سوسائٹی کے وہاٹس ایپ گروپ میں وہ خواتین عموماً گھرگرہستی سے جڑے مسئلے شیئرکیا کرتی تھیں۔ پتہ نہیں یہ کب اورکیسے ہوا کہ اپنی زندگی کےتمام مسائل کو چھوڑ کربالی ووڈ کی اقربا پروری کو ختم کرنا، سشانت سنگھ راجپوت کے لیے انصاف مانگنا اور عالیہ بھٹ کو نیست و نابود کر دینا ان عورتوں کا مقصد بن گیا۔
یہ کچھ 12 تاریخ کا واقعہ ہے۔شام 7 بجے کے آس پاس وہاٹس ایپ کی گھنٹی بجی۔سوسائٹی کی عورتوں کے گروپ میں ایک پیغام آیا تھا۔ایک نیوزآرٹیکل کا لنک شیئر کرتے ہوئے ایک عورت نے اپنی خوشی ظاہر کی تھی کہ کیسے پانچ گھنٹے کے اندر 3 ملین سے زیادہ لوگوں نے عالیہ بھٹ کی نئی فلم سڑک 2 کے ٹریلر کو ڈس لائیک کیا ہے۔
اس لنک کے ساتھ انہوں نے خود بھی اس ویڈیو کو ڈس لائیک کرنے کی جانکاری شیئرکی اور باقی عورتوں سے بھی ایسا ہی کرنے کو کہا۔ گروپ کی باقی عورتوں نے آگے بڑھ کر جانکاری دی کہ وہ پہلے ہی اس کام کو انجام دے چکی ہیں۔ایک کے بعد ایک الگ الگ لفظوں میں وہ سب ایک دوسرے سے یہ کہتی رہیں کہ عالیہ کا چہرہ کتنا خراب ہے، اس کو ایکٹنگ بالکل نہیں آتی۔ اس کے والدمہیش بھٹ دراصل پرورٹ ہیں، سنجے دت دہشت گردہے اور سب کو مل کر اس فلم کو ڈبو دینا ہے۔
اس گروپ میں چل رہے تمام پیغامات کا خلاصہ تھا کہ انہیں بالی ووڈ میں موجوداقربا پروری کو ختم کرنا ہے۔جس ملک میں سینکڑوں سالوں سے نالائق سے نالائق اولاد بھی باپ کے بزنس، گھر، جائیداد اورکام کی واحد وارث ہوتی رہی ہو، وہاں پچھلے کچھ دنوں سے صرف سنیما کی دنیا میں موجوداقربا پروری کو جس طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس الگ سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
لیکن میں تو یہاں کچھ اور ہی سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں کیسے میرےدیکھتے دیکھتے اس وہاٹس ایپ گروپ کا مزاج اورتیور بدل گیا۔صرف خواتین کے اس گروپ میں پہلے عورتیں ایک دوسرے سے کسی نزدیکی ٹیلر کا پتہ پوچھتی تھیں، جو اچھا بلاؤز سلتا ہو، تو کبھی یہ کہ ان کے بچہ کے اسکول کی فلاں کتاب کہاں ملے گی۔
اس گروپ میں کبھی بچوں کے ڈاکٹر، کبھی ڈینٹسٹ، تو کبھی گائنی کے نمبر کا لینا دینا ہوتا۔ عورتیں چٹکلے سناتیں، میم بھیجتیں، حالانکہ یہ سناتے ہوئے کئی بار وہ خود اپنا ہی مذاق اڑا رہی ہوتی تھیں۔دیوالی سے لےکرکروا چوتھ اور تہواروں تک کی خریداری، مہورت اورسجاوٹ اس گروپ کی زینت بنتی۔ سب ایک دوسرے کو بڑھ چڑھ کر کہتیں کہ وہ کتنی خوبصورت لگ رہی ہیں۔
