کانگریس سے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد جیوترادتیہ سندھیا کےسیاسی مستقبل کو لےکر کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا بی جے پی میں بھی ان کا وہی رتبہ قائم رہ پائےگا، جو کانگریس میں تھا؟
مدھیہ پردیش کے قدآور رہنما اور کانگریس سے رکن پارلیامان اور مرکزی وزیر رہے جیوترادتیہ سندھیا نے بدھ کو کانگریس سے اپنا 18 سال پرانا ناطہ توڑکربی جے پی کا دامن تھام لیا ہے۔ اس طرح پورا سندھیا گھرانہ اب بی جے پی میں شامل ہوگیا ہے۔جیوترادتیہ سندھیا کی پھوپھی وسندھرا راجے، یشودھرا راجے اورمامی-ماموں دھیانیندر سنگھ اور مایا سنگھ پہلے سے ہی بی جے پی کا حصہ ہیں۔
سندھیا کے اس قدم کے بعد سوال اٹھ رہے ہیں کہ بی جے پی میں ان کاکیا مستقبل ہوگا؟کانگریس میں وہ چاربار رکن پارلیامان رہے، منموہن سنگھ حکومت میں دس سال مرکزی وزیر رہے، پارٹی جنرل سکریٹری رہے، کئی ریاستوں کی انتخابی ذمہ داری انہوں نے سنبھالی۔ مدھیہ پردیش کے گوالیار-چمبل بلاک میں تو کانگریس کا وہ اکلوتابڑا چہرہ تھے۔ ٹکٹ تقسیم سے لےکر انتظامی پھیر بدل تک میں ان کی مداخلت تھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا اب بی جے پی میں بھی ان کا یہی رتبہ قائم رہےگا؟ساتھ ہی یہ سوال یہ بھی اٹھ رہے ہیں کہ ریاست میں اپنا اتنا بڑارہنما کھوکر کانگریس کتنے نفع-نقصان میں رہےگی؟ وہیں، بی جے پی میں ان کی آمدپارٹی کو کتنا فائدہ پہنچائےگی یا پھر ریاست میں پہلے سے جمے دیگر قدآوربھاجپائیوں کے ساتھ ان کی پٹری نہیں بیٹھ پائےگی اور پارٹی میں تنازعہ پیدا ہو جائےگا؟
مدھیہ پردیش کے سینئر صحافی پرکاش ہندوستانی کہتے ہیں،’واضح طورپرکہوں تو سندھیا کے جانے سے کانگریس کو نقصان زیادہ ہے اور ان کے آنے سے بی جے پی کو فائدہ کم ہے۔ سندھیا کانگریس کے لئے ایک ستون تھے اور گوالیار-چمبل بلاک کے سب سے بڑے رہنما تھے۔ اس لئے فطری طورپر پارٹی پر اثر تو پڑےگا۔ وہیں، مجموعی طورپربی جے پی فائدے میں تو رہےگی، لیکن وہ فائدہ اتنا زیادہ نہیں ہوگا جتنا کہ سمجھاجا رہا ہے۔ ‘
پرکاش بی جے پی کو کم فائدے میں اس لئے دیکھتے ہیں کیونکہ کسی خاص ریاست کے اتنے بڑے قد کے رہنما کے پارٹی میں آنا متعلقہ ریاست میں پارٹی کے موجودہ بڑے رہنماؤں کے ساتھ مفادات کے ٹکراؤ کو بڑھاوا دے سکتا ہے۔ جو کہ کسی بھی حالت میں پارٹی کے حق میں نہیں ہوگا۔بی جے پی میں تو اس معاملے میں مدھیہ پردیش میں بڑے رہنماؤں کی کثرت ہے، جن میں شیوراج سنگھ چوہان، نریندر سنگھ تومر، پربھات جھا، کیلاش وجئےورگیہ، نروتم مشرا جیسے کئی نام شامل ہیں۔
