پولیس کے رویے کولےکر خوب سوال اٹھتے رہے ہیں۔ آخر پولیس کے لوگ ہمارے اسی خاتون-مخالف سماج کی پیدائش ہیں اور چونکہ سیاسی نظام بھی اسی پدری سوچ سے چلتا ہے اسی لئے پولیس فطری طورپر جنسی تشدد کے معاملے میں خاتون کو ہی قصوروار ٹھہراتی ہے۔
اگر ہم گوپال کانڈا اور کلدیپ سنگھ سینگر کو اپنا عوامی-نمائندہ چنتے ہیں، آشارام کے آشرموں میں جاتے ہیں اور ویریندر دکشت کے اسکولوں میں اپنی بچیوں کو پڑھنے کے لئے بھیجتےہیں تو حید ر آبا دمیں خاتون ڈاکٹر کے ساتھ جو ہوا، اس کے مجرم صرف وہ چار نہیں ہم سب ہیں۔
عورتوں کے خلاف ہونے والے جنسی جرائم کے متعلق ہم اس قدر موافق سماج یا ملک ہیں کہ حیدر آباد میں ڈاکٹر کے ساتھ ہوئے واقعہ کے چوبیس گھنٹے کے اندر ہی پورے ملک سےایسے ہی واقعات کی خبریں آنے لگیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے ہمارا ملک اور ہمارا سماج قتل اورریپ کا جشن منا رہا ہو۔
عموماً لوگ کہتےہیں کہ ہم جنسی تشدد کے حمایتی ملک بنتے جا رہے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے انسانی سماج کی ترقی میں ہی کچھ عیب ہے۔ ہم نے جس تہذیب اور ثقافت کی تعمیر کی ہے، اس کی بنیاد میں ہی خواتین مخالف رویہ پنہاں ہے۔ تاریخ کی گلیاں خواتین پرہونے والے مظالم سے بھری پڑی ہیں۔ تمام عظیم رزمیہ اور نام نہاد عظیم کتابوں کواٹھاکر دیکھیے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہماری یہ خاتون-مخالف ذہنیت ہزاروں سالوں میں بنی ہے۔
ہمارے سماج میں کسی بھی قسم کےلڑائی جھگڑے (چاہے وہ مہابھارت ٹائپ کا ‘ اشرافیہ کا جھگڑا ‘ ہی کیوں نہ ہو) یا جدو جہد میں خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کو بہت آسان اور فطری سمجھاجاتا ہے۔ اسی لئے بات-بات میں ماں بہن کی گالیاں نکل آتی ہیں۔ کسی بھی آدمی کےسماجی دبدبے کا ثبوت یہی مانا جاتا ہے کہ وہ کتنا ‘مرد’ہے۔
ہندوستانی سماج میں جنسی تشدد ایک ادارہ جاتی جرم کے طور پر موجود رہا ہے۔ یہ بےوجہ نہیں ہے کہ جنسی تشدد یاریپ کرنے والا آدمی زیادہ تر معاملوں میں قریبی رشتہ دار، پڑوسی یا جاننے والا ہوتا ہے۔ حکومت ہند کے اعداد و شمار نے بار بار اس کی تصدیق کی ہے۔
ذات پات کے نظام کےغیر منصفانہ پہلوؤں سے ہم آگاہ ہیں لیکن کتنے لوگ یہ جانتے یا مانتے ہیں کہ یہی نظام ،خواتین کے متعلق ہونے والے جنسی تشدد کی سب سے خوفناک ادارہ جاتی شکل ہے۔ 2006 میں خیرلانجی میں ہوئی درندگی اس کا ثبوت ہے۔ بہار میں جب رنویر سینا اور کمیونسٹ تنظیموں کی جدو جہد چل رہی تھی تو رنویر سینا کے لوگ دلتوں اور محروموں کے جس بھی گاؤں پر حملہ کرتے وہاں قتل اور ریپ کا ننگا ناچ کرتے تھے۔ شمالی ہندوستانی گاؤں میں کہی جانے والی یہ کہاوت کہ ‘غریب کی جورو، گاؤں بھر کی بھوجائی’ہماری سماجی-ثقافتی اور ذہنی ساخت کو ہی دکھاتی ہے۔
گجرات، کندھ مال یا بھاگل پور… کوئی بھی جگہ ہو، کسی بھی وجہ سے فساد ہوا ہو، ریپ اور جنسی تشدد اس کا بنیادی کردار ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم ایک ایسا سماج ہیں جو ہر چیزکا حل عورتوں کے ساتھ تشدد کرکے ہی کرتا ہے۔
پولیس کے رویے کولےکر خوب سوال اٹھتے رہے ہیں۔ آخر پولیس کے لوگ ہمارے اسی خاتون-مخالف سماج کی پیدائش ہیں اور چونکہ سیاسی نظام بھی اسی پدری سوچ سے چلتا ہے اسی لئے پولیس فطری طورپر جنسی تشدد کے معاملے میں خاتون کو ہی قصوروار ٹھہراتی ہے۔ منموہن پاٹھک بہت مشہور ناول نگار ہیں جنہوں نے جھارکھنڈ کے آدیواسیوں کی زندگی کو مرکز میں رکھکرایک ناول لکھا ہے، جس کا نام ہے ‘ گگن گھٹا گھہرانی ‘۔ ناول میں جب ایک قبائلی لڑکی کا ریپ ہوتا ہے اور اس کا باپ پولیس سے اس کی شکایت کرنے جاتا ہے توپولیس انسپکٹرجواب دیتا ہے ؛
کیا ہو گیا ایسا؟ تیری بیٹی کی ٹنیا (شرمگاہ) کھیا (گھس ) تھوڑی نہ جائےگی۔ اتنا سہنا تو سیکھنا چاہیے اس کوکام آئےگا ‘۔
یہ پولیس انسپکٹر ہمارے سماج کی ذہنیت کو پوری عریانیت سے دکھا دیتا ہے۔ہم خواتین کے متعلق اسی ذہنیت کے پروردہ ہیں۔
ہندوستانی تہذیب اور روایت کے ‘خودساختہ ‘ محافظ آر ایس ایس صدر موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ریپ’انڈیا ‘ میں ہوتے ہیں،’بھارت’ میں نہیں۔ ان کی دلیل کے مطابق ہندوستانی سماج میں ریپ کے واقعات مغربیت کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ یہ یوروپ سےآیا ہے اور روایتی ہندوستانی سماج اس سے اچھوتا رہا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ یہ ایک غضب کاتضاد ہے کہ جس شخص کی تنظیم کا نظریہ اور تنظیمی ساخت تک یورپ سے سے لیا گیا ہے، وہ آدمی اس بات کو کہہ رہا ہے۔
دوسری اور ضروری بات یہ کہ پرانوں کی کہانیوں کو اگر پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی روایت میں کیسے ریپ کا ایک ادارہ جاتی نظام رہا ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ اگر آنےوالا برہمن مہمان، میزبان سے یہ مانگ کرے کہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ ‘رمن ‘ کرناچاہتا ہے تو میزبان کو بخوشی تیار رہنا چاہیے۔ یہ’نیکی’ کا کام ہے۔ آپ اس اور زیادہ مثال ہری موہن جھا کی مشہور کتاب ‘ کھٹر کاکا ‘ میں پڑھ سکتے ہیں۔ امیدہے کہ موہن بھاگوت جی پرانوں کو ‘ بھارت’ کا ہی مانتے ہوںگے،’انڈیا ‘ کانہیں۔
وویکانند نرتام دہلی یونیورسٹی کے شیام لال کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ جے این یو میں بھی پڑھےہیں۔ ڈاکٹر کے ریپ اور قتل معاملے پر انہوں نے فیس بک پر لکھاکہ ایک ہندو لڑکی کا مسلمانوں نے گینگ ریپ کیا ہے اور اس کو مار ڈالا ہے۔ وہ بی جےپی کے حمایتی ہیں اور ٹی وی ڈبیٹ میں بی جے پی کا حزب رکھتے ہیں۔ یہ پورا معاملہ عوامی ہے۔ جب کچھ لوگ ان کی مذمت کرنے لگے تو انہوں نے دلیل دی کہ جموں میں ہوئے واقعہ میں’ سیکولر ‘لوگوں نے ہندوؤں کو بدنام کیا تھا۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ اس واقعہ میں کسی حزب مخالف کے رہنما یا کسی کارکن نے ملزمین کی ہندو پہچان کو مرکز میں نہیں رکھا تھا۔
بلکہ یہ بی جے پی تھی جس نے ملزمین کی ہندو پہچان کو مرکز میں رکھکر پورے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔ ان کے رہنما ایک ایسی ریلی میں بھی شامل ہوئے جو ملزمین کےدفاع کے لئے منعقد کی گئی تھی۔ بی جے پی کے رہنماؤں اور حامیوں نے باقاعدہ متاثرہ کی حمایت میں کھڑے لوگوں کو ہندو-مخالف اور ملک کاغدار تک قرار دیا۔ یہی کام وہ اس واقعہ میں بھی کر رہے ہیں۔
جب راجیو گاندھی نے یہ کہا تھاکہ بڑا پیڑ گرنے پر زمین ہلتی ہی ہے یا نریندر مودی نے گجرات میں یہ کہا کہ یہ عمل کا رد عمل ہے یا جب اس معاملے کو ہندو-مسلمان کا رنگ دیا جا رہاتھا، ایسے ہی حالات سے مجرموں کے حوصلے میں اضافہ ہوتا ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ خودہمارا سماج اور ہمارے رہنما ہی ان مجرمانہ رجحانوں کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
ہمارے رہنما یاروحانی صوفی سنت ریپ کے واقعات پر انتہائی غیرحساس بیان دیتے ہیں اور کئی تو اس میں شامل ہوتے ہیں، اس کے باوجود ہندوستانی سماج میں ان کا قد گھٹتا نہیں ہے۔ اس کی سب سے تازہ مثال ہریانہ کی سرسا سیٹ سے ایم ایل اے چنے گئے گوپال کانڈا کی ہے۔وہ ریپ اور قتل کے ملزم ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ وہ مجرم ہے، اس کے باوجود ہم اس کو اپنا نمائندہ چنتے ہیں۔ کلدیپ سنگھ سینگر کا معاملہ تو اس بات کی عوامی تصدیق ہے کہ ہم ایک ایسا سماج ہیں جہاں ریپ کوئی جرم ہی نہیں ہے۔
2012 کے دسمبر میں دہلی میں ہوئے ریپ اور قتل کے بعدبڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں کے دوران بھی چھیڑچھاڑ کے واقعات ہوئے لیکن اس کو بہت آواز نہیں ملی۔ یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ خواتین کے خلاف ہونےوالے جرائم کے خلاف ہوئی مخالفت میں شامل کچھ لوگ ‘ موقع ‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئےلڑکیوں کے ساتھ جسمانی چھیڑچھاڑ کرتے ہیں۔ میلوں میں یا بھیڑ بھری جگہوں پر لڑکیوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات عام طور پر ہوتے ہیں۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ جو واقعات درج ہوتے ہیں، ان سے بہت زیادہ بڑی تعداد ان واقعات کی ہے جو ہوتے تو ہیں لیکن کسی تھانے میں نہیں بلکہ ایک لڑکی کے دل میں ڈر کے طور پر درج ہوتے ہیں۔ اسی لئے اس کاحل صرف قانونی نہیں ہے۔
قانون کی سطح پرجسٹس ورما کمیٹی کی سفارشیں بہت کام کی تھیں لیکن ایک سماج کی سطح پر ہم نے اس کومسترد دیا ہے۔ ہندوستان کا آئین اور قانون بہت بار ہمیں انسان بننے کا موقع دیتاہے لیکن ایک سماج کے طور پر ہم اس کی تردیدکرتے رہتے ہیں اور اس طرح ہم آئین اورقانون کی بھی ان کہے طریقے سے توہین کرتے ہیں۔جموں متاثرہ کے معاملے میں تو وکیلوں نے ہی ملزمین کے بچاؤ میں ریلی کی، مارپیٹ کی۔
ایسے گھناؤنےجرائم کے معاملے میں یقیناًسزائے موت ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنےسماج کی اصل ساخت کو بھی بدلنا ہوگا۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ لڑکیوں کو خود اپنی حفاظت کا دھیان رکھنا چاہیے اور دیر رات نہیں نکلناچاہیے یا انجان جگہوں پر نہیں جانا چاہیے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی دلت یا محروم کمیونٹی کے انسان سے کہا جائے کہ اگر وہ جنسی استحصال سے بچنا چاہتا ہے تو نام نہاداشرافیہ کے گاؤں سے نہ گزرے۔ یا ان سے نپٹنے کے لئے مارشل آرٹ سیکھ لے۔ ہمیں یہ تبدیلی ایک سماج کے طور پر کرنی ہوگی۔ ذات پات کی مخالفت اگر دلت اور محروم کمیونٹی کرتی ہیں تو یہ بالکل فطری ہے کیونکہ وہ اس کے شکار ہیں۔ اسی طرح اگر لڑکیاں ریپ اور جنسی تشدد کی مخالفت کرتی ہیں تو یہ فطری ہے کیونکہ وہ اس کی شکارہیں۔ لیکن دونوں ہی حالات میں دوسرے فریق کو ہی بہتر کرنا ہوگا۔ اس کو ایک سماجی-ثقافتی علاج کی ضرورت ہے کیونکہ یہ سوچنا کہ ہم دوسروں سے اعلیٰ ہیں یا ہم ریپ کر سکتے ہیں، ایک سنگین سماجی بیماری ہے۔ ہم بیمار ہیں اور ہمیں ہی علاج کرنا ہے اور اگر ہم ناکام ہوگئے تو ہمیں جانور کہلانے کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔
(مضمون نگار اروناچل پردیش کی راجیو گاندھی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسرہیں۔)
Categories: فکر و نظر