یہ ملک گیر لاک ڈاؤن کا آخری ہفتہ ہے۔ اس دوران سوشل میڈیا پر جاری نفرت اوربحثوں کے بیچ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بنا کسی مفاد کے راحت رسانی کے کام میں مصروف ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کی انوشکا ان میں سے ایک ہیں۔
یہ لاک ڈاؤن کے تیسرے ہفتے کی بات ہے۔ میرے دن کی شروعات بہت خراب ہوئی تھی کیونکہ میں نے کچھ ایسا کیا تھا، جو نہ کرنے کی میں نے حال ہی میں قسم کھائی تھی۔ میں نے فیس بک پر جھگڑا کیا تھا۔گزشتہ کئی سالوں میں نریندر مودی کے حامیوں سے ہوئی میری جھڑپوں سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہوئی اس طرح کی گرما گرمی سے شاید ہی کسی کی سوچ بدلتی ہے۔
لیکن اس ایک جھگڑے نے مجھے بےحد مایوس کیا۔ شاید اس لیےکہ یہ بحث کسی ‘بھکت’ سے نہیں بلکہ ایک لبرل سے ہوئی تھی۔میرا کہنا تھا کہ قومی بحران کے دوران ہمیں ایک متوسط طبقہ کی حیثیت سے بھوک اور ہمارے آس پاس اس سے جوجھ رہے لوگوں کے لیے تھوڑا اورحساس ہونا چاہیے اور شاید جو لذیذ کھانا ہم کھا رہے ہیں، اس کی تصویریں پوسٹ کرنے سے بچنا چاہیے۔ سامنے والے کا کہنا تھا، ‘اتنی اخلاقیات کی ضرورت نہیں ہے۔
جیسے جیسے یہ بحث بڑھی، غصہ بڑھا، مجھے یاد آنے لگا کہ کیوں مجھے لگتا ہے کہ زیادہ تر سوشل میڈیا پر ہونے والی لڑائیاں وقت اور توانائی کا زیاں ہیں۔شکر ہے کہ اسی وقت میرا فون بجا۔ یہ میری ایک پرانی دوست تھیں، جو اسکول پرنسپل ہیں۔ انہوں نے مجھے یہ پوچھنے کے لیے کال کیا تھا کہ کیا میں کوئی ایسی جگہ جانتا ہوں جہاں وہ اپنے بنائے ری یوزیبل کپڑے کے ماسک دے سکتی ہیں۔
میں نے یہ اطلاع ایک ریلیف نیٹ ورک پر ڈالی، جہاں فوراً ایک جواب آیا کہ ترکمان گیٹ پر غریبوں کے لیے کام کر رہے اس آدمی کو ان کی بے حد ضرورت ہے۔اب سوال تھا کہ یہ ماسک زمین پر کام کر رہے ان کارکنوں تک پہنچایا کیسے جائے کیونکہ اس وقت بہت ہی کم لوگوں کے پاس شہر میں یہاں وہاں جانے کے لیے پاس ہیں اور میں ان میں سے نہیں ہوں۔
میں نے فون میں نمبر ڈھونڈنے شروع کئے کہ کوئی ایسا مل جائے جو اس کام میں میری مدد کر سکے۔ تبھی مجھے ایک اسٹوڈنٹ کا نمبر ملا، جس کی مدد میں نے کچھ دن پہلے اپنے ایک ڈایبٹک دوست کو ارجینٹ دوائی پہنچانے کے لیے لی تھی۔اس نوجوان لڑکی کا نام انوشکا ہے اور وہ دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن کر رہی ہیں۔ اس وقت وہ ان کچھ لوگوں میں شامل ہیں، جنہیں پاس حاصل ہیں۔
انوشکا روز صبح جلدی کبھی کبھی چار بجے ہی گھر سے نکلتی ہیں شہر بھر میں کھانا، راشن اور دوائیاں بانٹنے کے لیے۔منگول پوری، شاہدرہ، مصطفیٰ آباد، مجنوں کا ٹیلہ، آئی پی ایکسٹینشن، پٹپڑگنج…آپ بس نام بتائیے، وہ شاید وہاں کھانا بانٹ کر آ چکی ہے۔ روز، کبھی اکیلے، کبھی دوستوں کے ساتھ… اپنی اسکوٹی پر۔
اس شام ماسک دینے کے دوران اپنی کالونی کے باہر ان سے ملاقات ہوئی۔ رات کے ساڑھے نو بج رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کب سے نکلی ہوئی ہیں۔
‘صبح 3.30 بجے سے،’ انہوں نے آگے بتانا شروع کیا، ‘جھگی والے علاقوں میں کھانا جلدی بنٹنا شروع ہو جاتا ہے اور اس لیے وہ لوگ ایم سی ڈی اسکول کے باہر صبح چار بجے سے لائن میں کھڑے ہو جاتے ہیں جس سے کہ کہیں وہ چھوٹ نہ جائیں۔ کئی بار جب تک وہ کاؤنٹر تک پہنچتے ہیں، کھانا ختم ہو جاتا ہے۔ ایسے میں گھر واپس جانے کے بجائے ان میں سے کئی دوبارہ کھانا نہ ملنے کے ڈر سے وہیں کھڑے ہوکر شام کا کھانا بنٹنے کا انتظار کرتے ہیں۔’
انوشکا صبح ان اسکولوں میں جتنے زیادہ لوگوں میں کھانا بانٹ سکتی ہیں، انہیں کھانا دینے جاتی ہیں۔ اس کے بعد وہ راشن اٹھاتی ہیں اور اس کوبانٹنے نکل پڑتی ہیں۔ہم جس سڑک پر کھڑے تھے وہ ویران تھی۔ سڑک کے کچھ کتے ہمارے آس پاس گھوم رہے تھے۔ نیلی لال بتی چمکاتی ایک پولیس وین دھیمے سے وہاں سے گزری۔ پولیس والے ہمیں وہاں کھڑا دیکھتے ہیں۔
مجھے تھوڑی تشویش ہوئی کہ اتناوقت ہو رہا ہے، سڑک پر ہمارے، کتوں اور پولیس والوں کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ لیکن انوشکا مجھ سے زیادہ پرسکون دکھ رہی ہیں۔میں آنکھ کے ہلکے اشارے سے پولیس وین کی طرف دیکھ کر ان سے پوچھتا ہوں، ‘… کیا ان لوگوں سے ڈر نہیں لگتا؟’ میں نے پولیس کے استحصال کی کئی کہانیاں سن رکھی ہیں۔
وہ کندھے اچکاتے ہوئے کہتی ہیں،‘عادت ہو جاتی ہے۔’ دوبارہ نیلی لال بتی چمکاتے ہوئے پولیس کی گاڑی ہمارے پاس سے نکلتی ہے۔
جب ہم کالونی کے گیٹ کے پاس اکلوتی سٹریٹ لائٹ کے نیچے کھڑے تھے، وہ مجھے کئی کہانیاں سناتی ہیں کہ کیسے شہر کے کئی علاقوں میں مسلم لڑکوں کو اٹھاکر انجان جگہوں پر لے جایا جا رہا ہے، کیسے اس وقت راحت کے کام میں لگے کارکنوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے… شہر میں کس طرح ڈر، مایوسی اور بھوک پھیلی ہوئی ہے۔
میں پرسکون رہنے کی کوشش میں گہری سانسیں لیتا ہوں۔ مجھے اچانک میری ماں، جو لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے میرے ساتھ رہ رہی ہیں، کے بنائے دو گوبھی کے پراٹھے یاد آئے۔اس شام جب میں نے انہیں بتایا تھا کہ ماسک لینے ایک اسٹوڈنٹ آئیں گی، تب انہوں نے یہ پراٹھے بناکر پیک کر دیےتھے۔ (وہ بھوکی ہوگی۔ یہ نئی عمر کے بچے کبھی وقت پر اپنا کھانا نہیں کھاتے۔)
میں نے انوشکا سے پوچھا کہ آخری بار کب کھانا کھایا تھا، جواب وہی تھا، جو میں نے سوچا تھا۔ ‘صبح،’ وہ کہتی ہیں۔ میں انہیں پراٹھے دیتا ہوں، وہ خوشی خوشی لے لیتی ہیں۔انوشکا کی عمر ان بچوں سے زیادہ نہیں ہوگی، جنہیں میں پڑھاتا ہوں۔ میں انہیں اندر بلاکر چائے نہ پلا پانے کے لیے معافی مانگتا ہوں۔ کالونی میں کسی بھی باہر والے کو آنے کی اجازت نہیں ہے۔
وہ صاف طور پر یہ بات سمجھتی ہیں اور مجھ سے کہتی ہیں کہ میں اس بات کی فکرنہ کروں۔ ابھی وہ قریب دو گھنٹے اور کام کریں گی۔ا نہیں کسی کو کچھ دوائیاں پہنچانی ہیں اور پھر میرے دیے، ماسک اس این جی او کو دےکر آنے ہیں، جو اگلے دن انہیں ترکمان گیٹ پر بانٹیں گی۔
میں ان سے کہتا ہوں کہ زیادہ دیر باہر نہ رہیں۔ وہ ماسک کے پیچھے سے مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ‘جی، بالکل، ویسے ہی جیسے کئی بار نوجوان آپکی بات پر مسکراکر کہتے ہیں۔ پھر وہ اسکوٹی پر بیٹھ کر آگے نکل جاتی ہیں۔میں ان کےبے لوث جذبے سے سرشار ہوں۔ میں ان کی سلامتی کے لیے دعا کرتا ہوں اور ان کی ہمت کے لیے اوپر والے کو شکریہ کہتا ہوں۔
انوشکا کی دیکھ بھال، شفقت اور بہادری بھرے کام کھانے کی میزوں اور فیس بک پر ہونے والی ہزاروں بحثوں کو شرمسار کرتے ہیں۔
(مضمون نگار ماہر تعلیم ہیں۔)
Categories: فکر و نظر