اتر پردیش کے بہرائچ کے رہنے والے طالبعلم محمد مصباح ظفر کو پولیس نے 14 اگست کی آدھی رات کو حراست میں لیا تھا۔ ویسے تو ظفر کے خلاف کوئی معاملہ درج نہیں کیا گیا ہے، لیکن پولیس نے انہیں 12 گھنٹے حراست میں رکھا تھا۔
نئی دہلی: اتر پردیش پولیس کے ذریعے74ویں یوم آزادی سے ایک رات پہلے صحافت کے ایک طالبعلم کو سرکار اور آر ایس ایس کی تنقید کرنے کی وجہ سے12 گھنٹے تک حراست میں رکھنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ 14 اگست کو حیدرآباد میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں صحافت کے پہلے سال کے طالبعلم محمد مصباح ظفر نے 15 اگست کو ایک پروگرام کے لیے ایک پوسٹرشیئر کیا تھا۔
یوم آزادی کے موقع پر ‘انڈیپینڈینس ڈے میسیج’ نام سے ایک فیس بک لائیو کامنصوبہ بنایا گیا تھا۔ اس پروگرام میں کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے قومی سکریٹری کلیم تمکر کی ایک تقریرہونی تھی۔ اس طلبہ تنظیم کاقیام پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی)کی رہنمائی میں ہوا تھا۔
پی ایف آئی کا دعویٰ ہے کہ وہ سامراجیت اورفاشزم کے خلاف جدوجہد کرتا ہے۔ حالانکہ کچھ ریاستی سرکاروں کی جانب سے اس کو ایک شدت پسند اسلامی تنظیم کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔
کیرل، دہلی اور حال ہی میں کرناٹک میں پولیس نے الزام لگایا ہے کہ اس تنظیم کے لوگ پرتشدد سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ کئی ریاستی سرکاروں نے اس پر پابندی لگانے کی سفارش کی ہے، لیکن پی ایف آئی(ایس ڈی پی آئی جیسے مورچوں کے ساتھ)ایک قانونی تنظیم بنی ہوئی ہے۔
متذکرہ پروگرام کا ٹوئٹر ہیش ٹیگ #RSSseAzadi اور #HindutvaGovtseAzadi تھا۔
غورطلب ہے کہ 15 اگست کو رات 2:20 بجے لگ بھگ دس پولیس اہلکار اتر پردیش کے بہرائچ میں ظفر کی رہائش پر پہنچے۔ظفر نے دی وائر کو بتایا،‘وہ آدھی رات کے بعد آئے اور دروازہ کھٹکھٹانے لگے۔ جب میرے بڑے بھائی نے دروازہ کھولا، تو پولیس اہلکاروں نے کہا کہ وہ مجھ سے پوچھ تاچھ کرنا چاہتے ہیں اور یہ بھی کہا کہ اگر میں آزادی چاہتا ہوں، تو میں جیل جاؤں، ‘ہم (پولیس)اسے (مصباح ظفر)آزادی دیں گے۔’
ظفر نے آگے بتایا، ‘تھانے لے جاتے وقت پولیس اہلکاروں نے غیرمہذب زبان کا استعمال کیا اور مجھ سے پوچھا، کھانا اورپناہ دینے کے لیے میں حکومت ہند کےتئیں شکرگزار کیوں نہیں ہوں؟ کیا آپ عمران خان کے قوانین کو ہندوستان میں نافذ کرنا چاہتے ہیں؟یہ سب کرنے کے لیے کون سی تنظیم آپ کے پیچھے ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں صرف سرکار کی تنقید کر رہا تھا اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ ملک مخالف ہے، تو یہ آپ کا مسئلہ ہے۔’
پولیس نے طفر کوتقریباً 12 گھنٹے پولیس اسٹیشن میں حراست میں رکھا تھا۔پولیس نے ظفر سے ایک معافی نامہ لکھنے کے لیے کہا، جس کو لےکر وہ تذبذب میں تھے کیونکہ انہیں نہیں لگ رہا تھا کہ انہوں نے کچھ غلط کیا ہے۔
ظفر نے کہا،‘وہ چاہتے تھے کہ میں یہ لکھوں کہ میرے ذریعے لکھی گئی چیزوں کی وجہ سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور ایسا کرنا میرا مقصد نہیں تھا۔ انہوں نے مجھے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں یہ سب نہیں لکھوں گا تو وہ مجھ پرسیڈیشن کاالزام لگائیں گے اور میرے والد کی ملکیت ضبط کر لیں گے۔’
انہوں نے کہا، ‘ایسا کب سے ہونے لگا کہ سرکار کی تنقید کرناملک مخالف ہے؟’
مجرمانہ کارروائی کی دفعہ151 کے تحت ضلع مجسٹریٹ کے سامنے چالان کیے جانے کے بعد ہی ظفر کو پولیس اسٹیشن سے چھوڑنے کی اجازت دی گئی تھی۔ حالانکہ ظفر کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی بھی سمجھ نہیں آیا ہے کہ ان کا جرم کیا تھا، اور کیا پولیس کے ذریعے12 گھنٹے سے زیادہ حراست میں رکھنا ٹھیک تھا۔
جرول روڈ پولیس اسٹیشن کے ایک افسر نے د ی وائر کو بتایا،‘شکایت کرنے والا کون تھا یہ ایک نجی معاملہ ہے اور اسے عوامی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے ان کے خلاف کوئی معاملہ درج نہیں کیا، ہم نے بس انہیں پولیس اسٹیشن بلایا اور صلاح دی کہ وہ ایسا کچھ بھی نہ کرے جس سے مستقبل میں لوگوں کے جذبات مجروح ہوں ۔’
حالانکہ اسٹیشن آفیسر نے یہ تصدیق کی کہ معاملے میں کئی شکایت گزار تھے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں
Categories: خبریں