خبریں

یورپی یونین سے 47 سال بعد الگ ہوا برطانیہ

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے اس کو ایک نئی صبح سے تعبیر کیا۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی : تقریباً نصف صدی تک یورپی یونین کا حصہ رہنے والا ملک برطانیہ کئی برس کی تلخ بحث کے بعد بالآخر یکم فروری سے یونین سے الگ  ہو گيا ہے اور ایک ‘غیر یقینی راستے’ پر چل پڑا ہے۔

یورپی یونین کے ساتھ 47 سال  تک رہنے کے بعد جمعہ 31 جنوری اور یکم فروری 2020 کی درمیانی شب لندن کے مقامی وقت کے مطابق گیارہ بجے برطانیہ باقاعدہ طور پر یورپی یونین سے الگ ہو گیا۔ اس سے ایک گھنٹے قبل برطانوی وزیر اعظم  بورس جانسن نے اپنا ایک ویڈيو خطاب اپنے فیس بک صفحے پر پوسٹ کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ بریگزٹ نے ‘دوبارہ کنٹرول سنھالنے’ کا موقع دیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے یورپی یونین کے ساتھ ‘دوستانہ تعاون  کے ایک نئے دور’ کا وعدہ بھی کیا۔

یکم فروری سے آئندہ گیارہ ماہ کے دوران یورپی یونین اور برطانیہ کو مستقبل کے تعلقات طے کرنے ہوں گے۔ اس دوران برطانیہ یورپی یونین کے قوانین پر عمل کرنے کا پابند رہے گا۔ برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد مستقبل کا راستہ ممکن ہے کہ نشیب و فراز سے پُر ہو لیکن یہ ایک شاندار جیت کا موقع بھی ہے۔ انہوں نے کہا،’آج کی شب سب سے اہم بات یہ کہنی ہے کہ یہ خاتمہ نہیں بلکہ آغاز ہے۔ یہ طلوع آفتاب کا وہ لمحہ ہے، جب ہمارے عظیم قومی ڈرامے میں نئی اداکاری کے لیے پردے ہٹا دیے گئے ہیں۔’

بورس جانسن برطانیہ کے وہ رہنما ہیں، جنہوں نے بریگزٹ کی زبردست وکالت کی تھی اور یورپی یونین سے برطانیہ کو علیحدہ کرنے کے لیے زبردست مہم چلائی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ بریگزٹ سے برطانوی حکومت کو ان پالیسیوں پر عمل کرنے کی نئی طاقت ملے گی، جس کے لیے عوام نے ووٹ دیا تھا۔ اس دوران برطانیہ کے مختلف علاقوں میں بریگزٹ کی حمایت اور اس کی مخالفت میں مظاہروں کی بھی اطلاعات ہیں، جہاں بہت سے لوگ مختلف طرح کی تقریبات میں اس سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس فیصلے کے مخالفین نے وزیراعظم بورس جانسن  کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا جبکہ بریگزٹ کے حامیوں نے جشن منانے کے لیے پارلیمنٹ اسکوائر میں ریلی نکالی۔ ادھر برسلز میں یورپی پارلیامان کے باہر نصب برطانوی پرچم کو ہٹا لیا گيا ہے اور اس کی جگہ یورپی یونین کا پرچم لگا دیا گيا ہے۔

یکم فروری سے برطانیہ یورپی یونین میں قانون سازی کے عمل سے باہر ہو گيا ہے۔ اب یورپی پارلیامان یا کسی دوسرے ادارے میں بھی برطانیہ کا کوئی رکن نہیں ہو گا۔ گیارہ ماہ کی عبوری مدت میں برطانیہ سنگل مارکیٹ، کسٹم یونین میں رہے گا اور وہ یورپی یونین کے بجٹ میں اپنا حصہ بھی دیتا رہےگا اور اس  دوران برطانیہ دیگر ممالک کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے بھی طے نہیں کر سکے گا۔برطانوی شہری یورپی یونین کے ممالک میں آزادانہ سفر کر سکیں گے۔ وہ جہاں بھی ہیں اپنی ملازمت اور تعلیم جاری رکھ سکیں گے جبکہ برطانیہ میں یورپی یونین کے شہریوں کو بھی یہ تمام حقوق حاصل رہیں گے۔ یورپی یونین اور برطانوی حکومت کو یکم جنوری 2021تک مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے حتمی معاہدہ طے کرنا ہوگا، جس کے لیے اس سال 23 مارچ سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، برطانیہ 47 سال تک یورپی یونین کا حصہ رہا ہے۔ بریگزٹ کے مکمل ہوتے ہی اب برطانوی شہریوں کو کچھ تبدیلیوں کا سامنا ہے۔بیشتر یورپی قوانین، بشمول شہریوں کی آزادانہ آمد و رفت، اس سال 31 دسمبر تک نافذ رہیں گے۔ سال 2020 منتقلی کا سال ہے۔

برطانیہ کی کوشش ہے کہ اس دوران وہ یورپی یونین کے ساتھ ایک فری ٹریڈ اگریمنٹ (تجارتی معاہدے) طے کر لیں جیسا کہ یورپی یونین کا کینیڈا کے ساتھ ہے۔آج برطانوی کانیہ کا اجلاس بھی شمال مشرقی برطانیہ کے شہر سندرلینڈ میں ہوا جو کہ بریگزٹ کے حوالے سے ریفرنڈم میں برطانیہ کی علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈالنے والا پہلا شہر تھا۔

ادھر برسلز میں یورپی پارلیامنٹ کے باہر سے برطانوی جھنڈا ہٹا دیا گیا ہے اور اس کی جگہ یورپی یونین کا جھنڈا رکھ دیا گیا ہے۔جبکہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’مجھے خوشی ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین نے بریگزٹ معاہدے پر اتفاق کیا ہے جو برطانوی عوام کی مرضی کا احترام کرتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جیسا کہ برطانیہ ایک نئے باب کی جانب بڑھ رہا ہے تو ہم اس کے ساتھ اپنے مضبوط، نتیجہ خیز اور خوشحال تعلقات کو مستحکم اور جاری رکھیں گے۔‘برطانیہ میں واشنگٹن کے سفیر ووڈی جانسن کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’مکمل حمایت‘ حاصل تھی۔

برطانیہ میں امریکی سفیر جانسن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ برطانیہ کے ساتھ امریکہ کا ‘خصوصی رشتہ’ اس دلچسپ نئے دور میں برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط ہوگا۔2016 میں برطانیہ میں ریفرنڈم میں 52 فیصد ووٹرز نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے اس کی مخالفت میں ووٹ ڈالے تھے۔ تاہم بریگزٹ پر عملدرآمد کیسے کرنا ہے، اس سوال پر پارلیمنٹ میں خوب کھینچا تانی جاری رہی۔

گذشتہ سال دسمبر میں بورس جانسن نے قبل از وقت انتخابات میں اس وعدے پر 80 سیٹیوں کی اکثریت حاصل کر لی کہ وہ بریگزٹ کو مکمل کر کے رہیں گے۔تاہم رائے شماری کے جائزے ابھی بھی یہی دیکھا رہے ہیں کہ اس معاملے پر برطانوی عوام شدید منقسم ہے۔

 (ڈی ڈبلیو اردوکے ان پٹ کےساتھ)