کنگنارناوت کا ایک ساتھی اداکارہ کے کام کو مسترد کرتے ہوئے انہیں کمتر دکھانے کی کوشش کرنا اور گھر گرائے جانے کاموازنہ ریپ سے کرنا دکھاتا ہے کہ فیمنزم کو لے کر ان کی سمجھ بہت کھوکھلی ہے۔
ڈیئر کنگنا،
ایک بار پھر آپ نے ایک ایسا ٹوئٹ کیا جس کو پڑھنے کے بعد ذہن میں کئی سوالوں کے ساتھ غصہ بھر گیا ہے۔آپ نے اس ٹوئٹ میں جو کہا -کیا اس میں آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ ایک عورت کی حیثیت اس کی اندام نہانی سے زیادہ کچھ نہیں!کیا آپ کے مطابق بالی ووڈ میں جانے کے لیےعورتوں کا راستہ ان کی اندام نہانی سے ہوکر گزرتا ہے! بلکہ آپ کے لفظو ں سے ایسا لگ رہا ہے کہ آپ نہ صرف بالی ووڈ کی بلکہ تمام شعبوں کے لیے بھی ایسا ہی سوچ رہی ہیں۔
آپ نے ہر اس عورت کی قابلیت پر سوال کھڑا کیا ہے جو اپنے خوابوں کو جینے کے لیے، اپنی پہچان بنانے کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں۔آپ کے اس بیان کے بعد ہر وہ عورت جو ممبئی آکر اپنےخوابوں کو پنکھ لگانا چاہتی ہیں، انہیں کہیں نہ کہیں اب جھجھک ہوگی اور ان کا خاندان بھی آپ کے بیان کا حوالہ دےکر انہیں روکےگا۔
آپ وہی لفظ دے رہی ہیں جو ایک مرد سوچتا ہے کسی عورت کی کامیابی پر، وہ لفظ، جو اس کی لپ اسٹک کے آگے اس کی کامیابی کو پھیکا کر دیتے ہیں۔ اور آپ بات کرتی ہیں کہ آپ نے فیمنزم سکھایا!لیکن کیا آپ خود فیمنزم کا مطلب جانتی ہیں؟آپ تو خود اپنےلفظوں میں ایک پدری سوچ کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ آپ تو خود اس خیمے میں کھڑی ہو گئیں، جو عورت کوعورت نہیں بلکہ استعمال کی چیز سمجھتا ہے۔
ایسا کرکےآپ صرف منواسمرتی کی سوچ کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ آپ کہتی ہیں کہ بالی ووڈ کوفیمنزم آپ نے سکھایا ہے جبکہ آپ تو خود بالی ووڈ میں 2006 میں آئیں اور خواتین پرفلمیں دہائیوں سے بنتی آ رہی ہیں۔
ان میں اداکاراؤں نے اپنے کردار کی بدولت عورتوں کی آواز بلند کی۔آپ کے بالی وڈ میں شامل ہونے سے پہلے جو فلمیں بنی تھیں، ان میں نرگس کی مدر انڈیا (1957)،سچترا سین کی آندھی(1975)،شبانہ اعظمی کی ارتھ (1982)،سمتا پاٹل کی بھومیکا (1977)،مرچ مسالہ (1987)،ریکھا کی خون بھری مانگ (1988)،میناکشی شیشادری کی دامنی(1993)،تبو کی استتو (2000) اور چاندنی بار (2001)… وغیرہ تمام بہترین فلمیں ہیں۔
یہ فہرست بہت طویل ہے لیکن یہاں کچھ ہی فلموں کا ذکر کے اس لیے تاکہ آپ کے دھیان میں رہے اور آپ کی غلط فہمی کچھ حد تک ختم ہو۔
یہ تمام فلمیں آپ کے بالی ووڈ میں آنے سے پہلے کی ہیں، جیسا کہ آپ کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں شایدفیمنزم کا مطلب نہیں پتہ، پھر بھی انہوں نے اپنی اپنی فلموں میں اپنا کردار نہ صرف بخوبی نبھایا بلکہ اسے جیا بھی اور کبھی بھی ان فلموں کے بعد فیمنزم پر ‘گیان’ نہیں دیا۔
آپ کے مطابق بالی ووڈ کو فیمنزم آپ نے سکھایا ہے، جبکہ آپ ایک چینل کو دیےانٹرویو میں ایک دوسری عورت کو کہتی ہیں کہ ارمیلا ماتونڈکر تو سافٹ پورن اسٹار ہیں اور انہیں ان کی ایکٹنگ کی وجہ سے نہیں جانا جاتا۔ایک طرف آپ اپنے آپ کو فیمنسٹ بتاتی ہیں تو دوسری طرف دوسری عورت کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتی ہیں، یہ کیسا فیمنزم ہے آپ کا؟
کیا آپ کا فیمنزم خواتین کو چھوڑکر ایک خاص پارٹی کے لیے ہی ہے اور اپوزیشن کی خواتین پرالزام تراشیاں کرتے کرتے آپ کو عورت ہونے کا دھرم بھی یاد نہیں رہتا۔ارمیلا ماتونڈکر کانگریس میں ہیں اس لیے شاید آپ نے ان کی عزت کا خیال نہیں رکھا۔ ایسے ہی جیا بچن بھی سماجوادی پارٹی میں ہیں، چار بار رکن پارلیامان بھی رہ چکی ہیں اور فلموں میں وہ تب سے ہیں جب آپ کا جنم بھی نہیں ہوا تھا۔
عورت ہونے کے ناطے نہیں تو آپ ان کی عمر کا ہی خیال رکھ سکتی تھیں کیونکہ فیمنسٹ ہونا آپ کو کہیں بھی یہ نہیں سکھاتا کہ آپ دوسری عورت کو کمتر دکھائیں، بالخصوص کسی عمردراز عورت کو۔اداکارہ ہونے کے ناطے آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ جیا بچن نے ملی، ہزار چوراسی کی ماں، ابھیمان، گڈی، مہانگر، اپہار وغیرہ جیسی کئی بہترین فلموں میں کام کیا ہے۔
پھر آپ نےآپ کا گھر توڑے جانے پر ٹوئٹ کیا کہ گھر ٹوٹنے کے بعد آپ بالکل ایسا محسوس کر رہی ہیں جیسے کہ آپ کا ریپ ہوا ہو۔کنگنا جی، کیا آپ کبھی کسی ریپ وکٹم سے ملی ہیں؟ کیا آپ نے اس سے پوچھا ہے کہ کیا ہوتا ہے ریپ کا مطلب؟
آپ جس ماحول میں رہتی ہیں آپ کو تو یہ بھی نہیں پتہ ہوگا کہ جب ایک مرد اپنی لپلپاتی نظروں سے ایک عورت کو دیکھتا ہے تو کیسا لگتا ہے۔ شاید آپ کو نہیں پتہ ہوگا کہ جب سڑک پر نکلنے پر مردوں کے ذریعے کیسے ایک عورت کو پورا اسکین کیا جاتا ہے، تو اس عورت کو کیسا لگتا ہے!
سن 2012 میں نربھیا کے لیے لوگ یوں ہی سڑکوں پر لاٹھیاں کھانے نہیں اتر گئے تھے، کٹھوعہ میں ایک بچی کے ساتھ ہوئے گھنونے جرم کے خلاف لوگوں میں یوں ہی غصہ نہیں بھر گیا تھا۔اگر آپ کو ریپ کا اصل مطلب بھی پتہ ہوتاتو آپ گھر ٹوٹنے پر اس لفظ تک کا استعمال کرنے سے بھی گریز کرتیں، پھر محسوس کرنا تو دور کی بات۔ بلکہ میں تو چاہتی ہوں کہ کبھی بھی کسی عورت کو یہ محسوس ہی نہ کرنا پڑے۔
اگر آپ سچ میں جانتی تو آپ فیمنزم کا گیان دینے کے بدلے ان تمام عورتوں کے ساتھ کھڑی ہوتیں جو اس احساس سے بھی ڈرتی ہیں، جن کے ساتھ ایسا ہوا ہوتا ہے، وہ تو آسانی سے اس درد کو بیان بھی نہیں کر پاتی ہیں۔مجھے شکایت ہے کہ سابق مرکزی وزیر اوربی جے پی رہنما چنمیانند اورسابق بی جے پی ایم ایل اے کلدیپ سینگر، جن پر ریپ کا الزام لگا، ان کے خلاف تحریک میں آپ کہیں شامل نہیں دکھیں۔
کلدیپ سینگر نے نہ صرف اس عورت کے ساتھ گھنوناجرم کیا بلکہ اس عورت کو اپنے ساتھ ہوئے جرم کے خلاف لڑنے پر اپنے گھر کے کئی ممبروں کو بھی کھونا پڑا۔سن 2018 کی این سی آربی کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر گھنٹے تقریباً چار ریپ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ اعدادوشمار صرف وہ ہیں، جن کے کیس درج ہوتے ہیں۔
آج بھی ہمارے ملک میں کئی وجہوں سے ریپ کے کئی کیس درج نہیں کیےجاتے، تو کئی جگہ اپنی اور اپنے گھروالوں کی مبینہ اجازت کی وجہ سے انہیں درج نہیں کروایا جاتا۔پچھلی بار آپ نے ذات پات کے خلاف بولا، تب سمجھ آتا ہے کہ اکثر اشرافیہ کی ریزرویشن اور ذات پات کو لےکر یہی سوچ ہے۔
لیکن اب آپ نے ایک عورت ہوکر دوسری عورت کے لیے نہ صرف غلط بولا، بلکہ ریپ جیسے سنگین جرم کا مذاق بھی بنایا۔ اور اس کے ساتھ آپ خود کو فیمنسٹ بھی کہہ رہی ہیں۔اگر فیمنسٹ ہونا یہی سکھاتا ہے، تو لوگ پدری سوچ کا مظاہرہ کرنے والا مرد ہونا چننا پسند کریں گے۔ اس لیے آپ سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ آپ فیمنزم کے بارے میں تھوڑا اور جانیں۔
علم میں اضافہ کے لیے ماتا ساوتری بائی پھولے اور فاطمہ شیخ کو بھی پڑھیےگا، جنہوں نے سچ میں زمین پر رہتے ہوئے عورتوں کے لیے کام کیا اور جن کی وجہ سے میں ہی نہیں بلکہ آپ کو بھی پڑھنے اور بولنے کا موقع ملا۔ شکریہ
(مضمون نگارآزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر