پارلیامانی کمیٹی برائےانفارمیشن ٹکنالوجی کی مجوزہ میٹنگ میں شہری حقوق کے تحفظ اورسوشل میڈیا پلیٹ فارمز کےغلط استعمال پر روک لگانے پر تبادلہ خیال کیا جائےگا۔وہیں اس کمیٹی کے ممبر اوربی جے پی رہنما نشی کانت دوبے نے اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ششی تھرور کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
نئی دہلی: بی جے پی کے کچھ رہنماؤں کے ہیٹ اسپیچ کونظرانداز کرنے کےالزامات کا سامنا کر رہےسوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کو کانگریس رکن پارلیامان ششی تھرور کی صدارت والی انفارمیشن ٹکنالوجی پر پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے اس موضوع پر تبادلہ خیال کے لیے آئندہ دو ستمبر کو طلب کیا ہے۔
اس سے ایک دن پہلے یہ کمیٹی انٹرنیٹ بند کرنے سے متعلق مدعوں پر بھی تبادلہ خیال کرےگی۔فیس بک کے علاوہ پارلیامانی کمیٹی برائےانفارمیشن ٹکنالوجی نےوزارت برقیات وانفارمیشن ٹکنالوجی، حکومت ہند کے نمائندوں کو بھی دو ستمبر کو مجوزہ میٹنگ میں موجود رہنے کو کہا ہے۔
میٹنگ میں شہری حقوق کے تحفظ اورسوشل میڈیا پلیٹ فارمز کےغلط استعمال پر روک لگانے پر تبادلہ خیال کیا جائےگا، جس میں ڈیجیٹل ورلڈ میں خواتین کے تحفظ پرخصوصی زور دیا جائےگا۔میٹنگ کایہ نوٹیفکیشن اس دن آیا جب پارلیامانی کمیٹی کے سربراہ ششی تھرور کے خلاف بی جے پی ایم پی نشی کانت دوبے نے لوک سبھا اسپیکراوم برلا کو خط لکھ کر انہیں کمیٹی سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔
برلا کو لکھے خط میں ضابطوں کا حوالہ دیتے ہوئے دوبے نے ان سے گزارش کی ہے کہ وہ تھرور کی جگہ پر کسی دوسرے ممبر کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کریں۔بی جے پی رہنما کاالزام ہے کہ جب سے تھرور اس کمیٹی کے سربراہ بنے ہیں تب سے وہ اس کے کام کاج کوغیرپیشہ ورانہ طریقے سے آگے بڑھا رہے ہیں اور افواہ پھیلانے کا اپنا سیاسی پروگرام’چلا رہے ہیں اور ‘میری پارٹی کو بدنام’ کر رہے ہیں۔
لوک سبھا سکریٹریٹ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق مجوزہ بیٹھک میں مواصلات اور وزارت داخلہ کے حکام کے علاوہ بہار، جموں وکشمیر اور دہلی کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔
غورطلب ہے کہ وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں فیس بک کی جنوبی اور وسط ایشیاانچارج کی پالیسی ڈائریکٹرآنکھی داس نے بی جے پی رہنما ٹی راجہ سنگھ کے خلاف فیس بک کے ہیٹ اسپیچ ضابطوں کے نفاذکی مخالفت کی تھی کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اس سے کمپنی کے رشتے بی جے پی سے خراب ہو سکتے ہیں۔
ٹی راجہ سنگھ تلنگانہ اسمبلی میں بی جے پی کے واحد ایم ایل اے ہیں اور وہ اپنے فرقہ وارانہ بیانات کے لیے معروف ہیں۔امریکی اخبار کی اس رپورٹ میں فیس بک کے کچھ سابق اور کچھ موجودہ ملازمین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ آنکھی داس نے اپنے اسٹاف کو بتایا کہ مودی کے رہنماؤں کی جانب سےضابطوں کی خلاف ورزی پر کارروائی کرنے سے ہندوستان میں کمپنی کے کاروباری امکانات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں فیس بک کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بی جے پی کے ایک رہنما اور دیگر‘ہندو نیشنلسٹ لوگوں اور گروپوں’کی نفرت بھری پوسٹ کو لےکر ان پر فیس بک کے ہیٹ اسپیچ ضابطہ لگائے جانے کی مخالفت کی تھی۔اس رپورٹ کے بعد سے کانگریس اور بی جے پی کے بیچ الزام تراشیاں شروع ہو گئی ہیں۔ کانگریس رہنما راہل گاندھی نے رپورٹ کو لےکر بی جے پی اورآر ایس ایس پر فیس بک اور وہاٹس ایپ کا استعمال کرتے ہوئے رائے دہندگان کو متاثر کرنے کے لیے‘فرضی خبریں’ پھیلانے کاالزام لگایا۔
کانگریس نے گزشتہ منگل کو فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ کوخط لکھ کر اس رپورٹ کے سلسلے میں جانچ کرنے کو کہا ہے۔کانگریس کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال کی جانب سے لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک یا دو مہینے کے اندریہ جانچ پوری کی جانی چاہیے اور اس رپورٹ کوعوامی کیا جائے۔
کانگریس نے اپنے خط میں کہا ہے کہ وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ سے صاف ہے کہ فیس بک انڈیا کی موجودہ قیادت نے بی جےپی کے رہنماؤں کی جانب سے پھیلائے جا رہے ہیٹ اسپیچ کو لےکر نرمی برتی ہے۔ یہ ہندوستان کی انتخابی جمہوریت میں فیس بک کے ذریعے دخل اندازی ہے۔
وہیں، اخبار کی اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد ہی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سربراہ اور کانگریس رہنما ششی تھرور نے کہا تھا کہ وہ اس معاملے میں فیس بک کی دلیل سننا چاہیں گے۔تھرور نے کہا تھا کہ یہ معاملہ اس کمیٹی کے دائرہ اختیار میں ہے اور جب کمیٹی اپنا کام کاج شروع کرےگی تو اس معاملے پر ضرور تبادلہ خیال کیا جائےگا۔
حالانکہ کمیٹی کے بی جے پی ممبروں (نشی کانت دوبے)کا کہنا ہے کہ اسٹینڈنگ کمیٹی تب تک کسی معاملے پرتبادلہ خیال نہیں کر سکتی ہے جب تک اس کے ممبروں میں رضامندی نہ بن جائے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں کمیٹی کے چیئرمین یک طرفہ فیصلہ نہیں لے سکتے ہیں۔
اس معاملے میں تنازعہ بڑھنے کے بعد فیس بک انڈیا نے صفائی دی ہے کہ اس کے پلیٹ فارم پر نفرت یا دشمنی پھیلانے والوں ایسے بیانات اورمواد پرروک لگائی جاتی ہے، جن سے تشددپھیلنے کا خدشہ رہتا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں