پچھلے سال سرکار نے ریزرو بینک آف انڈیا سے 1.76 لاکھ کروڑ روپے لینے کا فیصلہ کیا۔ اس سال یہ ایل آئی سی سے 50000 کروڑ سے زیادہ لے سکتی ہے۔ بی پی سی ایل، کانکور جیسے کچھ پبلک سیکٹر کے انٹر پرائززکو پوری طرح سے بیچا جا سکتا ہے۔
ایک طرف جہاں اقتصادی شرح نمو میں ساختیاتی گراوٹ دکھائی دے رہی ہے، وہیں دوسری طرف ہندوستان کا مالی بحران بھی شدیدہوتا جا رہا ہے۔مالی نقصان کےہدف میں نرمی دینے کے باوجود سرکار کو خرچ کے معاملے میں اپنے ہاتھ سکوڑنے کومجبور ہونا پڑا ہے۔
2019-20 کے دوران کل خرچ (ترمیم شدہ تخمینہ)، بجٹ میں طے شدہ27.86 لاکھ سے 1 لاکھ کروڑ روپے کم ہے۔ یہ کسی کو معلوم نہیں ہے کہ کن منصوبوں کے فنڈ پر قینچی چلی ہے یا بس ان کے فنڈ خرچ نہ ہونے کا معاملہ ہے۔
یہ ایک غیرمعمولی صورت حال ہے، جس نے سرکار کو فنڈ اکٹھاکرنے کے لیے دوسرے غیر روایتی طریقے کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے، تاکہ ‘وکاس’ کو رفتار دینے کے لیے اضافی ریونیو جمع کیا جا سکے اور سرمایہ کاری سے متعلق خرچ میں اضافہ کیا جا سکے۔
اس بےچینی کی وجہ سے ہی سرکار ایشیا کی سب سے بڑی لائف انشورنس کمپنیوں میں سے ایک ایل آئی سی جس کی کل ملکیت36 لاکھ کروڑ روپے ہے –کےشیئر کو بیچنے جیسا سیاسی طورپرمتنازعہ قدم اٹھا رہی ہے۔
چونکہ ٹیکس -ریونیو کے جمع ہونے کی رفتار سست پڑ گئی ہے جس کے لیے جی ایس ٹی میں امید سے کم اضافہ بنیادی طور پر ذمہ دار ہے اس لیے مرکزی حکومت جلدی سے پیسہ دلانے والی ملکیت کو بیچ ڈالنے کی فوری پالیسی پر چل پڑی ہے۔ ایل آئی سی میں اپنی حصے داری کو بیچنا اس پالیسی کا ایک حصہ ہے۔
یہ کسی فیملی کے ذریعے اپنے روزانہ کے خرچ کو پورا کرنے کے لیے اپنے گھر کی ملکیت سونا، چاندی، زمین، شیئر وغیرہ کو بیچنے کے برابر ہی ہے۔ سوال ہے کہ ان سب کی عمر کتنی ہے؟
پچھلے سال سرکار نے ریزرو بینک آف انڈیا سے 1.76 لاکھ کروڑ روپے لینے کا فیصلہ کیا۔ اس سال یہ ایل آئی سی سے 50000 کروڑ روپے سے زیادہ لے سکتی ہے۔ بی پی سی ایل، کانکور جیسے کچھ پبلک سیکٹرکے انٹرپرائزز کو پوری طرح سے بیچا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد کیا؟ کیا یہ سلسلہ ہمیشہ قائم رہ سکتا ہے؟
ماہر اقتصادیات رتھن رائے، جو پچھلے سال تک وزیر اعظم کے اکانومک ایڈوائزی کونسل کے ممبر تھے، انہوں نے کہا کہ مالی خزانے کےحساب سے مرکزی حکومت ایک ‘سائلنٹ ہرٹ اٹیک’سے جوجھ رہی ہے۔ وہ2018-19 کے اصل ریونیو جمع میں 1.7 لاکھ کروڑ روپے کی شدید کمی کے تناظر میں یہ بات کر رہے تھے۔ یہ ‘سائلنٹ ہرٹ اٹیک’ 2019-20 میں اور بھی شدید ہو گیا ہے کیونکہ ریونیو میں کل کمی 3 لاکھ کروڑ روپے کی ہے۔
نوٹ بندی کے بعد ہمیں کہا گیا تھا کہ اس سے بڑی تعداد میں بلیک منی کے مین اسٹریم میں آنے سے ریونیو میں بڑا اضافہ ہوگا۔ ہمیں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جی ایس ٹی سے بلیک منی کی معیشت کا فارملائزیشن ہوگا۔ ان وعدوں کا کیا ہوا؟ ایسا لگتا ہے کہ ہم الٹی سمت میں جا رہے ہیں۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے ملک کے خزانے میں ساختیاتی اضافے کا اندازہ لگایا گیا تھا، لیکن نتیجہ اس کا الٹا نکلا ہے اور یہ ساختیاتی گراوٹ کی ہی وجہ بن گئے ہیں۔
وزیر خزانہ کے بجٹ اسپیچ میں جی ڈی پی اضافہ میں گراوٹ کی وجہ سے ریونیو میں سستی کو لےکر کوئی بھی تجزیہ نہیں ہے۔ یہ سوچنا کہ یہ ایک سائیکلک مسئلہ ہے، دراصل شترمرگ کی طرح ریت میں سر چھپانے جیسا ہے۔
2020-21 کے لیے ریونیواضافے کا اندازہ جی ڈی پی میں 10 فیصد کے برائے نام اضافہ کے اندازے پرمبنی ہے۔ اگر یہ نمو جی ڈی پی میں 5 فیصداصل اضافہ اور 5 فیصدی افرارط زر کی شکل میں آتا ہے، جس کا کافی امکان ہے، تو اسٹیگ فلیشن (افراط زر کی وجہ سےمندی)کی پیشن گوئی سچ ثابت ہو جائےگی۔
اس صورت حال میں کل ریونیو میں اضافے کا ااندازہ ایک بار پھر غلط ثابت ہوگا اور یہ سرکار کو زیادہ خطرناک طریقے سے املاک کو بیچنے کے لیے ترغیب دےگا۔ یہ آر بی آئی، ایل آئی سی اور منافع بخش پبلک انٹرپرائزز کو گردن مروڑے جانے کے لیے تیار سونے کا انڈا دینےوالی مرغی بنا دےگی!
جب بازار نے 1000 پوائنٹ گرکر بجٹ کو لےکر اپنی مایوسی کا اظہار کیا، تب بی جے پی کے زیادہ تر ترجمان بجٹ کی تعریف کرتے ہوئے اس کو نئی دہائی کے لیے وژن اسٹیٹ منٹ قرار دے رہے تھے اور ‘بجٹ کوسالانہ تفصیل کی طرح نہ پڑھنے’ کی اپیل کر رہے تھے۔
یہاں یہ غورطلب ہے کہ پچھلی کچھ دہائیوں میں بجٹ پر بازار کا اس طرح کا مایوس کن ردعمل ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی ایک دس سالہ وژن کا مطالبہ نہیں کر رہا تھا۔ ہر کوئی بجٹ سے مختصر اور درمیانی مدت میں نمو اور مانگ کو پھر سے پٹری پر لانے کے لیے کچھ ٹھوس اقدام کی امید کر رہا تھا۔ لیکن ایسے کسی قدم کا نام ونشان نہیں تھا۔
لیک سے ہٹتے ہوئے بڑے صنعت کاروں نے بھی کہا کہ انہیں مانگ کو بڑھاوا دینےوالی کوئی فوری تدبیر بجٹ میں نظر نہیں آئی۔ ٹیکس میں کٹوتی اور پیچیدہ ٹیکس سلیبوں کو دیکھتے ہوئے تنخواہ دار لوگ یہ سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں کہ کیا وہ پچھلی معیشت میں زیادہ اچھی حالت میں ہیں، جس میں ابھی بھی ٹیکس چھوٹ محفوظ ہے۔
صرف ایک مہینے پہلے،وزیر خزانہ نے اگلے پانچ سالوں میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر 102 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کا بڑا اعلان کیا تھا، جس میں مرکز، ریاستیں اور نجی سیکٹر کا 39فیصد،39فیصد اور 22فیصدحصہ ہوگا۔
ایسے میں یہ امید تھی کہ پہلے سال میں بنیادی ڈھانچے پر خرچ میں مرکز کے حصہ (8 لاکھ کروڑ)کی تفصیل جامع طورپردی جائےگی۔ لیکن حیران کن طورپر یہ ندارد تھا۔
کیا سرکار نے اس منصوبے کوملتوی کر دیا ہے؟ یہ مرکزی حکومت کی طرف سے پیش کی گئی نمو اور مانگ کو بڑھاوا دینےوالا ایک ٹھوس منصوبہ تھا، جس کو لےکر کوئی تفصیل بجٹ میں نہیں تھی۔
کل ملاکر پورا بجٹ اسپیچ اس قدر باربار دہرائے گئے عام تفصیلات سے بھرا ہوا تھا کہ حکمراں پارٹی کے لوگ بھی 2 گھنٹے 45 منٹ کے اسپیچ کے آخرتک تھکے ہوئے سے دکھائی دینے لگے۔
آخر میں وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کو وزیر خزانہ کو یہ اشارہ کرنا پڑا کہ بجٹ اسپیچ کے باقی حصہ کو پڑھا ہوا مانا جا سکتا ہے۔ پچھلے کئی سالوں میں یہ شاید سب سے زیادہ بورنگ اوربےسمت بجٹ تھا۔
Categories: فکر و نظر