خبریں

وہ گاندھی کے قتل کی تاریخ سے خوف زدہ ہیں، اس لئے اس کے شواہد کو مٹانا چاہتے ہیں: تشار گاندھی

خصوصی رپورٹ : مہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے دعویٰ کیا ہے کہ نئی دہلی کے بڑلا ہاؤس واقع گاندھی اسمرتی سے ایک فرنچ فوٹوگرافر کے ذریعے کھینچی گئی مہاتما گاندھی کے آخری وقت کی تصویروں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ گاندھی اسمرتی کےڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے، بس کچھ تصویروں کو ڈیجیٹلائز کیا گیا ہے۔

گاندھی اسمرتی بھون(فوٹوبہ شکریہ:میوزیم آف انڈیا ڈاٹ او آر جی)

گاندھی اسمرتی بھون(فوٹوبہ شکریہ:میوزیم آف انڈیا ڈاٹ او آر جی)

مہاتما گاندھی کی 72ویں یوم وفات میں چند دن ہی بچے ہیں،لیکن اس بیچ نئی دہلی کے گاندھی اسمرتی بھون ( بڑلا ہاؤس) سے ان کے قتل سے متعلق کچھ تاریخی تصویروں کو ہٹانے کو لےکر بحث چھڑی ہوئی ہے۔نئی دہلی کے تیس جنوری مارگ کے پرانے بڑلا ہاؤس کوگاندھی اسمرتی بھون کہا جاتا ہے، جہاں مہاتما گاندھی کا 30 جنوری، 1948 کو گولی مار‌کر قتل کر دیا گیا تھا۔ 9 ستمبر،1947 سے 30 جنوری، 1948 تک مہاتما گاندھی اس گھر میں رہے تھے۔ اس بھون میں ان کی زندگی کے آخری 144 دنوں کی یادیں سنجوئی ہوئی ہیں۔

پرانے بڑلا ہاؤس کو حکومت ہند نے 1971 میں اپنے قبضے میں  لیااور اس کو بابائے قوم کے قومی یادگار کی شکل  دے دی  جس کو 15 اگست 1973 کوعوام کے لئے کھول دیا گیا تھا۔ اس بھون میں گاندھی کے یہاں گزارے گئے وقت اور ان کے قتل سمیت دیگر تاریخی واقعات کی تصویریں اور جانکاریاں سنجوئی گئی ہیں۔یہاں سے کچھ تصویریں ہٹائے جانے کی بحث کی شروعات تب ہوئی، جب مہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے جمعرات کو الزام لگایا تھا کہ گاندھی اسمرتی میں فوٹوگرافر ہنری کرٹئیر بریسن کے ذریعے لی گئی بابائے قوم کےآخری لمحوں کی تصویروں کا ڈیجیٹلائز کیا جا رہا ہے اور بنا کسی تحریری موادکےساتھ ان کو ایل ای ڈی اسکرین پر دکھایا جا رہا ہے، جس سے ان تصویروں کے سیاق وسباق کاپتہ نہیں چلتا۔

تشار گاندھی کا کہنا تھا کہ ان تصویروں کو ہٹانا تاریخی ثبوت کو مٹانے کے برابر ہے۔ انہوں نے اس کا موازنہ فرانس میں لوورے عجائب گھر میں لگی نشاۃ ثانیہ کی پینٹگ کو ہٹا کر ان کو ڈیجیٹلائز کرنے جیسی کوشش بتایا۔

تشار گاندھی نے ٹوئٹ کیا تھا،’میں حیران ہوں۔ گاندھی اسمرتی سے گاندھی جی کے قتل کی نمائش کرنے والی ہنری کرٹئیر بریسن کی تصویروں کوفوٹو گیلری سے پردھان سیوک کے حکم پر ہٹا دیا گیا ہے۔ باپو کے قتل سے متعلق تاریخی ثبوتوں کو خارج کیا جا رہا ہے۔ ہے رام!’واضح ہو کہ 30 جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کے قتل سےتقریباً ایک گھنٹہ پہلے بریسن نے ان کی تصویریں کھینچی تھیں۔ انہوں نے مہاتما کےانتم سنکسکار کی تصویروں کے ساتھ عام لوگوں کے دکھ کو بھی اپنے کیمرے میں اتاراتھا۔

بڑلا ہاؤس کے جس حصے میں شام کی وندنا کے بعد ناتھو رام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو گولی ماری تھی، اس کو عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیاہے، جہاں بریسن کی تصویروں کے ساتھ مہاتما گاندھی کی دیگر یادگار چیزیں اورتصویریں لگائی گئی ہیں۔تشار گاندھی کے اس دعویٰ کی جانچ کے لئے جب دی وائر کی ٹیم گاندھی اسمرتی بھون پہنچی، تو وہاں کے ملازمین‎اور ڈائریکٹر اس پر واضح طور پر کچھ بھی بولنے سے منع کررہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ بدلا نہیں ہے۔ تصویریں اب بھی وہیں ہیں۔

فوٹو گیلری کی بات کریں تو باقی تمام فوٹو ویسی ہی ہیں لیکن صرف فوٹوگرافر ہنری کرٹئیر بریسن کے باپو کے قتل سے متعلق تصویروں کو وہاں سےہٹایا گیا ہے۔ اس کی جگہ پر 42 انچ کی ایل ای ڈی اسکرین لگا دی گئی ہے، جس میں کچھ دیر کے وقفہ پر تصویریں بدلتی رہتی ہیں۔اس اسکرین پر تصویر بدلنے کا پتہ آسانی سے نہیں چل سکتاکیونکہ ان کے بدلنے کی مدت زیادہ ہے اور پہلی نظر میں دیکھنے والے کو یہ احساس بھی نہیں ہوگا کہ اس میں تصویریں بدل رہی ہیں۔

گاندھی اسمرتی کے ڈائریکٹر دیپانکر شری گیان سے تصویروں کے ہٹائے جانے کے بارے میں سوال کیا، تب پہلے تو انہوں نے تصویریں وہاں سے ہٹانےکی بات کو ہی خارج کیا۔ ان کا کہنا تھا، ‘وہ تصویریں بھی ہیں اور ایل ای ڈی اسکرین بھی ہے۔ آپ چاہیں تو دونوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ‘

فوٹو : سنتوشی مرکام / دی وائر

فوٹو : سنتوشی مرکام / دی وائر

حالانکہ انہوں نے کیمرے پر کچھ بھی بولنے سے صاف منع کردیا۔ انہوں نے ہمیں تمام تصویروں کو تو نہیں دکھایا، لیکن ایک تصویر لاکر ٹھیک ایل ای ڈی اسکرین کے بغل میں رکھوائی۔ مختلف تصویروں اور دستاویزوں والا پینل جو ہمارےلئے لاکر دکھایا گیا، اس کی لمبائی-چوڑائی تقریباً4سے6 فٹ تھی۔دیپانکر نے بتایا کہ اس طرح کے کل 13 پینل ہیں جن کو کسی اسٹورروم میں رکھا گیا ہے، جس کو ہمیں دکھانے سے وہ ہچکچا رہے تھے۔ اس کے بعدانہوں نے بتایا کہ ڈیجیٹلائزیشن کے عمل کے تحت کچھ تصویروں کو ہٹایا گیا ہے اورانہی تصویروں کو اسکرین پر 2-2 منٹ کے وقفے میں دکھایا جائے‌گا۔

تصویروں کو ہٹانے کی وجہ کے بارے میں انہوں نے کہا، ‘تصویروں کو لوگ، خاص طورپر بچے چھوتے تھے۔ اب ڈیجیٹلائزیشن کرنے سے کوئی چھو نہیں پائیں‌گے۔ بیک گراؤنڈ میں موسیقی بھی چلتی رہے‌گی، جس سے لوگوں کو اچھا لگے‌گا۔ ‘لیکن یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اگر لوگوں کے چھونے سے ہی پریشانی ہو رہی ہے تو اس کے لئے دوسری تدبیریں بھی کی جا سکتی ہیں، جیسے لوگوں کی پہنچ سے دور رکھنا یا تصویروں پر شیشہ لگوانا وغیرہ۔

اس کے علاوہ ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ صرف مہاتماگاندھی کے قتل سے متعلق تصویریں ہی کیوں ہٹائی گئیں؟ ان کی زندگی سےمتعلق باقی دوسری تصویریں تو ویسی ہی لگی ہوئی ہیں، ان کو کیوں نہیں ہٹایا گیا یاڈیجیٹلائزیشن کے لئے ان کو کیوں نہیں چنا گیا؟گیلری میں جو پینل ہمیں دکھانے کے لئے لایا گیا تھا، اس میں تصویر اور دستاویز صاف دکھ رہا تھا، اس کو آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے۔ لیکن فوٹو گیلری میں لگی اسکرین پر جو تصویریں دکھائی دے رہی تھیں، وہ ساخت میں نسبتاچھوٹی تھیں اور صاف دکھ بھی نہیں رہی تھیں۔

ساتھ ہی ان تصویروں کے ساتھ لکھے ٹیکسٹ کو دو منٹ کےاندر ہی پڑھنا ہوگا کیونکہ اس کے بعد یہ تصویر بدل جاتی ہے اور دوسری تصویر چلنےلگتی ہے۔ جب ہم نے ان تصویر اور پینل کو لےکر اپنا تجربہ بتایا، تب دیپانکر کاکہنا تھا، ‘ یہ آپ کا ‘پرسیپشن’ہوگا۔ ‘جب ان سے ہٹائی گئی تصویروں کے پینل کے بارے میں سوال کیا، تب انہوں نے بتایا کہ وہ ویسے ہی رہیں‌گے۔ اگر کہیں نمائش وغیرہ میں ضرورت ہوئی، تو ان کو وہاں استعمال کیا جائے‌گا۔یہ پوچھے جانے پر کہ یہ تبدیلی کس کی ہدایت پر اور کیوں کی گئی، انہوں نے پہلے تو جواب دینے سے منع کر دیا، لیکن کئی بار پوچھے جانے پربتایا کہ اعلیٰ انتظامیہ کمیٹی کے حکم پر قتل سے متعلق تصویروں کو ہٹایا گیا ہے۔

تصویروں کو ہٹانے میں حکومت کے کردار کے بارے میں پوچھنےسے انہوں نے کہا، ‘ گاندھی اسمرتی ایک آزاد باڈی ہے۔ حکومت اس میں صرف فنڈنگ کرتی ہے۔ ‘لیکن تشار گاندھی اس تبدیلی سے کافی حیران ہیں۔ انہوں نےگاندھی کے قتل سے متعلق تصویروں کو ہٹاکر ایل ای ڈی اسکرین لگائے جانے پر غصہ کااظہار کرتے ہوئے کہا، ‘وہ فرنچ فوٹوگرافر ہنری کرٹئیر بریسن کی لی ہوئی تصویریں تھیں۔ انہوں نے ان کے پرنٹس بناکر گاندھی اسمرتی کو تحفہ میں دیا تھا۔ ‘

انہوں نے آگے کہا، ‘وہ باپو کے قتل اور اس کے بعد کی کہانی کو نمائش کرتی بہت ہی عمدہ اور باحیات تصویریں تھیں۔ ان تصویروں کے ذریعے اس دور کی تاریخ اور اس واقعہ کو اچھے سے سمجھایا گیا تھا۔ لوگ جب ان کو دیکھتے اورپڑھتے تھے، تب آسانی سے سمجھ میں آتا تھا کہ کیا واقعہ ہوا اور کیا تاریخ تھی۔ ‘

ایل ای ڈی اسکرین پر چل رہی ہنری کرٹئیر بریسن کی تصویریں اور ان کے بارے میں دی گئی جانکاری(فوٹو : سنتوشی مرکام / دی وائر)

ایل ای ڈی اسکرین پر چل رہی ہنری کرٹئیر بریسن کی تصویریں اور ان کے بارے میں دی گئی جانکاری(فوٹو : سنتوشی مرکام / دی وائر)

تشار گاندھی کا دعویٰ ہے کہ یہ تبدیلی وزیر اعظم نریندرمودی کے حکم پر کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ میں نے جب وہاں ان تصویروں کو ہٹائےجانے کے بارے میں تحقیقات کی، تو پتہ چلا کہ نومبر میں وزیر اعظم نریندر مودی وہاں آئے تھے اور ان کے حکم کے مطابق ان تصویروں کو ہٹایا گیا ہے۔ یہ جان‌کر مجھے تعجب بھی ہوا اور دکھ بھی کہ اس طرح سے ایک تاریخی نمائش کو ہٹا دیا جاتا ہے اور لوگوں کو محروم کر دیا جاتا ہے کہ اس دور کی تاریخ اور خاص کر اس واقعہ کو جان نہ پائیں۔ ‘

تشار گاندھی نے یہ بھی بتایا کہ ہٹائی گئی تصویروں میں گاندھی جی کے قتل کی شام کو بڑلا ہاؤس میں دئے گئے پنڈت جواہرلال نہرو کی ایک تاریخی تقریر (دی لائٹ ہیز گان آؤٹ آف اور لائیوس) کی تصویر بھی تھی، اس تقریر کی ورڈ رائٹنگ بھی اس تصویر کے ساتھ لگائی گئی تھی۔تشار کے مطابق اس کے علاوہ ایک تصویر میں گاندھی کے قتل کے واقعہ کے چشم دید گواہ، ایک امریکن صحافی کا بیان بھی تھا، جس میں انہوں نے اس شام کیا-کیا دیکھا تھا، اس کی تفصیل تصویر کے ساتھ لگائی گئی تھی۔ جس بندوق سےباپو کا قتل کیا گیا تھا، اس کی تصویر بھی تھی۔ ان کے مطابق بہت ساری ایسی خوبصورت تصویریں تھیں، جن کو ہٹا دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اگرڈیجیٹلائزیشن کرنا تھا تو سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے تھا کیونکہ ان تصویروں سے بڑلاہاؤس کے اس تاریخی پہلو کی عظمت بھی بڑھتی تھی۔تشار گاندھی نے بھی ایل ای ڈی اسکرین پر کم وقفے کے لئےنمائش ہونے والی تصویروں پر سوال اٹھایا ہے، ان کا کہنا ہے، ‘ ابھی ایل ای ڈیاسکرین میں دو-دو سیکنڈ کے لئے تصویریں گھومتی ہیں، جس سے لوگوں کے لئے کچھ بھی سمجھ پانا مشکل ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں سمجھ پائیں‌گے کہ وہاں کی کیا تاریخ تھی اورکیا پیش آیا تھا۔ ‘

انہوں نے یہ بھی کہا، ‘سب چیزوں کو ڈیجیٹلائز نہیں کرناچاہیے۔ کچھ چیزوں کی فلسفیانہ اہمیت کو سمجھ‌کر ان کو ویسے ہی رکھنا چاہیے۔ اس سے مجھے دکھ بھی ہوا اور یہ شک بھی ہوا کہ ان کی یہ منشاء تھی کہ اس تاریخ کو لوگ نہ سمجھ پائیں اس لئے ان تصویروں کو ہٹاکر تاریخ کو دبوچنے کی کوشش کی ہے۔ ‘انہوں نے یہ بھی کہا، ‘ایل ای ڈی اسکرین میں تمام تصویریں آ تو رہی ہیں، لیکن بہت چھوٹی-چھوٹی ساخت میں ہیں، جو کشش ان تصویروں کوبڑی-بڑی ساخت میں دیکھنے میں تھی، وہ اس میں نہیں ہے۔ اب آپ تصویر کو جب تک سمجھ پائیں تب تک وہ تصویر چلی جائے‌گی۔ کئی بار لوگ وہاں سے نکل جاتے تھے، ان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ ان اسکرین پر تصویریں چلتی ہیں۔ ‘

انہوں نے اس طرح تصویریں ہٹانے کو قابل مذمت بتایا۔انہوں نے کہا، ‘ جس طرح سے انہوں نے تصویروں کو ہٹایا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ ان کوہٹانے والے اس تاریخ سے راضی نہیں ہیں کیونکہ وہ اس تاریخ سے ڈرتے ہیں۔ تاریخی شواہد  کو مٹانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بڑلا ہاؤس ٹکا رہے لیکن اس کی تاریخ کے بارے میں لوگوں کو زیادہ جانکاری نہ ہو۔ ‘

وزیر ثقافت بولے، تصویر کو ہٹانے کا سوال ہی نہیں

اس بحث کے درمیان مرکزی وزیر ثقافت پرہلاد پٹیل نے جمعہ کو کہا کہ گاندھی اسمرتی اور درشن سمیتی میں لگی جانے مانے فوٹوگرافر ہنری کرٹئیربریسن کے ذریعے کھنچی گئی مہاتما گاندھی کے آخری لمحوں کی اصل تصویر کی جگہ ان کاپرنٹ لگانے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔پٹیل نے صحافیوں سے کہا، ‘ تصویروں کو ہٹانے کا کوئی سوال نہیں ہے۔ دونوں ایل ای ڈی اسکرین اور تصویریں الگ الگ جگہوں پر ایک ہی وقت میں دکھائی جائیں‌گی۔ ناظرین ایل ای ڈی اسکرین پر تصویروں کو دیکھیں‌گے جبکہ بہترتفصیلی سمجھ کے لئے فرانسیسی فوٹوگرافر کی تصویریں بھی دکھے‌گی۔ ‘

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)