گزشتہ14اگست کو اعظم گڑھ ضلع کے ترواں تھانہ حلقہ کے بانس گاؤں کے پردھان ستیہ میو جیتے کو گولی مارکر ہلاک کر دیا گیا۔ شیڈول کاسٹ سے آنے والے پردھان کے اہل خانہ کاالزام ہے کہ گاؤں کے نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں نے ایسا یہ پیغام دینے کے لیے کیا کہ آگے سے کوئی دلت بے حوفی سے کھڑا نہ ہو سکے۔
‘میرا بھائی بہت سیدھا تھا لیکن وہ ہمیشہ سچ کے ساتھ کھڑا رہنے والا تھا۔ ناانصافی کے آگے جھکتا نہیں تھا۔ پتاجی نے شاید یہی مزاج دیکھ کر اس کا نام ستیہ میو جیتے رکھا تھا۔ اس نے پوری زندگی سچ کا ساتھ دیا۔ اس سے کوئی غلط کام نہیں کرا سکتا تھا۔
میں ہر روز رات کو فون کرکےاس کا حال چال لیتا تھا۔ اس کے قتل کے ایک دن پہلے 13 اگست کی رات میں نے اس کو فون کیا تھا۔ مجھے وہ کچھ پریشان لگا، پوچھا کہ طبیعت تو نہیں خراب ہے؟ وہ بولا کہ سب ٹھیک ہے۔ اپنی پریشانیاں شیئرنہیں کرتا تھا۔
چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے کہ میرے پاس خبر آئی کہ پردھان جی کو مار دیا گیا۔ ستیہ میو جیتے نے گاؤں کے ایک مجرم کو کیریکٹر سرٹیفکیٹ اوررہائشی سرٹیفکیٹ دینے سے منع کر دیا تھا۔اس کا قتل دلتوں پر دبدبہ قائم کرنے کے لیے کیا گیا ہے اور ساتھ میں پیغام دینے کے لیے کہ آگے کوئی دلت بےخوفی سے کھڑا نہ ہو سکے۔’
رام پرساداعظم گڑھ ضلع کے ترواں تھانہ حلقہ کے بانس گاؤں کے پردھان ستیہ میو جیتے کے سب سے بڑے بھائی ہیں۔ ستیہ میو جیتے کی 14 اگست کو نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں نے گولی مارکر ہلاک کر دیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ 62 سالہ رام پرساد فوج میں حولدار تھے۔ اب ریٹائر ہو چکے ہیں اور فیملی کے ساتھ وارانسی میں رہتے ہیں۔ چھوٹے بھائی کے قتل کی خبر ملنے کے بعد وہ فوراً وارانسی سے چل پڑے تھے۔
رنج اورغصےمیں ڈوبے رام پرساد کہتے ہیں،‘ستیہ میو جیتے کے قتل کے بعد تین بھائیوں کی فیملی یتیم ہو گئی ہے۔ میں باہر رہتا ہوں۔ والد بیمار ہیں اور بستر پر ہیں۔ منجھلے بھائی کا پہلے ہی بلڈ کینسر سے انتقال ہو چکا ہے۔ ستیہ میو ہی بیوہ بھابھی اور ان کے بچوں،والدین سمیت اپنی فیملی کی دیکھ ریکھ کرتے تھے۔’
یوم آزادی کے پہلے والی شام پر ہوا ستیہ میو جیتے کا قتل
ملک میں جب یوم آزادی منائے جانے کی تیاریاں چل رہی تھی، تبھی بانس گاؤں کے پردھان ستیہ میو جیتے عرف پپو کو گاؤں کے شری کرشن کالج کے پیچھے گولی ماری گئی۔قاتل دلت گرام پردھان کے لیے اتنی زیادہ نفرت سے بھرے ہوئے تھے کہ ان کے سر اور سینہ میں چھ گولیاں ماری گئیں۔ اس کے بعد قاتل پاس کے ہی کھیت میں کام کر رہی ان کی ماں کے پاس گئے اور بولے، ‘جاؤ دیکھ لو، تیرے بیٹے کو مار دیا ہے۔ اس کی لاش کے پاس بیٹھ کر رو لو۔’
واقعہ14 اگست کو شام 5.15 بجے کے آس پاس کا ہے۔ ایک ملزم ستیہ میو جیتے کو بلانے آیا تھا۔ وہ پہلے بھی گھر آ چکا تھا، اس لیے ستیہ میو جیتے کو اس پرشک نہیں ہوا اور وہ ساتھ چلے گئے۔بتایا گیا کہ اس کے بعد کچھ دور جانے کے بعد ایک ٹیوب ویل کے پاس سوریانش دوبے اور اس کے ساتھی وہاں سے انہیں زبردستی اٹھاکر کالج کے پاس لے گئے۔ وہاں ستیہ میو جیتے کو گولی مارکر قاتل فرار ہو گئے۔واقعہ کے چھ دن بعد تک ایک ملزم گرفتار ہوا ہے۔
اس واقعہ کے بعد گاؤں کے لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا۔ پولیس کا الزام ہے کہ گاؤں سے ڈیڑھ کیلومیٹر دور پولیس چوکی پر پتھراؤ اور آگ زنی کی گئی۔گاؤں میں اسی بیچ ہوئی بھگدڑ کے دوران گاؤں کے 12 سالہ سورج کی ایک گاڑی سے کچل کر موت ہو گئی۔گاؤں والوں کاالزام ہے کہ جس گاڑی سے کچل کرسورج کی موت ہوئی وہ پولیس کی تھی۔ پولیس کی گاڑی پر سی او لکھا ہوا تھا۔ حالانکہ پولیس نے اس سے انکار کیا ہے۔
سورج کے والد مزدور ہیں۔ لاک ڈاؤن میں کافی وقت تک وہ گاؤں میں رہے۔ مزدوری کے لیے وہ اور ان کے بھائی 14 اگست کو ہریانہ جا رہے تھے۔کچھ دور ہی گئے ہوں گے کہ فون آیا کہ پردھان کا قتل ہو گیا ہے اور ان کے بیٹے سورج کی جیپ سے کچل کر موت ہو گئی ہے، جس کے بعد وہ واپس لوٹ آئے۔
سورج کے چچازاد بھائی راکیش نے بتایا کہ وہ جائے وقوع پر موجود نہیں تھا لیکن وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ سی او لکھی پولیس کی گاڑی سے ہی کچل کر سورج کی موت ہوئی۔راکیش نے کہا، پردھان ستیہ میو کےقتل کی خبر سننے کے بعد گاؤں کے تمام لوگ جائے وقوع کی طرف دوڑ پڑے تھے۔ سورج پہلے سے بازار کی طرف گیا ہوا تھا۔ وہ بھی وہاں گیا۔ اسی وقت یہ واقعہ ہوا۔’
راکیش نے بتایا کہ پولیس نے ایف آئی آر میں نامعلوم گاڑی سے سورج کی کچل جانے سے موت ہونا بتایا ہے۔ سرکار کی جانب سے انہیں پانچ لاکھ روپے کے معاوضہ کا چیک دیا گیا ہے۔
مجرمانہ بیک گراؤنڈ والے سوریانش نے مانگے تھے کریکٹر سرٹیفکیٹ پر دستخط
رام پرساد نے بتایا کہ ان کا گاؤں دلت اکثریتی ہے۔ دلتوں کے 350 سے زیادہ گھر ہیں جبکہ نام نہاد اونچی ذات کے 100 سے کم گھر ہیں۔
رام پرساد بتاتے ہیں،‘سوریانش دوبے ستیہ میو کے پاس کریکٹرسرٹیفکیٹ اوررہائشی سرٹیفکیٹ بنوانے کے لیے آیا تھا اور بولا کہ اس پر دستخط کر دو۔ سوریانش کے خلاف قتل سمیت کئی معاملے درج ہیں۔ ستیہ میو اس بات کو جانتے تھے اس لیے انہوں نے دستخط کرنے سے منع کر دیا۔ اس سے وہ ناراض ہو گیا اور انہیں دھمکی دی۔’
وہ آگے بتاتے ہیں، ‘شروع سے ہی گاؤں میں دلتوں کی اکثریت کے باوجود اونچی ذات کے لوگ اپنا دبدبہ بنائے رکھتے تھے۔ گاؤں میں ستیہ میو جیتے کے پہلے دو دہائی سے زیادہ وقت تک اونچی ذات کے لوگ ہی پردھان چنے جاتے رہے۔ ایک بار ایک دلت پردھان چنا گیا تھا لیکن وہ ان کا ربر اسٹامپ ہی بنا رہا۔’
انہوں نے بتایا،‘ستیہ میو جیتے اپنے دم پر پردھان بنے تھے اور آزادانہ طور پر کام کر رہے تھے۔ یہ بات دبنگوں کو ناگوار گزر رہی تھی۔ انہیں اس بات کا رنج تھا کہ کیسے ایک دلت پردھان چن لیا گیا جو اپنے دماغ سے کام کرتا ہے اور ہماری چاکری نہیں کرتا۔’انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان نام نہاد اونچی ذات کے کچھ لڑکےاکثر گاؤں میں دلتوں کے ساتھ مارپیٹ و لڑکیوں کے ساتھ چھیڑخانی کرتے تھے، ستیہ میواس کی مخالفت کرتے تھے۔
سابق ایم پی کے معاون رہے ہیں ستیہ میو جیتے کےوالد
ستیہ میو جیتے کے والدرام سکھ رام پانچویں تک پڑھے ہیں اور اب تقریباً 90 سال کے ہیں۔جسمانی طور پر معذور ہو چکے رام سکھ اب بس چارپائی پر لیٹے رہتے ہیں۔حالانکہ اپنے دور میں وہ سیاسی اور سماجی طور پر کافی متحرک تھے۔ رام سکھ رام سابق ایم پی ا ور وزیر اعظم وی پی سنگھ کے قریبی رام دھن کے کافی قریبی رہے۔
امبیڈکر کو آئیڈیل ماننے والے رام سکھ بھی ایک بار پردھان کا چناؤ لڑے تھے، لیکن کامیاب نہیں ہو پائے۔ بیٹے ستیہ میو جیتے نے ان کاخواب پورا کیا اورپردھان بنے۔انہوں نے اپنے اور اپنے بھائیوں کے بچوں کوتعلیم سے جوڑا۔ اس وجہ سےفیملی کے تمام ممبر تعلیم کے شعبہ میں آگے بڑھے اور سرکاری اور نجی نوکریوں میں گئے۔ خود ستیہ میو جیتے ایم اے تک پڑھے تھے۔
ستیہ میو جیتے کے چچازاد بھائی نیرج نے بتایا کہ انہوں نے لکھنؤ میں ایک پالی ٹیکنک سے پڑھائی پوری کی ہے۔ ان کے بھائی نے آئی ٹی آئی سے پڑھائی پوری کرنے کے بعد گریجویشن کیا ہے۔ ایک بھائی کیندریہ ودیالیہ میں ٹیچر ہیں۔فیملی کے دو اور لوگ ٹیچر ہیں۔ ایک ممبر کولکاتہ میں کام کر رہے ہیں۔
نیرج بتاتے ہیں، ’14 اگست کو شام چار بجے تک ستیہ میو کے ساتھ ہی تھا۔ اس کے بعد وہ گھر چلے گئے۔ میں بھی واپس آ ہی رہا تھا کہ میرے والد نے فون کرکے کہا کہ انہیں مار دیا گیا ہے۔ میں جب موقع پر پہنچا تو دیکھا کہ ستیہ میو جیتے خون سے لت پت پڑے ہیں۔ ان کی موت ہو چکی تھی۔ گھر سے وہ جگہ صرف 700 میٹر کی دوری پر ہے۔’
ستیہ میو جیتے تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ سب سے بڑے بھائی رام پرساد ہیں۔ اس کے بعد راج بہادر تھے، جن کی 2017 میں کینسر سے موت ہو چکی ہے۔راج بہادر کی بیوی شیلا اور ان کی تین بیٹیوں و ایک بیٹے کی دیکھ ریکھ ستیہ میو ہی کرتے تھے۔ ستیہ میو جیتے کےپسماندگان میں بیوی منی اور تین بچے ہیں۔ سب سے بڑی بیٹی دس سال کی ہے، بیٹے آٹھ اور چھ سال کے ہیں۔
غریبی سے جدوجہد کرتے ہوئے آگے بڑھی فیملی
رام سکھ رام اور ان کے پانچ بھائیوں کے پاس آبائی جائیدادکے آٹھ دس بیگھہ کھیت ہیں۔ سب بھائی اپنے اپنے حصہ کی زمین پر کھیتی کرتے ہیں۔ستیہ میو جیتے کھیتی سے ہی روزگار چلاتے تھے، ان کی ماں ساتھ میں کھیتی کا کام دیکھتی ہیں۔ اب بھی ان کا گھر کچا ہی ہے۔
یہ فیملی مفلسی میں جدوجہد کرتے ہوئے اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہوئے گاؤں کے دلتوں کو منظم کرکے تبدیلی کی لڑائی لڑ رہی تھی۔
رام پرساد کو اب دونوں بھائیوں کے بچوں کی پڑھائی اور مستقبل کی فکر ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘ستیہ میو کے رہتے تھوڑے بے فکر تھے، اس کے جانے کے بعد بہت کمزور محسوس کر رہا ہوں۔’ستیہ میو جیتے کے قاتلوں کی بے خوفی کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے کولکاتہ میں رہنے والے ستیہ میو کے ایک چچازاد بھائی کو وہاٹس ایپ کے ذریعے جیتے کی تصویر بھیجتے ہوئے کہا کہ جو بھی آواز اٹھائےگا اس کا حال یہی ہوگا۔
رام پرساد کہتے ہیں، ‘دبنگ ہمیں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم ڈر جائیں اور چپ ہو جائیں۔
شروع ہوئی سیاسی سرگرمی
ستیہ میو جیتے کےقتل نے حال کے دنوں میں اعظم گڑھ سمیت کئی اضلاع میں دلتوں کے پر ہوئے حملے کے واقعات کو پھر سے چرچہ کے مرکز میں لا دیا ہے۔رہائی منچ کے جنرل سکریٹری راجیو یادو نے بتایا، ‘گزشتہ کچھ ہی وقت میں دلتوں پر حملے کے آدھا درجن واقعات رونما ہوئے ہیں۔ دلت پردھان کےقتل کے بعد روناپار گاؤں میں ایک دلت فیملی پر حملہ کیا گیا۔’
اس بیچ سابق وزیر اعلیٰ اور ب ایس پی سپریمو مایاوتی نے ٹوئٹ کرکے ستیہ میو جیتے کے قتل پر دکھ کا اظہار کیا تھا۔انہوں نے لکھا،‘اعظم گڑھ کے بانس گاؤں میں دلت پردھان ستیہ میو جیتے پپو کی یوم آزادی سے پہلے والی شام میں بے رحمی سے قتل اور ایک دیگرکی کچل کر موت کی خبر بے حد المناک ہے۔ یوپی میں دلتوں پر اس طرح ہو رہی ظلم وزیادتی اورقتل وغیرہ سے پہلے کی سماجوادی ا وربی جے پی کی موجودہ سرکار میں کیا فرق رہ گیا ہے؟’
ان کے ساتھ ہی کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی اور کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے بھی اس واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے ٹوئٹ کیے ہیں۔کانگریس کے کئی رہنماپچھلے دو ایک دنوں سے بانس گاؤں جا رہے ہیں۔ کانگریس کے اقلیتی سیل کے صدر شاہنواز عالم ودیگر رہنما 19 اگست کو گاؤں پہنچے۔
گزشتہ 20 اگست کو کانگریس کے ریاستی صدر اجے کمار للو، سابق ایم پی پی ایل پنیا، برج لال کھابری، آلوک پرساد سمیت کئی سینئر رہنما اعظم گڑھ سے بانس گاؤں جانے کے لیے نکلے، لیکن انتظامیہ نے انہیں سرکٹ ہاؤس میں ہی نظربند کر دیا۔مہاراشٹر کے کابینہ وزیر اور دلت کانگریس کے قومی صدر نتن راؤت بھی کئی سینئررہنماؤں کے ساتھ اعظم گڑھ پہنچے ہیں۔ حالانکہ انہیں بھی بانس گاؤں جانے سے روک دیا گیا۔
(مضمون نگار گورکھپور نیوزلائن ویب سائٹ کے مدیر ہیں۔)