہذیب والے اور دیسی الفاظ کو چھوڑاجانے لگا۔یہی کام ہندی تحریک نے کیا۔ ہندی جو پچھلے تقریباً ہزار سالوں سے فارسی اور عربی کے الفاظ سےگھلی-ملی تھی اور ان کے سہارے ہی اپنے جدید شکل کو پا سکی تھی، اس کو جبراً ان الفاظ سے دور کیا جانے لگا۔
ایسی فارسی لفظ،جو 19 صدی کی ہندی میں عام بول چال کے لفظ ہوا کرتے تھے، آج کے ہندی قاری کوانوکھے اور باہری لگ سکتے ہیں کیونکہ اس وقت ان کو اسی طرح باہر کا راستہ دکھایاگیا جیسےیہ مقدمہ دکھا رہا ہے۔ یہ سب ایک اچھی بھلی مالا مال زبان کے ہاتھ-پیرتوڑکر اس کو اپاہج کئے جانے جیسا تھا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک لمبے عرصے تک ہندی دانشوروں کے مباحثے کے لئے ایک نااہل زبان بنی رہی۔جس سے اس کو نکانے کے لئے حکومت ہند نے طرح-طرح کی فرہنگ کمیشن کی تشکیل کی۔
عدالت کا موجودہ حکم جس ہندی سے اردو یا فارسی کے الفاظ کو معزول کرنا چاہ رہا ہے، دراصل، وہ عام بول چال کی ہندی نہیں بلکہ انتظامی امور میں مستعمل ہونے والی ٹکسالی ہندی ہوگی۔ہندی ادب کی تاریخ دکھلاتی ہے کہ سیکڑوں سالوں سے آسان مروجہ عربی-فارسی وغیرہ کے الفاظ کو جب ہندی سے باہر کیا گیا اس وقت ہندی کے حامیوں کو کیسی مشکلات کا سامنا کرناپڑا۔
جس ہندی کو توڑمروڑ کرکے ہندی تحریک نے کمزور بنا دیا تھا اس کی ترقی کے نام پر کبھی انگریزی سےترجمہ کرکے تو کبھی سنسکرت کے الفاظ کو غیر فطری طور پر کھینچ-تانکر نئے لفظ گڑھےگئے، جس سے ہندی کسی طرح انتظامی یا اکادمک موضوعات کے اظہار کا ایک دوئم درجے کاذریعہ بنی رہ سکی۔یہ ضرورت ہندی یااردو کو ہی کیوں پڑی-اس کا جواب ‘چھنٹنی’کی اس تاریخ میں ہے جس میں سنسکرت کےبھاری بھرکم الفاظ کو تو ہندی زبان کا فطری فرہنگ مان لیا گیا لیکن’ ظاہر ‘ یا ‘حاصل ‘ یا ‘ روبرو ‘ جیسے الفاظ کو باہری اور مشکل ٹھہرایا گیا۔
ہندی سے فارسی یاعربی کے الفاظ کو چھانٹکر باہر نکال دینا ناممکن ہے۔ اپنے ہر جملے میں ایک ہندی بولنے والے روزانہ نادانستہ طورپر ہی کتنے فارسی، عربی یا ترکی کے الفاظ بولا کرتاہے جن کے بنا کسی جملے کی ساخت تک ناممکن ہے۔ فہرست بہت لمبی ہے لیکن اکا-دکا مثالوں سے اس کو سمجھا سکتا ہے۔
آدمی، عورت، عمر، قسمت، قیمت،کتاب، دکان-جیسے کتنے ہی الفاظ اپنی اصلیت میں عربی زبان کے ہیں۔ایسے ہی چشمہ،چہرہ، جلیبی، زہر، مکان، شادی، حکومت، لیکن، لال، واپس-فارسی کے الفاظ ہیں۔
اسی طرح بہادر،کرتا، قینچی، چاقو، چمچ، بی بی، بارود، لاش جیسے روزمرہ کے استعمال ہونے والےالفاظ ترکی زبان کے ہیں۔ یہ تمام الفاظ ہندی کا غیرمنقسم حصہ ہیں۔ کیا ان کے بنابول چال کی ہندی بھی ممکن ہو سکےگی؟ پہلے ہی ایک مصنوعی لیکن کامیاب نظریہ سماج میں بٹھایا جا چکا ہے جس کے مطابق ہندی ہندوؤں کی زبان ہے اور اردو مسلمانوں کی۔ تمل، مراٹھی، بانگلا، پنجابی وغیرہ مختلف زبان بولنے والی ریاستوں میں سے کہیں بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کی دو الگ زبانیں نہیں بتائی جاتیں۔
شمال مغربی ریاست(آج کا اتر پردیش)میں اگر نوکریوں کا جھگڑا، مذہب اور زبان کا جھگڑا نہ بنا دیاگیا ہوتا تو آج ہندی اور اردو بھی تمل یا بانگلا کی طرح ایک مکمل زبان ہوتی۔اب دوبارہ، بچےہوئے فارسی اور اردو کے الفاظ کو چھانٹکر سرکاری کام کاج سے باہر کرنے کی شروعات مشترکہ تاریخ کی اس یادگار کو مٹانے کا کام کرےگی جو ہندی میں اب تک بچ رہے فارسی الفاظ کی موجودگی سے بنی ہوئی ہے۔
ہندی سینما کےتمام نغمات کو اردو یا فارسی کے ڈاکٹریٹ ہی نہیں گنگناتے۔ تمام عربی، فارسی الفاظ کو خود میں مدغم کئے ہوئے یہ نغمہ عام لوگوں کے لئے ہندی کے نغمہ ہیں۔ غیر ہندی بولی ریاستوں کے سامعین انھیں ہندی گانا کے طور پر جانتے ہیں۔ ان میں شامل عربی، فارسی کے الفاظ سے کسی کو شکایت نہیں دکھتی۔
فارسی کے الفاظ عدالت کو بھلے ہی’لچھے دار ‘، ‘غیرضروری’ اور مشکل لگتے ہوں، ان کی مشکلوں کی دلیل عام لوگوں کو ایسے نغمہ گنگنانے سے نہیں روک پاتا بلکہ یہ نغمہ اور ہندی سینما-ہندی سے باخبر طریقے سے باہر کئے جا رہے عربی-فارسی کے ان الفاظ کو واپس عام لوگوں کے درمیان پہنچاتے رہے ہیں۔ ‘ شکراً الحمدللہ ‘ یا ‘ گل پوش کبھی اترائے کہیں/ مہکے تو نظر آ جائے کہیں/ تعویذ بناکر پہنوں اسے / آیت کی طرح مل جائے کہیں-ان کو گنگناتے وقت کسی ہندونوجوان کو مذہب کا خیال نہیں ستاتا۔
الفاظ کی پیدائش عربی ہے یا فارسی، اس پر تو وہ کبھی نہیں جاتا۔اس کے لئے یہ اس کی اپنی زبان ہے۔وہ زبان جس میں وہ سوچتا ہے، گنگناتا ہے اور محبت کرتا ہے۔ 383 الفاظ کی اس فہرست میں ایسے الفاظ کو بھی رکھا گیا ہے جن سے عام ہندی بولنےوالے اچھے سے آشنا ہیں۔ ‘روبرو ‘ اور ‘ اشتہار ‘-کیا ایسے الفاظ ہیں جن کوباضابطہ مقدمہ چلاکر سرکاری کام کاج سے باہر کئے جانے کی ضرورت ہے؟
پھر، سوال یہ بھی ہے کہ ایف آئی آر درج کرنے کے لئے اگر ان الفاظ کو ہٹاکر دوسرے الفاظ لائے جائیںگےتو کیا وہ ملکی بولیوں کے ہوںگے؟ ہوںگے تو وہ بھی انتظامیہ کے لفظ ہی، جن کوانتظامی فرہنگ کمیشن کے ذریعے تیار کیا گیا ہوگا۔ ایسے میں ‘ ظاہر’ کی جگہ ‘پرکٹ ‘ لکھا جائےگا اور ‘ مجرم ‘ کی جگہ ‘اپرادھی۔ ‘ اس سے قانونی کارروائی کیا سچ میں عام لوگوں کے لئے آسان ہو جائےگی، یا پھر یہ ہندی کی صفائی کی ہی ایک اور کوشش بنکر رہ جائےگی؟
(چارو دہلی یونیورسٹی میں ہندی کے ریسرچ اسکالر ہیں ۔)