سال 1997 میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے دوران بروکمیونٹی کے تقریباً37 ہزار لوگ میزورم چھوڑکر تریپورہ کے مامت، کولاسب اورلنگلیئی ضلعوں میں بس گئے تھے۔ ان کو واپس بھیجنے کے سلسلے میں گزشتہ سال مرکز نےتریپورہ کے برو پناہ گزین کیمپ میں دیے جانے والے مفت راشن کے سسٹم کو روک دیاتھا، جس کے بعد کافی احتجاج ہوا تھا۔
نئی دہلی : میزورم سے نقل مکانے کرنے والے30 ہزار سے زیادہ بروآدیواسی تریپورہ میں مستقل طور پر آباد ہوں گے۔ اس کو لے کر جمعرات کو ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط ہوا۔یہ مہاجر برو آدیواسی 1997 سے تریپورہ کے الگ الگ حصوں میں پناہ گزینوں کے طور پر رہ رہے تھے۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اس کارروائی کے لئے حکومت نے 600 کروڑ روپے کے پیکج کا بھی اعلان کیا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی موجودگی میں گزشتہ16 جنوری کو نئی دہلی واقع نارتھ بلاک میں برو کمیونٹی، مرکزی حکومت اور میزورم حکومت کےنمائندوں نے معاہدہ پر دستخط کئے۔ ان میں تریپورہ کے وزیراعلیٰ بپلب کماردیب،میزورم کے وزیراعلیٰ پی جورام تھانگا اور میزورم برو ڈس پلیسڈ پیپلز فورم کے رہنماشامل رہے۔شاہ نے کہا کہ معاہدہ کے تحت 30 ہزار سے زیادہ بروآدیواسی مستقل طور طورپر تریپورہ میں رہیںگے۔
برو اور میزو کمیونٹی کے درمیان کمیونٹی کو لے کرکشمکش کے بعد 1997میں میزورم سے بھاگے برو آدیواسی تریپورہ میں مختلف راحت کیمپ میں رہ رہے ہیں۔آدیواسی کمیونٹی کے ان لوگوں کو میزورم واپس بھیجنے کےلئے جولائی 2018 میں ایک معاہدہ پر دستخط ہوئے تھے، لیکن یہ نافذ نہیں ہو سکاکیونکہ زیادہ تر لوگوں نے میزورم واپس جانے سے انکار کر دیا تھا۔
1997 میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے دوران برو کمیونٹی کےتقریباً 37 ہزار لوگ میزورم چھوڑکرتریپورہ کے مامت، کولاسب اور لنگلیئی ضلعوں میں بھاگ آئے تھے۔ وہ پچھلے 22 سالوں سے شمالی تریپورہ کےضلع کنچن پور اور پانی ساگر سب ڈویژنوں کے چھ کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔برو اور اکثریتی میزو کمیونٹی کے لوگوں کے درمیان ہوا تشدد ان کی ہجرت کی وجہ بنا تھا۔ اس تشدد کی بنیاد 1995 میں تب پڑی جب طاقتورینگ میزو تنظیم اور میزو اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے ریاست کی انتخابی شراکت داری میں برو کمیونٹی کے لوگوں کی موجودگی کی مخالفت کی۔ ان تنظیموں کا کہنا تھا کہ بروکمیونٹی کے لوگ ریاست کے نہیں ہیں۔
اس تشدد نے برو نیشنل لبریشن فرنٹ (بی این ایل ایف)اورسیاسی تنظیم برو نیشنل یونین(بی این یو)کو جنم دیا، جس نے ریاست کے چکمہ کمیونٹی کی طرح ایک خود مختار ضلعکی مانگ کی۔اس کے بعد 21 اکتوبر 1996 کو بی این ایل ایف نے ایک میزوافسر کا قتل کر دیا، جس کے بعد سے دونوں کمیونٹی کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد بھڑکاٹھا۔تشدد کے دوران برو کمیونٹی کے لوگوں کو پڑوسی شمالی تریپورہ کی طرف دھکیلتے ہوئے ان کے بہت سارے گاؤں کو جلا دیا گیا تھا۔ اس کے بعدسے ہی اس کمیونٹی کے لوگ تریپورہ کے کنچن پور اور پانی ساگر سب ڈویژنوں میں بنےراحت کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
1997 میں میزورم سے تریپورہ آنے کے چھ مہینے بعد مرکزی حکومت نے ان پناہ گزینوں کے لئے راحت پیکج کا اعلان کیا تھا۔ اس کے تحت ہر بالغ برو کو 600 گرام اور نابالغ کو 300گرام چاول روزانہ مختص کیا جاتا تھا۔پیکج کے تحت ہر بالغ برو کو پانچ روپے اور نابالغ کو2.5 روپے روزانہ کا اہتمام تھا۔ اس کے علاوہ ان کو سال میں ایک بار صابن اور ایک جوڑی چپل اور ہر تین سال پر ایک مچھردانی دی جاتی تھی۔
واضح ہو کہ گزشتہ سال ایک اکتوبر کو وزارت داخلہ نےتریپورہ کے شمالی ضلعوں میں واقع چھ برو راحت کیمپوں میں مفت راشن اور نقدی مدد روک دی تھی، کیونکہ برو کمیونٹی کے لوگوں نے جان و مال کا خطرہ بتاتے ہوئے میزورم لوٹنے سے انکار کر دیا تھا۔ پچھلی دو دہائیوں سے یہاں رہنے والے پناہ گزینوں کےمیزورم واپسی کا نوواں مرحلہ شروع ہوا تھا۔
تب مفت راشن دینے کے نظم کوبحال کرنے کی مانگ کو لےکربرو پناہ گزینوں نے کئی دنوں تک احتجاج کیا تھا۔
اسی دوران میزورم برو ڈس پلیسڈ پیپلز فورم (ایم بی ڈی پی ایف)نے دعویٰ کیا تھا کہ مرکز کے ذریعے اکتوبر کے لئے 35000 سے زیادہ پناہ گزینوں کو راشن اور نقدی کی فراہمی بند کرنے کے بعد بھوک مری کی وجہ سے چھ لوگوں کی راحت کیمپ میں موت ہوئی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں