حال ہی میں مرکزی حکومت نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ2005 کے تحت بنائے گئے نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ میں افراداور اداروں کے ذریعے چندہ دینےکو منظوری دی ہے۔ لیکن کووڈ 19جیسی آفت کے دور میں جب طبی سہولیات کی بہتری کے لیے اس میں جمع رقم کا استعمال کیا جا سکتا ہے، اس میں چندہ دینے کے بارے میں عوام کو بےحد کم جانکاری ہے۔
نئی دہلی: وزارت داخلہ نے حال ہی میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ،2005 کے تحت بنائے گئےنیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ (این ڈی آر ایف)میں افراد ااور اداروں کے ذریعےچندہ دینے کے عمل کو منظوری دی ہے۔اس کے تحت وزارت داخلہ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا(ایس بی آئی)میں ایک اکاؤنٹ کھولا ہے، جس میں چیک، نیٹ بینکنگ، آرٹی جی ایس، یوپی آئی وغیرہ سے ڈونیشن دی جا سکتی ہے۔
ابھی تک اس فنڈ میں صرف مرکزی حکومت ہی پیسےمختص کرتی آ رہی تھی، جس کوآفات سے نپٹنے کے لیے ریاستوں کے بیچ بانٹا جاتا تھا۔حالانکہ خاص بات یہ ہے کہ اس نئی اسکیم کو بےحد خاموشی سے تیار کیا گیا ہے اور کہیں بھی اس کا اشتہارنہیں دیا جا رہا ہے۔یہ فنڈ شفاف ہے کیونکہ اس پرآر ٹی آئی قانون، 2005 نافذ ہے اور اس کی آڈٹنگ کیگ کے ذریعے کی جائےگی۔
یہاں پر بڑا سوال یہ ہے کہ جب ہندوستان کورونا وائرس جیسی وبا سے جوجھ رہا ہے اور ملک میں ہیلتھ ایمرجنسی جیسی حالت بنی ہوئی ہے، ایسے میں حکومت اس نئے سسٹم کا اشتہار کیوں نہیں دے رہی ہے؟اس کے ذریعے لوگوں سے ملے چندہ کو حکومت موجودہ بدتر طبی نظام کی اصلاح میں کر سکتی ہے۔
ایسے میں قیاس لگائے جا رہے ہیں کہ کورونا وبا سے لڑنے کے نام پر عوام سے مالی مدد حاصل کرنے کے لیے بنائے گئے پی ایم کیئرس فنڈ میں ہی مودی حکومت چندہ حاصل کرنا چاہتی ہے، اس لیے اس کے بارے میں عوام کو نہیں بتایا جا رہا ہے۔حالانکہ پی ایم کیئرس فنڈ جس دن سے وجود میں آیا ہے، تنازعات میں ہے۔ اور اس کی اہم وجہ مرکزی حکومت کے ذریعے اس کے چاروں طرف بنی گئی رازداری ہے۔
اس فنڈ کا اشتہار وزیراعظم نریندر مودی سے لےکر وزرا،بی جے پی کے رہنماؤں،بی جے پی آئی ٹی سیل،حکومت ہندکے اداروں اور وزارت کی ویب سائٹس تک کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ملک کے نام خطاب میں مودی نے کئی بار پی ایم کیئرس میں مالی مدد دینے کے لیے عوام، کاروباریوں، سرکاری کمپنیوں وغیرہ سے اپیل کی ہے۔ اس کا اشتہارکرنے کے لیے بی جے پی جی توڑ کی محنت کر رہی ہے۔
وہیں دوسری طرف این ڈی آر ایف میں چندہ دینے کے عمل کو لےکروزارت داخلہ نے گزشتہ18 جولائی کو صرف ایک پریس ریلیز جاری کیا تھا، اور وہ بھی صرف انگریزی زبان میں۔ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)، جو آفات سے نپٹنے والی نوڈل ایجنسی ہے، کی ویب سائٹ پر کچھ دن پہلے تک این ڈی آر ایف میں چندہ دینے کے لیے ایک پوسٹر لگا ہوا تھا، جس میں مکمل تفصیلات موجود تھیں۔
لیکن 16 جولائی 2020 کو ویب سائٹ سے اچانک اس کو ہٹا لیا گیا اور این ڈی ایم اے نے اس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی۔دی وائر نے این ڈی ایم اے کے ممبرسکریٹری کو ای میل بھیج کر ایسا کرنے کی وجہ کے بارے میں پوچھا ہے۔اگروہاں سے کوئی جواب آتا ہے تو اس کو رپورٹ میں شامل کیا جائےگا۔
این ڈی آر ایف میں عوام کے ذریعےچندہ دینے کی سسٹم کی شروعات
ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ سال 2005 میں ہی پاس کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کی دفعہ 46(1)میں یہ اہتمام دیا گیا ہے کہ حکومت نیشنل ڈیزاسٹررسپانس فنڈ (این ڈی آر ایف)کی تشکیل کرےگی جس میں آفات سے لڑنے کے لیےمرکزی حکومت اورفرد/ادارہ اس میں چندہ دیں گے۔
اس کی تعمیل میں حکومت نے 27 ستمبر 2010 کو این ڈی آر ایف کی تشکیل تو کر دی، لیکن اس میں عوام یااداروں کے ذریعے ڈونیشن دینے کا سسٹم نہیں بنایا گیا تھا۔اس کو لےکر دی وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں سوال اٹھایا تھا کہ آخر کیوں اس ایکٹ کے بننے کے 15 سال کے بعد بھی آج تک کوئی اکاؤنٹ نہیں کھولا گیا ہے، جس میں لوگ ڈونیشن دے سکیں۔
ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کی دفعہ46(1)(بی)میں یہ اہتمام ہے کہ این ڈی آر ایف میں کوئی فردیاادارہ بھی چندہ دے سکتے ہیں۔اس سلسلے میں جانکاری حاصل کرنے کے لیے دی وائر اورکارکن کوموڈور لوکیش بترا (ریٹائرڈ)کی جانب سے کچھ آر ٹی آئی دائر کیے گئے تھے اورحکومت ہندکےسکریٹریوں کو خط لکھ کر ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی، جس کے بعد حکومت حرکت میں آئی اور وزارت خزانہ کے محکمہ اخراجات نے اس سلسلے میں ایک سسٹم کو منظوری دی۔
وزارت نےسکریٹری (ہوم ) اجئے کمار بھلہ کو خط لکھ کر کہا کہ اکاؤنٹ کھولنے کے سلسلےمیں وہ مناسب کارروائی کریں، تاکہ فرد اور ادارے بھی اس میں چندہ دے سکیں۔
اس کے کچھ دن بعد ہوم ڈپارٹمنٹ نے ایک اکاؤنٹ کھولا اور اس میں چندہ دینے کے عمل کو منظوری دی۔ لیکن یہ سب خاموشی سے ہی کیا گیا۔ پی ایم کیئرس فنڈ کی طرح اس کو کوئی گرینڈ اوپننگ نہیں دی گئی، جس سے کہ لوگوں کو اس کے بارے میں پتہ چل پاتا۔وزارت خزانہ نے این ڈی آر ایف کی طرح ایس ڈی آرایف(اسٹیٹ ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ)میں بھی عوام کے ذریعےچندہ دینے کی منظوری دی تھی۔ لیکن بعد میں اس کو واپس لے لیا گیا۔
بتراکے ذریعےآر ٹی آئی کے تحت حاصل کیے گئے دستاویزوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ این ڈی آر ایف میں کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی(سی ایس آر)فنڈ کو بھی ڈونیٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس فنڈ میں چندہ کو سی ایس آر خرچ مانا جائےگا۔اجئے بھلہ نے چار مئی 2020 کو اخراجات کے سکریٹری ٹی وی سوماناتھن کوخط لکھ کر اس کی منظوری دینے کے لیے کہا تھا۔
پی ایم کیئرس فنڈ کے برعکس این ڈی آر ایف کو پارلیامنٹ سے پاس کیے گئے قانون کے تحت بنایا گیا ہے، اس لیے اس پر آر ٹی آئی ایکٹ نافذ ہے اور یہ ایک پبلک اتھارٹی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ملی رقم اور خرچ کی آڈٹنگ کیگ کرتا ہے۔
پی ایم کیئرس فنڈ کی پرائیویسی
پی ایم کیئرس فنڈ کی مخالفت کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ حکومت اس سے متعلق بے حد بنیادی جانکاریاں( جیسے اس میں کتنی رقم ملی، اس رقم کو کہاں کہاں خرچ کیا گیا) بھی مہیا نہیں کرا رہی ہے۔پی ایم اوآر ٹی آئی ایکٹ کے تحت اس فنڈ سے متعلق تمام جانکاری دینے سے لگاتار منع کرتی آ رہی ہے۔
ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ پی ایم کیئرس آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔یہ حالت تب ہے جبکہ وزیر اعظم اس فنڈ کے صدر ہیں اور حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھےوزیر داخلہ،وزیر دفاع،وزیر خزانہ جیسے لوگ اس کے ممبر ہیں۔اس کے علاوہ اس فنڈ کا سرکاری دفتربھی پی ایم او میں ہی ہے۔ لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ اس فنڈ کی تشکیل‘ایک پرائیویٹ چیرٹیبل ٹرسٹ’کے طور پر کی گئی ہے، اس لیے اس کی جانکاری نہیں دی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ اس فنڈ کی آڈٹنگ کیگ سے نہیں، بلکہ ایک آزادانہ آڈیٹر کے ذریعے کرائی جائےگی۔اس کے کام کرنے کے طریقے کو خفیہ رکھنے کی حکومت کی کوششوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پی ایم او نے آر ٹی آئی کے تحت یہ جانکاری بھی دینے سے بھی منع کر دیا ہے کہ کس تاریخ کو اس فنڈ کو ٹرسٹ کے طور پر رجسٹر کیا گیا اور کس تاریخ سے اسے شروع کیا گیا۔
پی ایم اوکی جانب سےیہ بھی نہیں بتایا گیا ہے کہ کس قانون/ضابطہ کے تحت اس ٹرسٹ کو رجسٹر کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کرکے پی ایم کیئرس فنڈ میں ملی رقم کو این ڈی آر ایف میں ٹرانسفر کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ حالانکہ مرکزی حکومت نے اس کی مخالفت کی ہے۔
مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں پی ایم کیئرس کی تشکیل کو جائز ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ قانون کے تحت ایک قانونی فنڈیعنی نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ کے ہونےمحض سے رضاکارانہ چندہ کے لیے الگ فنڈے بنانے پر روک نہیں ہے۔انہوں نے اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ ایسے متعدد فنڈ ہیں، جن کو راحت کاموں کے لیے پہلے یا ابھی بنایا گیا ہے۔ پی ایم کیئرس ایسا ہی ایک رضاکارانہ چندہ والا فنڈہے۔
عرضی گزاروں نے کہا ہے کہ این ڈی آر ایف جیسے سرکاری سسٹم کے ہوتے ہوئے پی ایم کیئرس جیسے پرائیویٹ ٹرسٹ کی تشکیل مناسب نہیں ہے۔پارلیامنٹ کی بےحداہم پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بھی یہ تجویز رکھی گئی تھی کہ انہیں پی ایم کیئرس فنڈ کی جانچ کرنی چاہیے۔ کمیٹی میں شامل بی جے پی رہنماؤں نے اس تجویز کی شدید مخالفت کی اور پی ایم کیئرس فنڈ کی جانچ کرنے سے روک دیا۔
اس فنڈ پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ جہاں مختلف غیر سرکاری تنظیموں پر مختلف طریقے سے غیرملکی چندہ حاصل کرنے پر روک لگائی جا رہی ہے اور ایسا کرنے پر ان پر کارروائی بھی کی جاتی ہے، وہیں دوسری طرف پی ایم کیئرس فنڈ میں بڑی مقدار میں دوسرے ممالک سے پیسے آ رہے ہیں اور لوگوں کو اس کے بارے میں بتایا نہیں جا رہا ہے۔
کانگریس پارٹی نے الزام لگایا تھا کہ جہاں ایک طرف چینی فوج کے حملہ میں ہندوستانی فوج ہلاک ہوئے، وہیں دوسری طرف حکومت پی ایم کیئرس فنڈ میں چینی کمپنیوں سے بھاری بھرکم چندہ حاصل کر رہی ہے۔
Categories: فکر و نظر