ایسے وقت میں جب ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ آرٹیکل 370 کاہٹنا دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں فیصلہ کن قدم تھا، تب اگلے مشن پر جا رہےایک وانٹیڈدہشت گرد کے ساتھ سینئر پولیس افسر کے پکڑے جانے پر یقین کرنا مشکل ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جموں و کشمیر پولیس کے ڈی ایس پی دیویندر سنگھ کا سری نگر-جموں ہائی وے پر دہلی کے راستے میں دو مشتبہ دہشت گردوں کے ساتھ گرفتار ہونا گزشتہ کچھ وقت میں ہوئے قومی سلامتی سے متعلق بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ اجیت ڈوبھال، ایک ایسے شخص ہونے کے بطور، جو قومی سلامتی کے معاملے میں وزیر اعظم کو صلاح دیتے ہیں، گزشتہ کچھ دنوں میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچ پائے ہوںگے۔
سنگھ کو گزشتہ سنیچرکو حزب المجاہدین کے نویداورالطاف کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ گاڑی میں موجود چوتھا شخص ایک وکیل ہے، جو جموں و کشمیر پولیس کے مطابق دہشت گردوں کا معاون ہے، اور مین اسٹریم میں رہکرکام کرتا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ ان کو سنگھ کی گاڑی سے ہتھیار ملےتھے ؛ اس کے بعد انہوں نے سنگھ سے جڑے کچھ ٹھکانوں پر چھاپے مارکر اور ہتھیار برآمد کئے۔
اتوار کو ہوئی ایک پریس کانفرنس میں کشمیر کے آئی جی وجئے کمار نے بتایا کہ سنگھ کے ساتھ کسی دہشت گرد کی طرح ہی برتاؤ کیا جا رہا ہےاور ان پریو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا جائےگا۔اب بتایا جا رہا ہے کہ معاملے کی جانچ مرکز کی جانچ ایجنسی این آئی اے کو سونپی جانی ہے۔
میرے لئے دیویندر سنگھ کی گرفتاری کو اہم ماننے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے وانٹیڈ دہشت گردوں کے ساتھ گاڑی میں موجود ہونے کی کوئی موافق وجہ نہیں ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ لمبے عرصے کی غلاظت سامنے آئی ہے-بس لوگوں کے دل میں اب یہی سوال ہے کہ یہ کتنی گہرائی تک پھیلی ہوئی ہے۔
خراب آدمی یا خراب نظام
ہر ادارے میں کچھ غلط لوگ ہوتے ہیں اور یہ ہم سب جانتےہیں کہ ہندوستان کی پولیس فورس میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جیسی امید تھی،سنگھ کی گرفتاری کے بعد جموں و کشمیر پولیس سمیت سبھی سلامتی اور خفیہ ادارے اسی بات کو دوہرا رہے ہیں۔ایسے’بےایمان عناصر ‘پر انگلی اٹھانا، اس ادارہ جاتی نظام، جس نے اس کو پیدا کیا اور دہائیوں تک پنپنے دیا، کے بارے میں اٹھتے سوالوں کے جواب دینے سے زیادہ آسان ہے۔
دیویندر سنگھ کی گرفتاری نے ایجنسیوں کو چونکا دیاہے اور اس کی وجہ ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ سنگھ کا نام کسی دہشت گرد سے جڑاہے۔20 سال پہلے سال 2000 میں جب سنگھ جموں و کشمیر پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ (جس کو اسپیشل ٹاسک فورس بھی کہا جاتا ہے)میں جونیئرافسر تھے-ان کے ذریعے ایک سابق دہشت گردافضل گرو کو زدوکوب کیا گیا تھا، اس سے وصولی کی گئی اور اس سے ایک چھوٹا کام کروایاگیا۔
یہ وہی افضل تھا، جس کو سال 2013 میں ہندوستانی پارلیامنٹ پر دسمبر 2001 میں ہوئے حملے کی سازش کا حصہ ہونے کی وجہ سے پھانسی دی گئی تھی۔افضل نے تہاڑ جیل سے اپنے ایک وکیل کو بنا تاریخ کا ایک خط بھیجا تھا، جس میں اس نے کہا تھا کہ دیویندر سنگھ اور ایک دیگر افسر ڈی ایس پی ونے گپتا نے سری نگر کے ہُمہما واقع ایس ٹی ایف کیمپ میں اس کو اذیت دی تھی۔اس وقت گرو نے ان کو 80 ہزار روپے اور اپنا اسکوٹر دیا تھا۔ لیکن 2001 کے آخری مہینوں میں وہ دیویندر سے پھر ملا۔
اگر گرو کی بات پر بھروسہ کیا جائے، تو یہ ایک ایسی ملاقات تھی، جس کی قیمت گرو نے اپنی جان دےکر چکائی۔ افضل نے لکھا تھا؛
‘ڈی ایس(دیویندر سنگھ)نے مجھے کہا کہ مجھے اس کے لئے ایک چھوٹا-سا کام کرنا ہوگا، جو یہ تھا کہ مجھےایک آدمی کو دہلی لے کر جانا تھا کیونکہ میں دہلی سے اچھی طرح واقف تھا اور اس آدمی کے لئے کرایے کا گھر ڈھونڈنا تھا۔ میں اس آدمی کو نہیں جانتا تھا لیکن مجھے شک ہےکہ وہ کشمیری نہیں تھا کیونکہ وہ کشمیری نہیں بول رہا تھا، لیکن دیویندر نے جو کہاتھا میں وہ کرنے کو بے بس تھا۔
میں اس آدمی کو دہلی لے گیا۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا کہ وہ ایک کار خریدنا چاہتا ہے۔تو میں اس کو قرول باغ لے گیا۔ اس نے گاڑی خریدی۔ تب دہلی میں وہ الگ الگ لوگوں سے ملتا تھا اور ہمیں-محمد اور مجھے دونوں کو دیویندر سےالگ الگ فون کال آیا کرتے تھے۔ ‘
افضل کے مطابق، جس ‘محمد’کو دیویندر نے اس کو دہلی لانے کو کہا تھا، وہ ان پانچ دہشت گردوں میں سے ایک تھا، جو 13 دسمبر 2001 کوپارلیامنٹ پر حملے کے دوران مارا گیا تھا، اور مارے جانے کے پہلے اس نے نولوگوں کو مارا تھا۔
وہ جانچ جو کبھی نہیں ہوئی
اب ہمارے پاس افضل نے جو لکھا اس کی سچائی کو پرکھنے کاکوئی طریقہ نہیں ہے اور یہ بھی ایک پہلو ہے کہ کوئی قصوروار ٹھہرایا گیا آدمی اپنی زندگی بچانے کی کوشش میں کیا کہہ سکتا ہے، اس پر بھروسہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔جس جج نے افضل کو قصوروار ٹھہرایا تھا، اب ان کا کہنا ہےکہ اگر یہ الزام صحیح بھی ہوتے، تب بھی ان کا دیا گیا فیصلہ نہیں بدلتا۔لیکن خفیہ ایجنسیوں سے اس طرح سے کام کرنے کی امید نہیں کی جاتی۔
مثال کے طور پر اسرائیل کے موساد کو دیکھیے۔ موساد میں’ ٹینتھ مین اسٹریٹجی’کی پیروی کی جاتی ہے، یعنی اگر ایجنسی میں 9 لوگ کسی ایک کہانی پر اعتماد کر رہے ہیں، تو یہ دسواں آدمی کا فرض ہے کہ وہ کوشش کرے اور اس کوغلط ثابت کرے۔اب، جب کشمیر کی ایس ٹی ایف بدعنوانی کے لئے بدنام ہے،ایسے میں ہندوستانی خفیہ کمیونٹی میں سے کسی کو کھڑے ہوکر اس کے خلاف بولنا چاہیےتھا،’رکیے، افضل نے دیویندر سنگھ کے بارے میں کچھ خطرناک باتیں کہی ہیں۔ ہمیں اس کو جانچنا چاہیے۔’
افسوس ہے کہ کسی نے کچھ نہیں کیا۔ کیا اس کی وجہ عام ہندوستانی نااہلی یا غیر فعالیت ہے؟ لیکن ہم ملک کے سب سے بڑے دہشت گرد حملے کی بات کر رہے ہیں جو ملک کی راجدھانی میں ہوا تھا۔ یقینی طور پر سسٹم نے اس کو ہلکے میں نہیں لیا ہوگا۔تو کیا ایسا اس لئے ہو سکتا ہے کیونکہ ایس ٹی ایف کشمیرمیں دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں سب سے آگے رہا اور ایک ڈی ایس پی پر انگلی اٹھانا یہاں تک کہ سوال پوچھنے سے بھی سکیورٹی فورسز کے ‘حوصلہ ‘پر کوئی اثر پڑتا؟شاید۔
یا پھر ایسا تھا کہ انٹلی جنس اور سکیورٹی ایجنسیوں کےاعلیٰ افسر جانتے تھے کہ دیویندر اس میں اکیلا نہیں ہے اور یہ کچھ چند روپیوں کے لئےنہیں کیا گیا ہے-اور وہ کسی بڑے آپریشن کا حصہ تھا، جو واضح طور پر گڑبڑ ہو گیا تھااور اس کو چھپانے کی ضرورت تھی؟میں کسی’ فالس فلیگ آپریشن’کے بارے میں بات نہیں کررہا ہوں-میں مانتا ہوں کہ ہندوستانی ایجنسیوں کے ذریعے پارلیامنٹ پر حملہ کروانے کا خیال بالکل ناقابل یقین ہے-لیکن کچھ تو الگ ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسی دہشت گردگروپوں کو بھید کر ان کا حصہ بنتی ہیں اور کئی بار ان کے اپنے جال میں پھنسنے کی امید بھی کرتی ہیں۔لیکن جو کھیل سکیورٹی ایجنسی کھیل سکتی ہیں، وہ دہشت گرد گروہوں کے ذریعے بھی کھیلا جاتا ہے اور جس قدم کو جال سمجھا جا رہا ہوتا ہے، وہ غلط نشانےپر بھی لگ سکتا ہے۔اور ایسے وقت پر عام طور پر حکمت عملی یہی ہوتی ہے کہ مشکلوں سے نمٹا جائے اور ایسے دکھایا جائے جیسے کچھ گڑبڑ ہوا ہی نہیں ہے۔
دہشت گردی کے خلاف ادھوری لڑائی
سچائی یہی ہے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ افضل کے ذریعےدیویندر پر لگائے گئے الزامات کی کبھی جانچ کیوں نہیں کی گئی۔ جو بات ہم جانتے ہیں وہ یہ کہ ان الزامات کی جانچ نہ کرکے ہم نے یہ جاننے کا موقع کھو دیا کہ کہیں اس سازش میں کوئی اور تو نہیں شامل تھا اور سسٹم میں کیا گڑبڑی ہیں۔ اس طرح دہشت گردی کےخلاف لڑائی نہیں جیتی جا سکتی۔میں جو دلیل دے رہا ہوں وہ اخلاقیات یا انسان پرستی نہیں ہے۔ نہ ہی میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہمیں اس کا سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے، حالانکہ ذمہ دار سیاست سے مدد تو ملتی ہے۔
اس کے بجائے میرا یہ کہنا ہے کہ دہشت گردی سے لڑنے کےلئے ہندوستانی سلامتی اور خفیہ ادارہ جس طرح سے کام کر رہے ہیں، اس میں کچھ بنیادی طورپر غلط ہے۔یہ سسٹم افضل جیسوں کو پکڑکے، ان پر قانونی کارروائی کرکے ہی مطمئن ہے، جو بڑے پیمانے پر سیاسی دکھاوے کے مقصد کو پورا کرتا ہے۔یا پھر ان پانچ کشمیری جیسے بےقصوروں کو نشانہ بنایاجاتا ہے، جن کو سال 2000 میں قومی رائفلس کے ذریعے پتھری بل سے پکڑکے مار دیا گیااور پھر چھتیسنہپورا میں ہوئی 35 سکھوں کے قتل کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
اس رویے کا مطلب یہ ہے کہ اکثر اصلی مجرموں کی پہچان نہیں ہو پاتی اور ان کے کئے کی سزا نہیں مل پاتی۔یہاں تک کہ اگر ہم ‘بےایمان عناصر’والے اصول پر بھی جائیں، تو ایسے پولیس اہلکار یا فوج کے افسر-جو ایسے لوگوں کو اذیت، مارپیٹ یاوصولی کرتے وقت قانون توڑتے ہوئے یہ سوچتے ہیں کہ وہ برے لوگ ہیں-کو ملی سرکاری رعایت سے اس سلوک کو کھلی چھوٹ ملنے جیسا ماحول تیار ہوتا ہے، جس میں آخرکار اقتداراور ملک ہی شکار بن سکتے ہیں۔
دیویندر سنگھ کے، باقی کئی ایس ٹی ایف ملازمینکی طرح کافی جائیداد جمع کرنے سے ان پر شک ہو جاناچاہیے تھالیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ حقیقت بھی کہ ان کے ماتحتوں کا استحصال کا ٹریک ریکارڈ ہے، سے خطرہ کو سونگھ لیا جانا چاہیے تھا، لیکن اس کے بجائے یہ ان کےپرموشن کی وجہ بنا۔یہ حقیقت بھی کہ انہوں نے ایک نیوز چینل پر افضل کو اذیت دینے کی بات قبول کی تھی، جس کے لئے ان پر کارروائی ہونی چاہیے تھی، بجائے اس کےوہ آگے بڑھتے رہے!
جب ان کے بد عنوانی کے الزام بہت زیادہ ہو گئے تب ان کوکنارے تو کیا گیا، لیکن اس کے بعد ان کو بےحد حساس جگہوں پر تعینات کیا گیا-پہلےپلواما اور پھر سری نگر ایئر پورٹ۔ ان سب کے درمیان سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ دیویندرگزشتہ ہفتے کشمیر کے دورے پر سری نگر پہنچے غیر ملکی سیاسی رہنما-جن میں امریکی سفیربھی شامل تھے-کو لینے پہنچے تھے اور ان کی سیاحت میں ان کے ساتھ تھے۔اور اس کے دو دن بعد ہی ان کو ایک انجانے مشن پر جا رہےوانٹیڈ دہشت گرد کے ساتھ پکڑا گیا۔
انجانا مشن
دیویندر دہلی آنے میں نوید کی مدد کیوں کر رہا تھا، وہ بھی یوم جمہوریہ اور اسمبلی انتخاب سے عین پہلے؟ ہم نہیں جانتے۔ اس کی وجہ پیسہ ہے، یہ کہنا آسان ہے-لیکن اس کو 12 لاکھ روپے ملنے کی بات بھروسے کے لائق نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نوید کو پکڑنے پر 20 لاکھ روپے کا انعام تھا-نوید گزشتہ سال دیہی کشمیر میں دس سے زیادہ بنگالی اور بہاری مزدوروں کے قتل کا ملزم تھا-تو اس لئے میں یہ بات نہیں مانتا کہ ڈی ایس پی دیویندر سنگھ نے محض 12لاکھ روپیوں کے لئے اس کی مدد کی۔
غالباً اور لوگ بھی ہیں جو اس کا حصہ ہیں اور مجھے شک ہےکہ ان کا مقصد اس سے پیسے کمانا نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جموں و کشمیر پولیس کودیویندر کی سرگرمیوں کے علاوہ کسی اور بات پر بھی شک تھا، جو سامنے نہیں آئی ہے اوراسی لئے انہوں نے اس کام کو کسی دیگرسکیورٹی ادارے کو اپنے منصوبہ میں شامل کئےبغیر انجام دیا۔اب بتایا جا رہا ہے کہ این آئی اے اس معاملے کی تفتیش کرےگی۔ میں امید کرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو، ان کے ایسے ٹریک ریکارڈ کے بارے میں نہ ہی لکھا جائے تو بہتر ہے۔ اس معاملے میں ایک شفاف اور ایماندارانہ تفتیش کی ضرورت ہے-ویسی نہیں جیسی این آئی اے سربراہ وائی سی مودی نے سی بی آئی میں رہتے ہوئے کی تھی، جب ان کو ہرین پانڈیا قتل معاملہ سونپا گیا تھا۔
ہندوستان دنیا کو یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا کہ سب سے اہم عالمی مدعا دہشت گردی ہے۔ یہ اپنے آپ میں کافی برا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور این ایس اے اجیت ڈوبھال نے پرگیہ ٹھاکر جیسی دہشت گردی کے ملزم کو پارلیامنٹ میں بھیجا۔ لیکن دنیا نے ان کی اس پسند کو بھی برداشت کر لیا۔مگر ایسے وقت میں جب ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ کشمیرمیں اصلاح کئے جا رہے ہیں-کہ آرٹیکل 370 کا ہٹنا کشمیر کے لئے اور دہشت گردی کےخلاف لڑائی میں سب سے بہتر قدم تھا-تب اگلے مشن پر جا رہے ایک وانٹیڈ دہشت گرد کےساتھ ایک سینئر پولیس افسر کے ملنے کی بات پر مشکل سے ہی یقین ہوتا ہے۔
Categories: فکر و نظر