ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق فیس بک کی ایک سابق ڈیٹا سائنٹسٹ نے فیس بک پر کئی ملکوں کے انتخابات کو متاثر کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جمہوری عمل کو کمزور کرنے کی کوششوں سے نمٹے میں فیس بک شفافیت لانے یاوقت پر کارروائی کرنے میں ناکام رہا ہے۔
نئی دہلی: فیس بک کی ایک سابق ڈیٹاسائنٹسٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر کئی ممالک کے انتخابات کومتاثر کرنے کاالزام لگایا ہے۔فیس بک کی ڈیٹاسائنٹسٹ نے ہندوستان، یوکرین، اسپین، برازیل، بولویا اور اکواڈور سمیت کئی ممالک میں انتخابات کو متاثر کرنے کے لیے فرضی اکاؤنٹ کے ذریعے اس کے پلیٹ فارم کے ساتھ کی گئی ہیراپھیری کے شواہد کو نظر انداز کرنے کا بھی الزام لگایا ہے۔
بزفیڈ نیوز کی رپورٹ کے مطابق، فیس بک کی ایک سابق ڈیٹا سائنٹسٹ صوفی جھانگ نے کمپنی میں اپنے آخری دن 6600 لفظوں کا ایک انٹرنل میمو لکھا تھا، جس میں فروری میں دہلی میں ہوئے اسمبلی انتخاب کا بھی ذکر ہے۔ یہ میمو بزفیڈ نیوز کے پاس ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق اس میمو میں جھانگ نے دعویٰ کیا ہے، ‘انہوں نے ہزار سے زیادہ لوگوں والے سیاسی طور پر منظم نیٹ ورک کو ہٹانے کے لیے کڑی محنت کی، جو دہلی انتخاب کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
حالانکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا ہے کہ یہ نیٹ ورک کس سیاسی پارٹی سے جڑا ہوا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جمہوری عمل کو کمزور کرنے کی کوششوں سے نمٹنے میں فیس بک شفافیت لانے یاوقت پر کارروائی کرنے میں ناکام رہا ہے۔بزفیڈ نیوز کے مطابق، فیس بک نے کبھی عوامی طور پرنہ اس نیٹ ورک کا انکشاف کیا، نہ ہی یہ بتایا کہ اسے ہٹایا گیا۔
ان الزامات پرردعمل دیتے ہوئے فیس بک کے ترجمان نے جاری بیان میں کہا، ‘ہم نے خصوصی ٹیمیں بنائی ہیں، جو ماہرین کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں تاکہ ہمارے سسٹم کا غلط استعمال ہونے سے روکا جا سکے۔ اب تک ہم 100 سے زیادہ اس طرح کے نیٹ ورک کو ہٹا چکے ہیں۔’
انہوں نے کہا، ‘ہم اسپیم اور فیک انگیجمنٹ کی پریشانیوں کا بھی حل کر رہے ہیں۔ ہم کوئی بھی قدم اٹھانے یا کسی بھی طرح کاعوامی دعویٰ کرنے سے پہلے ہر معاملے کی احتیاط سے جانچ کر رہے ہیں، جس میں جھانگ کے اٹھائے گئے مدعے بھی شامل ہیں۔’بزفیڈ نیوز کے مطابق، جھانگ نے جب انتخاب کو متاثر کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے تناظر میں کمپنی سے پوچھا تو انہیں مبینہ طور پر فیس بک میں محدود انسانی وسائل کا حوالہ دیا گیا۔
جھانگ کو اسی مہینے نوکری سے نکالا گیا تھا کیونکہ انہوں نے ایک معاہدے پر دستخط کرنے سے بچنے کے لیے فیس بک کی جانب سے 64000 ڈالر کا پیکیج ٹھکرا دیا تھا۔بتا دیں کہ اس سے پہلے اگست میں امریکی نیوز پیپر وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ فیس بک انڈیا کی ایک سینئر عہدیدار نے بی جے پی سے جڑے ہوئے چار لوگوں اور گروپوں کے خلاف فیس بک کے ہیٹ اسپیچ ضابطوں کو نافذ کرنے کی مخالفت کی تھی۔
Categories: خبریں