سینئر صحافی راکیش دکشت بھی ایسا مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’سندھیا کے ساتھ بی جے پی کے کئی رہنماؤں کا تال میل نہیں بیٹھ پائےگا۔ سابق رکن پارلیامان اور ریاستی حکومت میں وزیر رہے جئے بھان سنگھ پویا یا سندھیا کے بی جےپی میں آنے سے اپنی راجیہ سبھا سیٹ گنوانے والے پربھات جھا کیا کریںگے؟ مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر تو سنبھل جائیںگے، کیونکہ ان کا قد اب بہت بڑا ہو چکا ہے۔لیکن گراس روٹ کے رہنما جن کی پوری سیاست ‘ محل ‘ کے خلاف چلتی تھی، ان کے لئے تو’دھرم سنکٹ’کی حالت پیدا ہو جائےگی۔’
غور طلب ہے کہ جئے بھان سنگھ پویا اور پربھات جھا دونوں ہی گوالیارسے تعلق رکھتے ہیں اور ‘ محل ‘ یعنی سندھیا مخالفت ہی ان کی سیاسی زندگی کا مرکزرہی ہے۔
حالانکہ راکیش بی جے پی کے فائدے کی بات بھی منظور کرتے ہیں۔ وہ آگے کہتے ہیں، ‘مجموعی طور پر بی جے پی مدھیہ پردیش میں اس لئے فائدے میں ہےکیونکہ انہوں نے یہاں کانگریس کا ایک مضبوط قلعہ مسمار کر دیا۔ رہی بات کانگریس کی تواس کو اگلے ایک-دو سالوں تک عارضی نقصان تو ہوگا، لیکن طویل مدتی تناظر میں دیکھیں تو مستقبل میں اس کو بھی فائدہ ہوگا کیونکہ ہمیشہ ٹکراؤ میں رہنے والا ایک گروپ کم ہو جائےگا۔ ‘
حالانکہ ریاست کی سیاست پر قریبی نظر رکھنے والے سیاسی مبصرگرجاشنکر تھوڑی مختلف رائے رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں،’ایک بڑا رہنما جب پارٹی میں آتا ہے تو فائدہ ہی ہوتا ہے۔ بی جے پی کو بھی فائدہ ہی ہوگا۔ رہی بات سندھیا اور ریاست میں بی جے پی کے موجودہ بڑے رہنماؤں کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہونے کی تو دل-بدل ہندوستانی سیاست میں کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا ہے۔ دل بدل ہمیشہ ہوتے ہیں اور اس سے ٹکراؤ بھی پیدا ہوتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کو اس سے گزرنا بھی پڑا ہے۔ کیا سندھیا کو شامل کرنے سے پہلے بی جے پی کو یہ پتہ نہیں ہوگا؟ اس لئے بی جے پی سندھیا کو پارٹی میں لائی ہے تو سب ٹکراؤ کا حل تلاش کر کےلائی ہے۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’رہی بات کانگریس کے نقصان کی تو آج ریاستی حکومت گرنے کے حالت میں ہے۔ اس سے بڑا نقصان اور کیا ہوگا؟ ‘
غور طلب ہے کہ سندھیا اکیلے بی جے پی میں نہیں گئے ہیں، ان کی حمایت میں ریاستی حکومت کے چھ وزراء سمیت 22 ایم ایل اے نے بھی اسمبلی رکنیت سےاپنا استعفیٰ دے دیا ہے۔یہ تمام کانگریسی ہیں، جس سے مدھیہ پردیش میں کانگریس کی کمل ناتھ حکومت بحران میں آ گئی ہے۔230 رکنی اسمبلی میں اکثریت کے لئے ضروری116 ایم ایل اے میں سے اب اس کے پاس صرف 92 کانگریس ایم ایل اے رہ گئے ہیں۔ ایوان میں چار آزاد، دو بی ایس پی اور ایک ایم ایل اے ایس پی کا ہے جو کہ کمل ناتھ حکومت کو حمایت دے رہے ہیں۔ ان کا رخ ابھی واضح ہونا باقی ہے، اس لئے حکومت کے گرنے کی باتوں کوقوت مل رہی ہے۔
بہر حال ریاست کے ایک دیگر سینئر صحافی شرون گرگ کا ماننا ہے، ‘بی جے پی کی دلچسپی سندھیا کو پارٹی میں لانے سے زیادہ کانگریس کو توڑنے میں ہے۔وہ سندھیا کو بلندی پر بٹھانے کے لئے پارٹی میں نہیں لائی ہے، بلکہ کانگریس کومدھیہ پردیش میں ختم کرنا اس کا مقصد ہے۔ ‘وہ آگے کہتے ہیں،’اگر بی جے پی سندھیا کو ریاست کے پاور سینٹرمیں معقول جگہ دےکر ان کو عہدوں اور محکمہ جات کے بٹوارے سے جوڑتی ہے اور ان کےحامیوں کو پہچان دےکر اپنے ذاتی مفادات کی قربانی دیتی ہے اور دیگر کو پارٹی میں قبول کرنے کو تیار ہوتی ہے تو ایسا ہو سکتا ہے کہ کانگریس کے اور بھی لوگ بی جےپی میں شامل ہوں۔ ‘
بی جے پی کو ہونے والے ایک اور بڑے فائدے کی طرف وہ اشارہ کرتےہیں، ‘ بی جے پی کا مقصد ہے کہ کمل ناتھ حکومت نے بد عنوانی کی جو تفتیش چلائی تھیں(جیسے-ویاپم گھوٹالہ، ای-ٹینڈر گھوٹالہ، ہنی ٹریپ معاملہ وغیرہ) جن میں بی جے پی رہنما پھنسے ہوئے تھے، کانگریس کے ریاست میں ختم ہوتے ہی یہ تفتیش بھی ختم ہوجائیںگی۔ اس لئے بی جے پی بہت ہی فائدے میں رہےگی۔ ‘
کانگریس کے نفع-نقصان پر وہ کہتے ہیں، ‘ کانگریس بری طرح متاثرہونے جا رہی ہے۔ کمل ناتھ اور دگوجئے سنگھ بولڈہیں اور ریاست میں بی جے پی کےمفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ کانگریس کے صفایے سے ان کا صفایا ہوگا اور ریاست میں بی جے پی کے لئے میدان خالی ہو جائےگا۔ ‘کانگریس اور بی جے پی کے نفع-نقصان کے ساتھ-ساتھ سوال بی جے پی میں سندھیا کے مستقبل پر بھی ہے۔
گرجا شنکر کہتے ہیں،’ہر رہنما کا مستقبل اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔جہاں بھی اس کو جو ذمہ داری ملتی ہے، مستقبل وہاں اس کے مظاہرہ پر منحصر کرتا ہے۔بس ضروری یہ ہے کہ اس کی پارٹی اس کو مظاہرہ کا موقع دے۔ سندھیا کو روز مرہ کی سیاست نہیں کرنی ہے۔ ان کو دہلی کی سیاست کرنی ہے۔ ‘
پرکاش ہندوستانی کہتے ہیں،’ذاتی طور پر یہ فیصلہ سندھیا کے لئےفائدےمند ہے کیونکہ راجیہ سبھا میں وہ بھیجے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی بڑاعہدہ بھی ان کو مل سکتا ہے۔ بی جے پی بڑی پارٹی ہے، مان لیجئے کہ کانگریس کے وہ جنرل سکریٹری رہے ہیں، اب بی جے پی کے جنرل سکریٹری رہیں تو بی جے پی کا جنرل سکریٹری زیادہ اہم ہے کیونکہ مرکز میں اس کی حکومت ہے۔ ‘وہ آگے کہتے ہیں،’اس کے باوجود بی جے پی میں بھی ان کا کوئی خاص مستقبل نہیں دکھتا۔ بس یہ ہے وہ اپنی پھوپھیوں کے ساتھ ہو گئے ہیں اور پورا خاندان اب ایک ہی جماعت میں ہے۔ لیکن کانگریس میں تو ایسے حالات بن گئے تھے کہ ان کو لگنالازمی تھا کہ وہاں ان کا کوئی مستقبل ہی نہیں ہے۔ ‘
اپنی بات کی حمایت میں پرکاش کہتے ہیں،’سندھیا اپنے والدمادھوراؤسندھیا کے وقت پارٹی کے شروعاتی ممبر تک نہیں تھے، پھر بھی لٹئن زون میں رہتے تھے۔ پر اب ان کو راجیہ سبھا میں بھیجنے پر سوال اٹھ رہے تھے، وہ خود کوبےگھر سمجھ رہے تھے۔ کانگریس سے راجیہ سبھا پہنچنے پر بھی ان کو پارٹی میں ٹھیک عزت نہیں مل پاتی کیونکہ حالات ایسے بن گئے تھے کہ کمل ناتھ نے ان کے حامی وزراءکے بارے میں افسروں کو ہدایت دے رکھی تھی کہ مذکورہ وزراء کے کوئی کام نہ ہوں۔ وہ نام کے وزیر تھے اور سندھیا کو اس کا دکھ تھا کہ ان کی آواز پارٹی میں بالکل نہیں بچی ہے۔ ‘
شرون گرگ بھی بی جے پی میں سندھیا کے روشن مستقبل نہیں دیکھتے۔ وہ کہتے ہیں، ‘ وہ راجیہ سبھا ٹکٹ کے ساتھ اپنی پسندیدہ وزارت پا لیں، وہ الگ چیز ہے۔لیکن وہ ایک ٹیم ورکر نہیں ہیں اس لئے زیادہ حاصل کرنے میں دقت ہوگی۔ یہ بھی نہیں پتہ کہ کتنے لمبے وقت تک بی جے پی کا پاور سینٹر ان کی حمایت کرےگا۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ان کی پھوپھی وسندھرا بھی اب تک وزیر اعظم مودی کا اعتماد تک نہیں جیت پائی ہیں اور دوسری پھوپھی یشودھرا راجے سندھیا مدھیہ پردیش میں ایمانداری سےشیوراج سنگھ کے ساتھ کام کر رہی ہیں لیکن ہمیشہ ان کو بھی شکایت بنی رہتی ہے۔ ‘
ساتھ ہی شرون اس بات کا بھی امکان جتاتے ہیں کہ ریاستی بی جے پی میں کے بڑے نام سندھیا کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت نہیں دیںگے۔
وہ کہتے ہیں،’سب بہت ناراض ہیں۔ پربھات جھا کا راجیہ سبھا ٹکٹ کٹ گیا، جئے بھان سنگھ بھی ناراض ہیں۔ سندھیا کے آنے سے ایسے ہی بہت سے رہنماؤں کےسیاسی توازن بگڑ جائیںگے اور وہ سندھیا کو آرام سے کام نہیں کرنے دیںگے اور باربار اعلیٰ کمان تک شکایت لےکر پہنچیںگے۔ نہ ہی سندھیا کا اب ویسا رتبہ رہےگا کہ وہ یکطرفہ چنبل کے ٹکٹ بانٹیں۔
بہر حال راکیش دکشت، شرون گرگ کی ہی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتےہیں، ‘چمبل کے ٹکٹ ہی نہیں، کلکٹر تک سندھیا بدلتے تھے۔ لیکن اب ٹی آئی تک ان کےمطابق نہیں بنےگا کیونکہ بی جے پی میں سنگھ کے اشارے پر سب طے ہوتا ہے۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔ )