این سی آربی کی ایک رپورٹ کے مطابق جیلوں میں بند دلت، آدی واسی اور مسلمانوں کی تعدادملک میں ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے، ساتھ ہی مجرم قیدیوں سے زیادہ تعدادان طبقات کے زیر غور قیدیوں کی ہے۔ سرکار کا ڈاکٹر کفیل اور پرشانت کنوجیا کو باربار جیل بھیجنا ایسے اعدادوشمار کی تصدیق کرتا ہے۔
‘مجھے پانچ دن بھوکا پیاسا رکھا گیا۔ جھوٹا کیس فائل کیا گیا۔ آٹھ مہینے تک مجھے بنا جرم کے جیل میں رکھا گیا۔ میں نے ہمیشہ ملک کو جوڑ نے کی بات کی ہے۔’
ایک ستمبر کی دیر رات ڈاکٹر کفیل خان کو متھرا جیل سے رہا کر دیا گیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے ان کی فوراً رہائی کے آرڈر دیے تھے۔مذکورہ باتیں انہوں نے جیل سے باہر آکر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کی تھیں۔ ان کی اس بات سے ہی پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اتنے دن کس طرح سے ہراساں کیے گئے ہوں گے!
گورکھپور بی آرڈی میڈیکل کالج سے وابستہ رہے ڈاکٹر کفیل خان کو شہریت قانون (سی اےاے)، این آرسی اور این پی اے کی مخالفت کے دوران مبینہ طو رپرہیٹ اسپیچ کےالزام میں اتر پردیش پولیس نے گرفتار کیا تھا۔حالانکہ ہمارے ملک میں جھوٹے الزامات میں پھنسانے کا یہ پہلا معاملہ نہیں ہے۔
حال ہی میں این سی آربی نے ایک رپورٹ پیش کی ہے، جس سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ کس طرح سے انتظامیہ او رسرکار مل کر ان لوگوں کو جیل میں ڈال دیتی ہے، جو دوسروں کے لیے ایک آواز بنتے ہیں یا سرکار اور انتظامیہ کی پول کھولتے ہیں۔اسی طرح مہاراشٹر کے رہنے والے کارکن اور صحافی پرشانت کنوجیا بھی اس وقت جیل میں ہیں۔ پرشانت دلت کمیونٹی سے آتے ہیں۔
بہوجن سماج(دلت ،مسلمان اورآدی واسی) میں ان کی ایک امیج بنی ہوئی ہے کہ وہ ان کے لیے آواز بلند کرنے کا کام کرتے ہیں۔ لیکن کچھ وقت سے اتر پردیش کی پولیس ان کی سرگرمیوں پر نظر بنائے ہوئی ہے۔پرشانت کو دوسری بار جیل بھیجا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر فیک نیوز پھیلاتے ہیں اور سرکار پر غیرمہذب تبصرہ کرتے ہیں۔
اس سے پہلے پرشانت کو جون 2019 میں بھی اسی طرح گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت ان پر الزام لگا تھا کہ انہوں نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر مبینہ طور پر قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا۔لیکن سپریم کورٹ نے پرشانت کو رہا کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی شہری کی آزادی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ یہ اسے آئین سے ملی ہے اور اس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔
حالانکہ پرشانت کو مستقبل میں ایسا نہ کرنے کے لیے بھی کہا گیا تھا۔ اس بار اگست میں پرشانت کو جب ایک فیک نیوز پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، تو کئی ‘اشرافیہ لبرل پروگریسو لوگوں’نے اپنی خوشی ظاہر کرنے میں دیر نہیں کی۔حالانکہ جس پوسٹ پر ہنگامہ کیا گیا تھا، وہ ایک ہندو تنظیم کےرہنما سشیل تیواری کا پوسٹر تھا جس کو مبینہ طور پر پرشانت نے توڑمروڑکر ٹوئٹ کیا تھا۔
حالانکہ کہا جا رہا ہے کہ وہ پوسٹ سشیل تیواری نے لکھی ہی نہیں تھی۔ اس پوسٹر کو صرف پرشانت ہی نہیں بلکہ کئی لوگوں نے شیئر کیا تھا لیکن گرفتاری صرف پرشانت کی ہوئی۔ایف آئی آر بھی خود سشیل تیواری نے نہیں بلکہ لکھنؤ کے حضرت گنج تھانے کے ایس آئی دنیش شکلا نے لکھوائی تھی، جس میں لکھا گیا تھا کہ سشیل تیواری کی ہتک عزت ہوئی ہے۔
لیکن سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ اگر سشیل تیواری کی ہتک ہوئی ہے، تو انہوں نے خود ایف آئی آر کیوں نہیں لکھوائی! خود سشیل تیواری اپنے سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف بھڑکاؤ پوسٹ کرتے ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی ہے۔ایسی کئی تنظیم اور لوگ ہیں، جو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں لیکن ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ کیوں نہ کہا جائے کہ ایسے لوگوں کو سرکار کی حمایت حاصل ہے!
خیر، یہاں بحث کا مدعا یہ نہیں کہ ایف آئی آر کس نے کی اور کس نے نہیں کی۔ بلکہ یہاں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک دلت مسلمان آدی واسی کی گرفتاری پر ہمارے سماج کےنام نہار‘برہمن وادی پروگریسو لبرل پروگریسو’ لوگوں کو کتنی خوشی ہوتی ہے!پرشانت کی گرفتاری پر کئی لوگ تو یہ بھی کہنے لگے کہ کہیں راستے میں ہی پولیس کی گاڑی نہ پلٹ جائے اور پرشانت کا انکاؤنٹر نہ ہو جائے۔
کسی نے کہا پرشانت نے جو کیا اس کے لیے اسے صحیح سزا ملی ہے ۔ جانتی ہوں کہ اس کی زبان سے پریشانی ہو سکتی ہے، لیکن کیا یہ سب ہر اس ملزم یا اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے جو ہیٹ اسپیچ دیتے ہیں،ملک کو توڑنے کی یا آئین کے خلاف بات کرتے ہیں؟گوڈسے کو پوجتے ہیں، گاندھی کو گالی دیتے ہیں، دلت مسلم کو گالی دیتے ہیں، ان کی توہین کرتے ہیں، خواتین کو ریپ کی دھمکی دیتے ہیں، مذہب کے نام پر فساد تک کروا دیتے ہیں… شاید نہیں۔
ایسا میں نہیں بلکہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(این سی آربی)کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کہہ رہی ہے۔ این سی آربی کی ایک حالیہ رپورٹ میں جیل میں بند قیدیوں سے متعلق اعداد وشمار دیے گئے ہیں۔یہ اعدادوشمارچونکانے والے ہیں کیونکہ ان سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے دلتوں، آدی واسیوں اور مسلمانوں کی کیا حالت ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ دلتوں، آدی واسیوں اور مسلمانوں کی جیل میں تعداد ملک میں ان کی آبادی کے تناسب سے الگ ہے۔
یعنی جتنی آبادی ان کی ہے، اس کے تناسب میں جیل میں ان کی تعدادزیادہ ہے، جبکہ او بی سی اوراشرافیہ کے معاملوں کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔حیران کن بات ہے کہ سال 2019 کےاعدادوشماریہ بھی بتاتے ہیں کہ حاشیے پر پڑی کمیونٹی میں مسلمان ایک ایسی کمیونٹی ہے، جن کے قصورواروں سے زیادہ زیر غور معاملے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سال 2019 کے آخر تک ملک بھر کی جیلوں میں 21.7 فیصدی دلت بند تھے۔ جیلوں میں زیرغور قیدیوں میں21 فیصدی لوگ شیڈول کاسٹ سے تھے۔ مردم شماری میں ان کی کل آبادی 16.6 فیصدی ہیں۔ آدی واسیوں کے معاملے میں بھی فرق بڑا تھا۔
ان میں سب سے زیادہ معاملے اتر پردیش میں دیکھے گئے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سرکار ان لوگوں پر حملہ کر رہی ہے جو سسٹم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور اگر ان کی ذات اور مذہب دلت، آدی واسی، مسلمان ہے، تو ان کے لیے سزا کااہتمام اور سخت کر دیا جاتا ہے اور جبراً انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔
ایسا کرنے پر جہاں سرکار کی مخالفت ہونی چاہیے تھی وہیں کچھ نام نہاد لبرل پروگریسو لوگ اس کا جشن مناتے ہیں کیونکہ کہیں نہ کہیں ان کا منواد جاگ جاتا ہے یا پھر سماج کے خوف کی وجہ سے وہ ایسا کرتے ہیں۔دہلی یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہینی بابو کو 2018 کے بھیما کورےگاؤں تشدد معاملے میں 21 اگست تک عدالتی حراست میں بھیجا گیا تھا۔
یہ معاملہ ایک جنوری 2018 کو ہوئے تشدد سے جڑا ہے، جس میں کورے گاؤں جنگ کے 200ویں سالگرہ کے بعد تشددمیں ایک شخص مارا گیا تھا اور کئی لوگ زخمی ہوئے تھے۔اس کیس میں 12 سماجی کارکنوں کی گرفتاری ہوئی ہے اور سب پر ایلگار پریشد نام کے پروگرام میں شامل ہونے کا الزام ہے، جسے دلت اور امبیڈکر حامیوں نے منعقدکیا تھا۔
کہا گیا ہے کہ جانچ میں پایا گیا کہ اس پروگرام میں خطابات کے ذریعے تشدد کوبھڑکایا گیا تھا۔اسی طرح ڈاکٹر کفیل پر بھی الزام لگے۔ 2017 میں جب بی آرڈی اسپتال میں 70 بچوں کی موت آکسیجن نہ ملنے سے ہوئی تو ڈاکٹر کفیل نے کچھ بچوں کو بچانے کی پوری کوشش کی۔
کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق، انہوں نے اپنی گاڑی میں آکسیجن سلینڈر منگوائے۔ لیکن یہ بات شایدسرکار کو ہضم نہیں ہوئی اور الٹے ڈاکٹر کفیل پر کئی الزام لگا دیےگئے، جس وجہ سے انہیں جیل بھیج دیا گیا۔گزشتہ ایک ستمبر کو دیر رات چھوٹنے کے بعد ڈاکٹر کفیل اگلے دن عوام سے سوشل میڈیا کے ذریعے جڑے۔ انہوں نے فیس بک لائیو میں کئی ایسی باتوں کا ذکر کیا، جنہیں سن کر ایک عام انسان کی روح کانپ جائے۔
ایک جگہ وہ کہتے ہیں کہ کورٹ نے کہاں کہ مجھےفوراًچھوڑا جائے، دن میں فیصلہ آ چکا تھا لیکن مجھے چھوڑتے چھوڑتے رات کے بارہ بجا دیے، شاید وہ ابھی بھی کوشش کر رہے تھے کہ ہم کفیل کو اور کس معاملے میں پھنسا سکتے ہیں۔
اس سے پہلے الہ آ بادہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ڈاکٹر کفیل نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جوبیان دیا تھا وہ بالکل بھڑکاؤ نہیں تھا۔بلکہ اس میں ہم آہنگی، تعلیم صحت، انفرااسٹرکچر، بی آرڈی میں مارے گئے بچوں،معیشت وغیرہ کی بات کہی گئی تھی۔ لیکن انتظامیہ اور سرکار نے اسے الٹا ہی معاملہ بنادیا۔
ڈاکٹر کفیل نے اپنے اس لائیو میں بہت ہی خوبصورت بات کہی؛
ظلم کے دور میں زباں کھولےگا کون
اگر ہم ہی چپ رہیں گے تو بولےگا کون
لیکن ڈاکٹر کفیل، پرشانت کنوجیا، ہینی بابو جیسے کئی لوگ ایسے ہیں جو آواز بلند کرنے سے پہلے بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں آواز اٹھانے کی سزا پہلے سے ہی تیار رہتی ہے۔اپنے اور سماج کے حقوق مانگنے والے کو یہاں ملک مخالف، غدار کہہ دیا جائےگا یا آپ کو کہا جائےگا اتنی ہی پریشانی ہے تو پاکستان چلے جاؤ…
یہاں آپ کو کچھ لوگوں کا سپورٹ ضرور ملےگا لیکن آپ کو غدار کہنے والا طبقہ آپ کو ٹرول کرےگا اور ہر پل یہ کوشش کرےگا کہ کسی طرح آپ گرفتار کر لیے جائیں۔اور جیسے ہی سرکار اور انتظامیہ کو موقع ملتا ہے وہ آپ کو گرفتار کر بھی لیں گے، پھر چاہے معاملہ جھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔
تب اس طبقے کی خوش ہونے کی باری آتی ہے۔ بھلے ہی اس طبقے کے لیے آج کے وقت میں امتیاز نہیں ہے، ریزرویشن کے نام پر ان میں زہر بھرا ہوا ہے،ذات پات انہیں دکھائی نہیں دیتی!اس لیے جو کاسٹ سسٹم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے یہ ٹرول کرتے ہیں اور موت کی دعاتک کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹر کفیل خان جیل سے باہر آنے پر جب سب سے سوشل میڈیا کے ذریعے روبرو ہوتے ہیں، تو وہ رونے لگتے ہیں۔ رونے لگتے ہیں اپنی بوڑھی ماں کی حالت دیکھ کر، اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو یاد کرتے وقت۔وہ رونے لگتے ہیں کیونکہ ہراساں صرف انہیں ہی نہیں، ان کےاہل خانہ کو بھی کیا گیا۔ لیکن پھر بھی وہ ہار نہیں مانے۔
وہ ویڈیو میں کہتے ہیں کہ اگر بابا صاحب کا آئین نہ ہوتا تو مجھے آج انصاف نہیں ملتا۔ انتظامیہ اور سرکار کی نظر میں میں نے بی آرڈی کے بچوں کو بچانے کی کوشش کی اس لیے مجھے ملزم بنا دیا، میں پوچھنا چاہتا ہوں اس میں میری غلطی کیا ہے!این سی آربی کی مانیں، تو اس طرح کے معاملے زیادہ تر اتر پردیش میں ملے ہیں۔ شاید ایک یہی وجہ بھی رہی کہ ڈاکٹر کفیل نے مہاراشٹر سرکار سے درخواست کی تھی کہ مجھے وہاں بلایا جائے، مجھے اتر پردیش میں نہیں رہنا، مجھے یوپی پولیس پر یقین نہیں۔
یہ معاملے صرف پرشانت، کفیل، ہینی بابو تک ہی محدود نہیں ہیں، جو کوئی اپنے حق کی آواز اٹھا رہا ہے، اسے جیل میں بھیجا جا رہا ہے۔ہاں، یہ ضرور سچ ہے کہ جیل بھیج جانے والوں میں سب سے زیادہ دلت مسلما ن آدی واسی ہیں۔ یہاں مجھے ملک زادہ منظور احمد کا لکھا یاد آ رہا ہے؛
وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد
بہت سے فیصلوں میں اب طرف داری بھی ہوتی ہے
یہ سالوں پہلے لکھا گیا تھا اور تب لکھنے والے کو بالکل بھی اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ یہ بات 21ویں صدی میں بھی ایک دم درست ثابت ہوگی، جب مظلوموں پر ظلم ہوگا۔جہاں قاتل بھی وہی، انصاف کرنے والا بھی وہی، عدالت بھی اس کی اور گواہ بھی اسی کا ہوگا، تو کیا عام انسان یا یہ کہوں کہ بہوجنوں کو انصاف ملنا آسان ہوگا!
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر