ہندوستان اور نیپال کے مابین موجودہ کشیدگی کی وجہ سے دونوں ملکوں کےسرحدی دیہاتوں کے مابین نقل و حمل بالکل ٹھپ ہے۔ دونوں طرف کے لوگ مانتے ہیں کہ اس کا نقصان عام لوگوں کو ہی اٹھانا پڑ رہا ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں سے ہندوستان-نیپال سرحد پر ہندوستان کے بلوا گواباری اور نیپال کے بنجرہا گاؤں کے مابین باندھ کی مرمت کا کام چل رہا تھا۔ یہ باندھ ہندوستان کے حصہ میں ہے۔لال بکیا ندی میں سیلاب کے امکانات کو دیکھتے ہوئے بہار سرکار ہر سال کی طرح اس بار بھی باندھ کی مرمت کا کام کر رہی تھی۔
تقریباً4 کیلومیٹر لمبے اس باندھ کے لگ بھگ 500 میٹر حصہ میں مرمت کا کام باقی تھا کہ 15 جون کو نیپال کے روتہٹ ضلع کے کچھ افسران نےاس کو روک دیا۔ایسا اس لیے ہوا کیونکہ سرحدی تنازعہ کو لےکر ہندوستان اور نیپال آمنے سامنے ہیں۔ لیپولیکھ، کالاپانی اور لمپیادھورا اپنے نئے نقشے میں شامل کرنے کے بعد نیپال نے بہار کے مشرقی چمپارن ضلع میں چل رہے باندھ کے کام کوروک دیا۔
اس کا کہنا ہے کہ ہندوستان نو مینس لینڈ پر باندھ کا کام کر رہا ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے مابین تلخی میں اضافہ ہوا ہے اور دونوں طرف سرحدی دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگی پر اس کا برا اثر پڑ رہا ہے۔نیپال کا کہنا ہے کہ ہندوستان نے بارڈرپلر نمبر346/6 سے 346/7 کے مابین نو مینس لینڈ پر پل کی توسیع کیا ہے اور آگے بھی نو مینس لینڈ میں تجاوزکرکے کام کر رہی ہے۔
نیپالی افسران کی جانب سےاعتراض کیے جانے کے بعد مشرقی چمپارن ضلع انتظامیہ نے فی الحال باندھ کی مرمت کا کام روک کر حکومت ہندکے وزارت داخلہ اور سروے آف انڈیاکو خط لکھا ہے تاکہ اس تنازعہ کو جلد حل کیا جاسکے۔مشرقی چمپارن ضلع کے ضلع مجسٹریٹ شیرشت کپل اشوک کا کہنا ہے کہ باندھ کی تعمیر کا لگ بھگ 99 فیصدی کام پورا ہونے کے بعد نیپال کی طرف سے اعتراض کیا گیا ہے۔ مقامی سطح پر بات چیت ناکام ہونے کے بعدمرکزی حکومت کوخط لکھا گیا ہے۔
دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق نیپال کی طرف سے پچھلے سال بھی اسی طرح کا اعتراض کیا گیا تھا۔تب ضلع انتظامیہ نے سروے آف انڈیاکے دہرادون واقع ہیڈکوارٹر کوخط لکھا تھا تاکہ سروے کراکر اس تنازعہ کوختم کیا جا سکے۔ لیکن ضلع انتظامیہ کے اس خط کا کوئی جواب نہیں ملا۔
دونوں ملکوں کے شہریوں کے اپنے اپنے دعوے
بلوا گواباری گاؤں کے باشندہ اور 63 سالہ بزرگ لکشمی ٹھاکر بتاتے ہیں کہ ہندوستان باندھ کی تعمیر کا کام اپنی زمین میں کر رہا ہے۔ نیپال کو دو پلر کے بیچ غلط فہمی ہو گئی ہے۔انہوں نے کہا، ‘ہو سکتا ہے کہ کبھی سیلاب میں پانی کے بہاؤ کی وجہ سے پلر تھوڑا سا ادھورادھر کھسک گیا ہو، لیکن تجاوزات کی بات بالکل غلط ہے۔ اس معاملے کی سچائی تو تبھی سامنے آئےگی جب دونوں ممالک کے افسران کی موجودگی میں سروے ہو۔’
گاؤں کے نائب مکھیا دیوانند پرساد کا کہنا ہے کہ اس کے پہلے ان کے گاؤں میں نیپال سے ایسا کوئی تنازعہ کبھی سامنے نہیں آیا۔ کبھی کبھار ہلکا پھلکا اعتراض ہونے پر دونوں ملک کے مقامی افسران ہی بات چیت سے اس کوسلجھا لیتے تھے، لیکن پتہ نہیں اس بار نیپال کس ملک کے اشارے پر ایسا کر رہا ہے۔
ادھر نیپال کے ایشنگر میونسپل کے بنجرہا گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان نے ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے۔اس گاؤں کے مکھیا بگو ساہ بتاتے ہیں،‘قبل میں دونوں ملکوں کے مابین سمجھوتہ ہوا تھا کہ جب بھی ہندوستان اپنی طرف باندھ کی تعمیر کام کرےگا تب نیپال سے پانی کی نکاسی کے لیے دو پل باندھ پر بنائے جا ئیں گے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اب سیلاب آنے پر ہمارا گاؤں ڈوب جاتا ہے اور پانی کی نکاسی میں وقت لگتا ہے۔’
ان کا کہنا ہے، ‘ہندوستان کی طرف سے گاؤں کے لوگوں نے باندھ کے کنارے گھر بنا لیا ہے۔ ان کے باندھ کی زمین میں گھر بن جانے کی وجہ سے وہ باندھ کی توسیع نو مینس لینڈ پر کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے ہمارے گاؤں سے پانی نکاسی کے بارے میں بھی سوچا ہوتا اور باندھ اپنی زمین پر بناتے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔’
سرحد پر کشیدگی سے عام لوگوں کو نقصان
سرحد پر تنازعہ کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین نقل وحمل بالکل بندہے۔ اس سے مقامی لوگوں کی زندگی پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ روزمرہ کی ضروریات،کاروبار سے لےکر کھیتی تک کو اس تنازعہ کی وجہ سے نقصان ہو رہا ہے۔بلوا گواباری کے لوگوں کی شکایت ہے کہ سرحدی تنازعہ کی وجہ سے ان کی کمائی ٹھپ ہو گئی ہے۔ یہاں کرانے کی دکان چلانے والے ارون کمار بتاتے ہیں کہ آج کل انہیں ہر روز خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں،‘عام دنوں میں ہر دن 2000-2500 روپے کی فروخت ہو جاتی تھی، لیکن اب مشکل سے 500 روپے کا کام ہوتا ہے۔’سرحدی بلوا گاؤں کے سنتوش ساہ بتاتے ہیں کہ وہ نیپال کے ایک شخص کی زمین بٹائی پر لےکر کھیتی کرتے ہیں، لیکن بارڈر بند ہونے اور دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کی وجہ سے وہ اس بار اپنے کھیت میں دھان کی روپنی نہیں کرا پا رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں،‘اگر کھیتی نہیں ہوئی تو ہمیں کہیں سے جگاڑ کرکے انہیں 10 ہزار روپے دینا پڑےگا اس لیے سرکاروں کو چاہیے کہ جلد سے جلد اس تنازعہ کو سلجھا کر آمدورفت شروع کریں۔’ادھر نیپال کے لوگوں کی زندگی بھی اس تنازعہ کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔ بنجرہا کے 63 سالہ راجیندر سنگھ کو شوگر اور بلڈ پریشر کی شکایت ہے، جس کا علاج بہار کے سیتامڑھی ضلع میں چلتا ہے، لیکن بندی کی وجہ سے وہ تین مہینے سے ڈاکٹر کو نہیں دکھا سکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں،‘میری دوائی ختم ہو گئی ہے، لیکن بندی کی وجہ سے ہم سرحد پار کرکے دوا بھی نہیں لا سکتے۔ کسی طرح سے سرکاروں کو اس تنازعہ کو ختم کرکے معاملہ سلجھا لینا چاہیے۔’
دونوں ملکوں کے آپسی رشتے کے بارے میں وہ بتاتے ہیں،‘ہمیں پہلی بار لگا ہے کہ ہمارے پاس کا گاؤں دوسرے ملک میں ہے۔ ہمارے مابین رشتہ اتنا مضبوط رہا ہے کہ ادھر نیپال میں جو درگا پوجا ہوتی ہے اس کی کمیٹی کے صدرہندوستان کے رہنے والے ہیں۔ ہمارے بازار میں زیادہ تر دکان چلانے والے لوگ ہندوستان کے ہی ہیں، لیکن لاک ڈاؤن اور اس کے بعد اس زمینی تنازعہ کی وجہ سے ہمیں ملے ہوئے کئی مہینہ ہو گیا۔’
اسی گاؤں کے چھوٹے لال مہتو کھاد بیج کی دکان چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ‘اس سال لاک ڈاؤن اور سرحد پر کشیدگی کی وجہ سے ہمارا پورا کاروبار چوپٹ ہو گیا ہے۔ ہر سال اس موسم میں ہماری دکان سے ڈیڑھ دو لاکھ تک کے کھاد اور بیج کی بکری ہو جاتی تھی، لیکن اس بار ایک کیلو بیج بھی نہیں بکا ہے۔ ہمارے پاس خود کے لیے بھی کھاد نہیں ہے۔ لوگ پچھلے سال کے بچے ہوئے بیج سے کام چلا رہے ہیں۔’
چھوٹے لال مہتو کا کہنا ہے کہ ہندوستان سے آنے والے کھاد بیج پر ہی اس علاقے کی کھیتی منحصر تھی، جو آج بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔چھوٹے لال بتاتے ہیں کہ نیپال سرکار انہیں یقین دہانی کرارہی ہے کہ ان کی پریشانیوں پرتوجہ دی جائےگی پر زمین پر کچھ نہیں دکھ رہا۔
بنجرہا گاؤں کے کشور پٹیل کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ساتھ تنازعہ بڑھنے سے ان کے لیے روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنامشکل ہو گیا ہے۔
وہ بتاتے ہیں،‘جو چاول ہم لوگ 30 روپے فی کیلو کے حساب سے ہندوستان کے بازار سے لےکر آتے تھے، وہی آج نیپال میں 45 روپے کے حساب سے خریدنا پڑ رہا ہے۔ ہم غریبوں کے اوپر ان دونوں ملکوں کے تنازعہ کا برا اثر پڑ رہا ہے۔’معلوم ہو کہ ہندوستان-نیپال کے مابین کھلی سرحد کی وجہ سے دونوں ملکوں کے بیچ کاروباری رشتے کافی مضبوط ہیں۔ نیپال اپنی ضرورت کا تقریباً90 فیصدی سامان ہندوستان سے امپورٹ کرتا ہے۔وہیں نیپال میں بنی 55-60 فیصداشیاہندوستان میں ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔
سال2015 میں مدھیش تحریک کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی ہونے سے نیپال کی معیشت کو شدید نقصان ہواتھا۔ اس بار بھی کچھ ایسی ہی صورتحال بن گئی ہے۔
نیپال اور ہندوستان کے رشتہ میں حالیہ تلخی کی شروعات تب ہوئی جب حکومت ہند نے اتراکھنڈ کے گھاٹیاباگڑھ سے لیپولیکھ درے کے مابین 80 کیلومیٹر لمبے سڑک کاافتتاح کیا۔نیپال کا کہنا تھا کہ بنا کسی بات چیت کے ہندوستان نے نیپال کی زمین میں سڑک بنا لیا ہے۔ اس کے بعد نیپال کے وزیر اعظم کےپی اولی نے ہندوستان کے خلاف کئی سخت بیان دیے۔
اس کے بعد نیپال کی پارلیامنٹ نے نیا نقشہ پاس کیا ہے، جس میں لیپولیکھ، لمپیادھورا اور کالاپانی کو نیپال کا حصہ بتایا گیا ہے۔ان سبھی کڑواہٹوں کے مابین نیپال کی پارلیامنٹ میں گزشتہ23 جون کوشہریت قانون پیش کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ نیپالی مردوں سے شادی کرنے والی غیرملکی خاتون کو شہریت دینے میں7 سال کا وقت لگےگا۔
ایسا مانا جا رہا ہے کہ ہندوستان-نیپال رشتہ کی کڑواہٹ کے درمیان ہندوستان کو نشانہ بنانے کے لیے یہ قانون لایا گیا ہے کیونکہ ہندوستان-نیپال کے سرحدی حصوں میں دونوں ملکوں کے بیچ شادی عام بات ہے۔
موجودہ تنازعہ کو کیسے دیکھتے ہیں ماہرین
ہندوستانی خارجہ سروس کے سابق افسر اور نیپال میں ہندوستان کے سفیر رہ چکے دیب مکھرجی کہتے ہیں،‘آج مشرقی چمپارن میں جس طرح باندھ روکنے کا معاملہ سامنے آیا ہے، اس طرح کے چھوٹے موٹے اعتراضات پہلے بھی نیپال دکی طرف سے کیے جا چکے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مقامی حکام کو بیٹھ کر اس کا حل کر لینا چاہیے۔ اس میں اس بات کا دھیان رکھا جانا چاہیے کہ کسی بھی ملک کا زیادہ نقصان نہ ہو۔’
دونوں ملکوں کے مابین آمد ورفت کی پابندی پر ان کا کہنا ہے کہ فی الحال تو کورونا وائرس کے ڈر کی وجہ سے بھی آمدورفت کم ہو رہی ہوگی، لیکن اگر سرحد ی تنازعہ کو لےکر آمدورفت بند کی گئی ہے تو دونوں ملکوں کو بات چیت کرکے اس کا حل نکالنا چاہیے۔سرحدی تنازعہ میں چین کے رول پر ان کا ماننا ہے کہ کوئی بھی ملک اگر اپنی سرحد کو لےکر بیدارہے تو اس میں کسی دوسرے ملک کا ہاتھ ماننا سہی نہیں ہے۔
وہ آگے کہتے ہیں،‘ہو سکتا ہے کہ نیپال کے وزیر اعظم چین کے دباؤ میں ایسا کر رہے ہوں، لیکن اس کے لیے انہیں نیپال کی عوام کو جواب دینا ہوگا۔ اس سے پہلے بھی نیپال اور ہندوستان میں اس طرح کی تلخی رہی ہے اور 2015 میں مدھیس تحریک کے وقت بھی اسی طرح دونوں ملک آمنے سامنے تھے۔
اس پہلو پر ڈنمارک میں نیپال کے سفیر رہ چکے اور فی الحال کاٹھمنڈو کے تربھون یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر وجئے کانت کرن اس تنازعہ میں چین کے رول کو مانتے ہیں۔وہ کہتے ہیں، ‘ظاہر ہے کہ وزیر اعظم کے پی اولی کا چین کے ساتھ نزدیکی رشتہ ہے۔ ان کی تازہ ہندوستان مخالف بیان بازی اور شہریت قانون سے ایسا لگتا ہے کہ وہ چین کے دباؤ میں ہوں۔’
موجودہ تنازعہ پر کہتے ہیں،‘ہندوستان کے ساتھ نیپال کے 99 فیصد سرحد پر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ بہار کے سستا اور اتراکھنڈ میں کالاپانی والے علاقے میں دونوں ملکوں کے مابین ٹکراؤ ہے۔ مشرقی چمپارن میں باندھ کی مرمت کے کام کو روکنے پر ان کا کہنا ہے کہ نیپال کا یہ حصہ سیلاب کے لحاظ سے حساس ہے اور ہندوستان کو ان حصوں سے پانی نکاسی کے لیے پل بنانا چاہیے تھا۔’
نیپال اورہندوستان کے بگڑتے رشتوں پر وجئےکانت کرن کہتے ہیں کہ ان دونوں ملکوں کے بیچ بیٹی روٹی کا رشتہ ہے اور کسی بھی رہنما کے بگاڑنے سے یہ رشتہ نہیں بگڑنے والا۔وہ کہتے ہیں، ‘ابھی جو تنازعہ چل رہا ہے وہ دونوں ملکوں کی سرکاروں کے بیچ ہے۔ نیپال کی عوا م کبھی بھی ہندوستان کے خلاف نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ کورونا سے نپٹنے میں ناکام رہے نیپال کے وزیر اعظم کے پی اولی ہندوستان مخالف ‘راشٹرواد’ کو ہوا دےکر ضروری مدعوں سے دھیان بھٹکا رہے ہیں۔’
(مضمون نگار کاروان محبت کی میڈیا ٹیم سے وابستہ ہیں۔)
Categories: فکر و نظر