ضروری نہیں تھا کہ آپ کسی کو نجی طور پر جانتے ہوں، تو ہی آپ کو مدد ملے۔ اس گروپ کا حصہ بنتے ہی آپ ان کی سہیلیوں میں شامل ہو جاتے۔میرا پیر ٹوٹا تو مجھے واکنگ اسٹک اس گروپ کی ہی کسی عورت نے بھجوائی، جن کی میں نے کبھی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ لپ اسٹک، آلتا سے لےکر بچہ کے کھلونے کی بیٹری اور ہوم ورک تک کا لین دین اس گروپ میں ہوا کرتا تھا۔
حالانکہ سوسائٹی کا ایک دوسرا گروپ بھی تھا، جس میں عورت-مرد سب شامل تھے اور وہ گروپ شروع سے ہی ریڈیکل تھا۔فوج اور پولیس کےریٹائرڈ انکلوں سے لےکر بڑے عہدوں پر بیٹھے موٹا پیسہ کمانے والے انکل لوگ بیچ بیچ میں جانکاریاں شیئر کرتے رہتے کہ مسلمانوں سے کس کس کو خطرہ ہے، کہ پاکستان کو ہم نے ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔
اور یہ کہ 2014 سے پہلے کیسے یہ ملک اندھیرے میں ڈوبا تھا اور اب کیسے مودی جی کی قیادت میں جلد ہی سونے کی چڑیا بننے والا ہے۔ عورتیں اس گروپ میں بھی تھیں، لیکن وہ شاید ہی کبھی ہندوستان -پاکستان کے جھمیلوں میں اپنی ناک گھساتی دکھیں۔چونکہ صرف عورتوں والے اس گروپ میں اپنا پرموشن کرنے یا کچھ بیچنے کی اجازت نہیں تھی، تو اس گروپ کا استعمال وہ اپنے ٹپرویئر کے ڈبوں اور ایم وے کے بیوٹی پروڈکٹ بیچنے کے لیے کرتی تھیں۔
انہیں قطعی فرق نہیں پڑتا اس بات سے کہ دنیا میں کہاں کہاں ہندوستان کی جئےکار ہو رہی ہے، جس کا ذکر ابھی دس منٹ پہلے فوج کے ایک ریٹائرڈ بزرگ نے کیا ہے۔ان کے بھیجے دیش بھکتی والے ویڈیو کو درکنار کرتی وہ فوراً چار ساڑی بلاؤز کی تصویریں چیپ دیتیں اور کہتیں، ‘پرائس کے لیے ان باکس کریں۔’
پتہ نہیں، یہ کب اور کیسے ہوا کہ اپنی زندگی کے باقی مسائل چھوڑکر بالی ووڈ کی اقربا پروری کو ختم کرنا ان عورتوں کا مقصد بن گیا۔ اپنے گھر اور بچوں کی فکر چھوڑ وہ عالیہ بھٹ کو نیست ونابود کرنے کی فکر کرنے لگیں۔سشانت سنگھ راجپوت کے لیے روز چار عورتیں انصاف مانگنے چلی آتیں۔اس کے کیس کی سی بی آئی جانچ کو منظوری کیا ملی، جیسے کوئی تہوار آیا ہو۔ سب ایک دوسرے کو لگی مبارکباد دینے۔
وہاں ایودھیا میں رام مندر کا سنگ بنیادرکھا گیا، یہاں گروپ میں جئے شری رام کے جئےکارے شروع ہو گئے۔ میں نے کچھ دبی آواز میں مخالفت کرنا چاہی تو الٹے ٹرول ہو گئی۔اب عالم یہ ہے کہ گروپ میں اگر کوئی عورت پوچھے کہ باتھ روم کے نل میں لگی زنگ کے لیے کوئی کیمیکل بتاؤاور میں جواب میں لکھ دوں، ‘سوڈیم ہائیڈرآکسائیڈ’ یا کاسٹک سوڈا، تو وہ پیغام اجتماعی طور پر نظر انداز اوراگنور کیا جاتا ہے۔
رام مخالف عورت سے توزنگ صاف کرنے کا نسخہ بھی نہ پوچھیں ہم!
گھرگرہستی اور شوہربچوں کی پریشانیوں والے اس گروپ کا بڑھتا ہواسیاسی شعور تھوڑا پریشان کن ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ یہ شعوران کا اپنا ہے یا وہ کسی اور کے سیاسی ایجنڈے کا شکار ہو رہی ہیں کیونکہ وہ ایجنڈہ ٹرینڈ میں ہے۔پوری ٹرول آرمی لگی ہوئی ہے یہ ثابت کرنے میں کہ اس وقت جب ملک میں کورونا متاثرین کی تعداد25 لاکھ پہنچ چکی ہے اور 50000 لوگ اس بیماری سے مر چکے ہیں، ہماری سب سے بڑی تشویش سشانت سنگھ راجپوت کو انصاف دلانا اور بالی ووڈ سے اقربا پروری کو ختم کرنا ہے۔
اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں۔ پہلا بہار کے آنے والے انتخاب اور دوسرا یہ کہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی اگر کہیں پر تخلیقی مزاحمت ممکن ہے تو وہ سنیما ہی ہے۔آئیڈنٹٹی پالیٹکس کا کام ہی ہے دیوار کھڑی کرنا اور آرٹ کا کام ہے ایک کرنا۔جب عورتیں مردوں کی زبان میں بات کرنے لگیں تو فکر ہوتی ہے کہ یہ زبان آ کہاں سے رہی ہے۔ سچ مچ ان کے دل پر چوٹ لگی ہے یا وہ ٹرینڈنگ کی چپیٹ میں ہیں۔
انہیں تکلیف کس بات سے اتنی ہو رہی ہے کہ سشانت بہار کے معمولی متوسط گھرسے ہے اور عالیہ ممبئی کے کامیاب فلمی فیملی سے اور ان دونوں کی زندگیوں کا فرق وہی ہے جو انڈیا اور بھارت کا ہے۔لیکن اگر یہ فکر انڈیا اور بھارت کے بیچ کھڑی دیوار کی ہے، تو اتنی فکر تب تو عورتوں نے بھی نہیں دکھائی، جب لاک ڈاؤن میں انڈیا تالی بجا رہا تھا اور بھارت بھوکھا پیاسا سینکڑوں کیلومیٹر پیدل چل کر اپنے گاؤں گھر واپس جا رہا تھا۔
ہمارا ملک، ہمارے آس پاس کی دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے، لیکن سب سے زیادہ تشوش ناک ہے یہ دیکھنا کہ کیسے ہماری پہچان کی جگہیں، چاہے وہ فیملی کے وہاٹس ایپ گروپ ہوں، دوستوں کی محفل یا صرف عورتوں کا نجی، محفوظ اسپیس، سب اس ایجنڈے کا شکار ہو رہے ہیں۔
بات چیت کی جگہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ تھوڑا سااختلاف درج کرنے پر آپ ٹرول کر دیےجاتے ہیں۔یہی عورتیں کبھی فلم ‘راضی’ میں عالیہ کی ایکٹنگ کی تعریف کرتے نہیں تھکتی تھیں۔ ‘ڈیئر زندگی’ دیکھ کر اسے کیوٹ کہتیں۔ اپنی جنسی ہراسانی کی کہانی بھلے نہ سنائیں، لیکن ‘ہائی وے’ کی پٹاخہ گڈی انہیں بھلی سی، اپنی سی لگتی تھی۔
ان کا اور ان کے گھر کا سیاسی رجحان چاہے جو رہا ہو، کم سے کم عالیہ کا اس سیاسی رجحان سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اب اقربا پروری کی آڑ میں وہ سب نشانے پر ہے، جو موجودہ سیاست کی مین اسٹریم کے خلاف میں ہے۔مہیش بھٹ کا نام بالی ووڈ کے ان لوگوں میں شامل ہے، جنہوں نے 2014 کےانتخاب سے پہلے اس ملک کی عوام سے دانش مندی کے ساتھ ووٹ کرنے کی اپیل کی تھی۔
انہیں ڈر تھا،بہتوں کو تھا ڈر تو کیا وہ سارے ڈر اب ایک ایک کرکے سہی ثابت ہو رہے ہیں۔میرا ڈر کچھ اور ہے۔ مردوں اور ٹرولس کی محفل میں ویسے بھی ہم عورتوں کے لیے کبھی قابل احترام جگہ نہیں تھی، لیکن اب وہ ٹرول، ہمیں اپنے ہی گھروں سے بےدخل کرتے زنان خانے میں بھی گھس آئے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر