خبریں

دہلی فساد کی چشم دید نے پولیس پر لگایا دھمکانے کا الزام، بچوں کے لیےتحفظ کا مطالبہ کیا

دہلی کے چاندباغ علاقے کی رہنے والی فساد متاثرہ خاتون  کا الزام ہے کہ انہوں نے دہلی پولیس کے خلاف شکایت درج کروائی تھی، اس لیےپولیس اب انتقام کے جذبے  سے کارروائی کر رہی ہے۔

پولسی کے ذریعہ مبنہع طور پر 15 سالہ لڑکے کو دھمکی دی جارہی ہے۔ فوٹو: عصمت آرا

پولیس کے ذریعہ مبینہ طور پر 15 سالہ لڑکے کو دھمکی دی جارہی ہے۔ فوٹو: عصمت آرا

نئی دہلی:شمال-مشرقی دہلی کے چاندباغ علاقے میں رہنے والی ایک مسلم خاتون  نے دہلی پولیس پر اپنے 15 سال کے بیٹے کو دھمکانے کا الزام لگایا ہے۔خاتون  کا کہنا ہے کہ انہوں نے دہلی پولیس کے خلاف شکایت درج کرائی ہے اس لیے اب پولیس انتقام کے جذبےکے تحت کارروائی کر رہی ہے۔

جووینائل جسٹس ایکٹ کی دفعہ74 کے تحت خاتون  اور ان کے نابالغ بچہ کی پہچان اجاگر نہیں کی گئی ہے۔متاثرہ خاتون  نے دی وائر کو بتایا،‘سنیچر دوپہر لگ بھگ تین بجے کچھ پولیس اہلکار ہمارے گھر آئے۔ ان میں سے دو سادے کپڑوں میں تھے۔ بیٹے نے دروازہ کھولا۔ انہوں نے اسے ایک تصویر دکھاکر کہا کہ کیا وہ تصویر میں دکھ رہے بچوں میں سے ہے۔ اس پر میرے بیٹے نے ہاں کہا۔’

متاثرہ خاتون  کا بیٹا11ویں جماعت کا طالبعلم  ہے۔خاتون  کے مطابق، ‘پولیس اہلکاروں کے پاس ان کے بیٹے کی کرکٹ کھیلتے ہوئے ایک تصویر تھی۔’خاتون نے کہا، ‘تصویر میں میرا بیٹا ہاتھ میں وکٹ پکڑے ہوئے تھا۔ پولیس اہلکاروں  نے میرے بیٹے پر دنگائی ہونے کا الزام لگانا شروع کر دیا، جو ابھی بچہ ہی ہے۔’

خاتون نے بتایا کہ پولیس اہلکار دیال پور تھانے سے آئے تھے۔ خاتون کا کہنا ہے کہ اس کے بعد پولیس نے تصویر میں دکھ رہے ایک دیگر لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔

خاتون کا کہنا ہے، ‘اس تصویر میں میرے بیٹے کے ساتھ میرا بھتیجہ بھی تھا۔ اس نے بھی ہاتھ میں وکٹ پکڑا ہوا تھا۔ پولیس نے میرے بیٹے سے کہا کہ وہ انہیں میرے بھتیجے کے گھر لےکر جائے۔ بچوں کی صرف اتنی غلطی تھی کہ جب 24 فروری کو فساد شروع ہوا، وہ کرکٹ کھیل رہے تھے۔ پولیس نے وکٹ کو نشانہ بناکر انہیں مجرم  کہنا شروع کر دیا۔’

خاتون نے کہا، ‘ڈر کی وجہ سے میرے بیٹے نے پولیس کو بتایا کہ میں گھر پر نہیں ہوں اور پولیس کے جانے کے بعد اس نے میرے کمرے میں آکر اس کے بارے میں بتایا۔ میں نے اسے کمرے میں ہی رہنے اور کہیں نہیں جانے کو کہا۔ اس بیچ میں نے اپنی بہن کو فون کرکے بتایا کہ پولیس ان کے بیٹے کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ میری بہن آئی اور پولیس سے بات کرکے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ بچہ صرف باہر کرکٹ کھیل رہے تھے اور وہ کسی طرح کے فساد میں شامل نہیں تھے۔’

حالانکہ، پولیس اہلکار کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ پولیس نے ان کی بہن کے ساتھ غیرمہذب زبان میں بات کی اور خاتون کانسٹبل کا ڈر دکھاکر انہیں چپ کرانے کی کوشش کی۔انہوں نے بتایا کہ پولیس نے سختی سے اس سے (بہن) کہا کہ وہ اپنے بیٹے کو شام پانچ بجے تک دیال پور پولیس تھانے لےکر آئے ورنہ اس کے بیٹے کے خلاف دیگر دفعات  لگاکر اس کو جیل میں بند کر دیں گے۔

حالانکہ، دیال پورپولیس تھانے کے ایس ایچ او وید پرکاش کا کہنا ہے کہ کوئی بھی پولیس افسر خاتون کے گھر نہیں گیا تھا۔خاتون کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے بارے میں پوچھنے پر انہوں نے دی  وائر کو بتایا کہ تشویش کی کوئی وجہ نہیں ہے۔بتا دیں کہ متاثرہ خاتون دہلی فسادات  کی متاثرہ اورعینی شاہد دونوں ہیں۔ انہوں نے پولیس اہلکار اور بی جے پی  کے ایک ممبر کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔

وہ تین مہینے سے زیادہ  کی حاملہ تھیں، جب ایک پولیس اہلکار نے ان کے پیٹ پر مبینہ  طور پر لات ماری تھی۔وہ بتاتی ہیں،‘میں یمنا وہار میں تھی کہ اچانک دنگے بھڑک گئے۔ آنسو گیس کے گولے چھوڑے جا رہے تھے۔ لوگوں کی پٹائی کی جا رہی تھی۔ ہر جگہ جئے سیا رام کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔حاملہ ہونےکی وجہ سے میں ایسے ماحول میں سانس نہیں لے پا رہی تھی۔’

وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے پولیس اہلکاروں  کو جعفرآباد میں سی اے اےکےخلاف ہو رہےاحتجاج کی جگہ  پر خواتین  اور بچوں کو پیٹتے دیکھا تھا۔

وہ بتاتی ہیں، ‘میں نے بچوں اور دیگر خواتین کو پٹنے سے بچانے کی کوشش کی تھی۔ آنسو گیس کی وجہ سے مجھے الٹی آنی شروع ہو گئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ وہ لوگ بی آرامبیڈکر کے پوسٹر پھاڑ رہے تھے، تسبیح اور قرآن کی آیتیں ضائع کر رہے ہیں۔ انہوں نے بزرگ خواتین کو بھی نہیں بخشا، جو گھر میں موٹے کمبلوں میں چھپی ہوئی تھیں۔’

فوٹو: عصمت آرا

فوٹو: عصمت آرا

انہوں نے دی  وائر کو بتایا، ‘پولیس نے ہیومن چین بنا لی تھی اور وہ ہمارے چاروں طرف کھڑے ہو گئے تھے۔ انہوں نے ہمیں گھیر لیا تھا۔ انہوں نے اچانک ڈنڈوں  سے میرے پیر اور پیٹ پر مارنا شروع کر دیا۔ صرف میں جانتی تھی، مجھ پر کیا گزر رہی تھی۔ میں حاملہ تھی۔ میں نے انہیں بتایا بھی کہ میں حاملہ ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ تمہیں حمل کے دوران بھی آزادی چاہیے تو ہم سے لے لو۔’

خاتون کا کہنا ہے کہ پولیس نے جبراً ان سے جئے سیا رام کا نعرے لگانے کو کہا اور منع کرنے پر مبینہ طور پر زمین پر پڑی اینٹ سے ان کے سر پر دے مارا۔وہ کہتی ہیں کہ زخمی ہونے کے لگ بھگ پانچ گھنٹے بعد انہیں فرسٹ ایڈ کے لیے مصطفیٰ آباد کے الہند اسپتال لے جایا گیا۔

ان کے سر میں سوجن آ گئی تھی اور وہ زخمی تھیں۔ اس کے بعد انہیں ایمس میں شفٹ کر دیا گیا اور وہاں سے جی ٹی بی اسپتال لے جایا گیا۔

وہ کہتی ہیں، ‘کرائم برانچ کے لوگ میرے پاس آئے اور پوچھا کہ اس واقعہ کے تین دن بعد ہوئے مظاہرہ  کےآرگنائزر کون ہیں اور اس کے لیے فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے۔ مجھے کچھ نہیں پتہ تھا اس لیے یہ کہا گیا کہ میں تعاون  نہیں کر رہی ہوں لیکن میں کیسے کر سکتی تھی؟ میں وہاں دیگرخواتین کی طرح تھی۔ ایک عام مظاہرہ کرنے والے کی طرح ، جس کی کوئی فنڈگ یا کسی طرح کا سیاسی تحفظ نہیں تھا۔’

وہ کہتی ہیں،‘آخر میں میں نے اےسی پی گوکل پوری انج شرما، دیال پور پولیس تھانے کے ایس ایچ او اور کپل مشرا کے خلاف کیس درج کرایا۔’انہوں نے 19 مارچ کو تحریری شکایت درج کرائی۔ انہوں نے پولیس پر ان کی شکایت پر کسی طرح کی کارروائی نہ کرنے اور قانونی کارروائی کرنے کی دھمکی دینے کا الزام لگایا ہے۔

خاتون کا کہنا ہے کہ 24 اور 25 جولائی کو کچھ لوگ ان کے گھر آئے تھے اور انہیں اور ان کے شوہر کو دھمکاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی شکایت واپس لے لیں۔وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے شمال-مشرقی دہلی کے ڈی ایس پی سے تحفط  کی گزارش کی تھی، جس سے انکار کر دیا گیا۔

حالانکہ، جب انہوں نے اس معاملے کو لےکر دہلی ہائی کورٹ کا رخ کیا تو سرکاری وکیل امرت پرساد نے کہا کہ انہیں دیال پور تھانے کے ایس ایچ او کا نمبر دیا جانا چاہیےاور وہ ایمرجنسی میں انہیں میسیج کرکے بتا سکتی ہیں۔خاتون کا کہنا ہے کہ اس کے ایک مہینے بعد بھی وہ اپنے گھر میں غیرمحفوظ محسوس کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں اپنی نہیں بلکہ اپنے بچوں کی فکر ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میں ماں ہوں۔ یقیناً میں اپنے بچوں کے لیے ڈری ہوئی ہوں۔ کیا ہوگا اگر وہ میرے بیٹے کو سڑک سے اٹھاکر لے جائیں؟ میں اسے کہاں ڈھونڈوں گی؟ میری ایک چھوٹی بیٹی بھی ہے۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو… میں نے اپنے بچوں کے تحفظ کی مانگ کرتی ہوں۔ میں اپنے بچوں کے لیے ہی جی رہی ہوں اس لیے میں نے پولیس کے خلاف شکایت درج کرائی۔ وہ مجھے اور میرے اہل خانہ  کو نشانہ بنا رہے ہیں۔’

خاتون نے بتایا کہ پولیس نے ان کے بھائی کو فون کرکے ان کے بھتیجے کواتوار کو پولیس تھانے لےکر آنے کو کہا ہے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)