دیکھنا یہ ہے کہ اس خطے میں یونان اور ترکی کے مابین کشیدگی کا کیا انجام ہوگا؟ خیر عالمی گریٹ گیم شروع ہوچکی ہے۔ بس انتظا ر ہے کہ امریکی انتخابات کے بعد اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
چین اور امریکہ کے مابین جس طرح بحرالکاہل کے ساوتھ چائنا سمندر میں سرد جنگ جاری ہے، بالکل اسی طرح بحیرہ روم میں ترکی اور یونان کے درمیان محاذ خاصا گرم ہے۔ اس ایشو پر نہ صرف یورپی یونین، بلکہ امریکہ اور عرب ممالک بشمول مصر، ترکی کے خلاف یونان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ چونکہ دونوں سمندروں میں فی الوقت گیس اور تیل کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور آئندہ مزید ایسی دریافتیں ہونے کی امید ہے، اس لیے سمندری حدود پر کنٹرول اور اس کے اقتصادی زون کی حد بندی کے قضیہ پر تقریباً دونوں علاقوں میں جنگ جیسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد جب مشرق وسطیٰ کی حصہ بٹائی ہو رہی تھی، تو مغربی طاقتوں نے ترکی کے بھی حصے بخرے کرکے اس کا براعظم ایشیاء والا حصہ یعنی اناطولیہ یونان کے حوالے کردیا اور استنبول اور اس کے آس پاس کا یورپی حصہ برطانیہ کے سپرد کردیا۔اناطولیہ کا چارج لینے کے لیے مئی 1919کو یونان کی فوجوں نے ازمیر کے ساحل اتر کر قبضہ کرلیا۔ دوسری طرف برطانوی فوجوں نے استنبول اور اس کے نواح میں فوجیں اتاریں۔ مشرق وسطیٰ کے عرب علاقوں کے برعکس یہاں ترکوں نے سخت مزاحمت کی اور مصطفی کمال اتا ترک کی قیادت میں ترک افواج نے تین سال کے قلیل عرصہ میں یونانی فوج کو شکست سے دوچار کرکے سرحدوں سے پرے دھکیل دیا۔
یونانی فوج کی حالت دیکھ کر برطانیہ نے خود ہی استنبول کو خالی کردیا۔ چونکہ ترک افواج ایک طرح سے 1860سے ہی مسلسل حالت جنگ میں تھیں، اس لیے زمینی سرحدوں کا تعین کرکے اس نے امن اور سکون کی خاطر سمندری حدود اور آس پاس کے جزیروں کو ملکی حدود میں شامل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ قبرص میں چونکہ یونانی اور ترک آبادی کا تناسب تقریباً برابر تھا، طے ہوا کہ اس جزیرہ کو آزاد خطہ تسلیم کرکے ترکی اور یونان اس کے دفاع کی ضمانت دیں گے۔ مگر جولائی 1974میں یونان کی شہہ پر فوج نے صدر آرک پشپ مارکوئس کی حکومت کا تختہ پلٹ کر یونان کے ساتھ الحاق کرکے ضم ہونے کا اعلان کردیا۔ ترکی نے چند روز تک اقوام متحدہ اور 1922ہوئے معاہدے کی پاسداری کی
یاد دہانی کراتے ہوئے اس کے ضامنوں کے دروازے کھٹکٹائے۔ مگر جب کوئی جواب نہیں ملا، تو ترکی نے قبرص میں اپنی فوج اتار کر باضابطہ جنگ کا اعلان کرکے یونانی فوج کوپیچھے دھکیل دیا۔ بس کیا تھا کہ عالمی طاقتیں حرکت میں آگئیں اور تین دن بعد ہی جنگ بندی ہوگئی۔ تب تک ترکی نے شمالی علاقے کو یونانی فوجوں سے خالی کروادیا تھا۔
اس جنگ میں بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی فضائیہ کے پائلٹوں نے ترک فوج کی مدد کی اور اس سے ترکی کو جنگ میں واضح برتری مل گئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ترکی ابھی تک اس مدد کے لیے پاکستان کا احسان مند ہے۔ خیر قبرص کے دو حصے ہوگئے، ترک اور یونانی قبرص۔ دونوں ملکوں نے ان حصوں کو خود مختاری دی اور بات چیت کے ذریعے قضیہ کو سلجھانے پر آمادگی ظاہر کی۔
جب سمندر کی تہہ میں تیل اور گیس کی دریافت شروع ہوئی، تو 1982میں اقوام متحدہ نے ایک کنونشن کے ذریعےیہ طے کیا کہ ساحلی ممالک اپنے ساحل سے 200ناٹیکل مائلز یعنی 370کلومیٹر کے ایریا کو خصوصی اقتصادی زون ڈیکلیر کر سکتے ہیں۔ اس ایریا میں وہ تیل اور گیس نکال کر اس کو استعمال میں لا سکتے ہیں۔ بڑے سمندروں کی حد تک تو یہ قانون قابل عمل ہے، مگر بحیرہ روم جیسے چھوٹے سمندروں جہاں اس کے آس پاس 22ممالک اور لاتعداد جزیرے ہوں، یہ قانون قضیہ کا باعث بنا ہوا ہے۔
یونان، مصر اور اسرائیل کا اصرار ہے کہ اقوام متحدہ کے کنونشن کو لاگو کرکے اقتصادی زون بانٹ لئے جائیں۔ کیونکہ بحیرہ روم کے مشرق میں لاتعداد جزیر ے یونان کے قبضہ میں ہیں۔ ایک جزیرہ میاس تو ترک ساحل ازمیر سے بس ڈیڑھ کلومیٹر کی دوری پر ہے، مگر یونان کے ساحل سے 570کلومیٹر دور ہے۔ یونان کا کہنا ہے کہ اس کے اقتصادی زون کا تعین ان جزیروں کے ساحلوں سے ہونا چاہیے نہ کہ یونان کے اصلی ساحل سے۔
اس کا مطلب ہے کہ تیل اور گیس سے مالا مال مشرقی بحیرہ روم میں ترکی سمندری حدود سے محروم ہو جائےگا۔ جبکہ ترکی کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کا قانون چونکہ اس علاقے میں ناقابل عمل ہے اس لیے دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے ایسا حل نکالا جائے، جس سے سبھی فریقین مطمئن ہوں۔ اگر یونان کی اس دلیل کو کہ اس کا اقتصادی زون جزیروں سے ماپا جائے، کو مان لیا جائے، تو دنیا میں شاید بیشتر ممالک سمندری حدود سے محروم ہو جائیں گے۔ کیونکہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس ابھی بھی دنیابھر میں پھیلے 44جزیروں پر قابض ہیں۔
جنوبی امریکہ میں فاک لینڈ جزائر اور اسپین کی سرحد سے ملحق جبل الطارق جزیرہ برطانوی ساحل سے کوسوں دور،پر اس کے قبضہ میں ہیں۔ اگر برطانیہ ان جزائر کےلیے اقتصادی زون پر اصرار کرتا ہے تو یورپ میں اسپین اور جنوبی امریکہ میں کئی ممالک سمندری حدود سے محروم ہوجائیں گے۔
اس خطہ میں سب سے پہلے اسرائیل نے لیوتھان کے مقام پر گیس کے وسیع ذخائر دریافت کئے۔ گو کہ 2010میں غازہ کی ناکہ بندی اور پھر ساز و سامان لے جانے والے ایک ترک رضاکار تنظیم کے جہاز پر حملہ اور ہلاکتوں کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوگئے، مگر اس دریافت شدہ گیس کو یورپ تک لیجانے کے لیے2014کے آس پاس اسرائیل نے ترکی سے رابطہ کرکے پائپ لائن بچھانے کے ایک منصوبہ کی پیشکش کی۔
اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر ترکی نے مسئلہ قبرص کو حل کروانے اور اس جزیرہ کو دوبارہ متحدہ کروانے کے لیے دونوں حصوں کے حکمرانوں کی کئی ملاقاتیں کروائیں۔ پائپ لائن اور قبرص کے مذاکرات ابھی جاری تھے کہ یونان نے جنوبی قبرص پر دباؤ ڈال کر متحد ہونے کے منصوبہ سے الگ ہوکر پائپ لائن کے پروجیکٹ پر بھی پانی پھیر دیا۔ پھر ترکی کو الگ تھلگ کروانے کے لیےقاہر ہ میں سات ممالک یعنی اسرائیل، اٹلی، اردن، فلسطینی اتھارٹی، مصر، اور بعد میں فرانس کو شامل کرکے یونان نے ایک ایسٹ میڈیٹیرین گیس فور م تشکیل دی۔
ترکی اور اسرائیل کے درمیان پائپ لائن کو سبو تاژ کرنے کے بعد یونان نے پھر خود اسرائیل سے پینگیں بڑھا کر اسی سال جنوری میں جنوبی قبرص کے راستے 7بلین ڈالر کی لاگت کے 1900 کلومیٹر طویل پائپ لائن منصوبہ پر دستخط کئے۔ ایک اسرائیلی اسکالر آمیکا ناچمانی کے مطابق یونان کے ساتھ دوستی اسرائیل کو خاصی راس آئی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یونان کے ساتھ فوجی مشقوں کے دوران اسرائیلی فضائیہ نے روس کے ایس 300ایر ڈیفنس سسٹم کاتوڑ کرنے اور اسکے کورڈ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
ناٹو ملک ہونے کے باوجود یونان نے چند برس قبل روس سے ایس 300ایر ڈیفنس سسٹم خرید لیا تھا۔ اسرائیلی فضائیہ نے یونان کے ساتھ فوجی مشقوں سے فائدہ اٹھا کر شام میں موجود ایس 300ایر ڈیفنس سسٹم کو چکمہ دیکر ایرانی ٹھکانوں پر بمباری کی۔
یونان کے اس رویہ کے جواب میں ترکی نے لیبیا کے ساتھ مشترکہ اقتصادی زون کے ایک معاہدے پر دستخط کئے، جس سے پورا یورپی یونین اور امریکی کانگریس تلملا گئی۔ لیبیا کے ساحلوں میں بھی گیس اور تیل کی فراوانی ہے اور اگر ترکی اور لیبیا کے درمیان پائپ لائن بچھ جاتی ہے، تو وہ خاصی ارزاں ہوگی اور اس وجہ سے سے اسرائیل اور یونان کی پائپ لائن سے ترسیل شدہ گیس شاید ہی کوئی خرید ے گا۔
وفا اور بوری گیس فیلڈز کی وجہ سے لیبا میں 1.5 ٹریلین گیس کے ذخائر ہیں اور دنیا میں 22 ویں نمبر پر ہیں۔ یونانی قبرص کے ایک سابق وزیر نکس رولاندین کے مطابق اسرائیل اور یونان کی پائپ لائن کا منصوبہ ایک خسارہ کا سودا ہے، کیونکہ یورپ تک گیس پہنچتے پہنچتے اس کی قیمت فی برٹش تھرمل یونٹ 8ڈالر کے لگ بھگ ہوجائےگی۔ جبکہ یورپ میں گیس کی فی الوقت قیمت 5ڈالر فی برٹش تھرمل یونٹ ہے۔
ترکی اور قبرص نے خطے میں اقتصادی زون پر اپنا حق جتانے کےلیے فی الحال تین اقدامات کئے ہیں، جن میں فوجی ایکشن، خطے میں غیر ملکی گیس تلاش کرنے والے جہازوں کی آمد پر پابندی اور اس علاقے میں دیگر طاقتوں کی مداخلت ختم کروانا ہے۔ اس سلسلے میں ترکی کی بحریہ نے حال ہی میں ایک اطالوی جہاز کو جو گیس تلاش کرنے میں سرگرداں تھا، واپس کردیا۔
دی آئل اور گیس جرنل کی ایڈیٹر سوزین کارلسن کے مطابق ترکی کو درکنار کرتے ہوئے کوئی بھی گیس منصوبہ اس خطے میں قابل عمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قبرص کے راستے اگر یورپ اسرائیل سے گیس بھی خریدنا چاہتا ہے تو اس کا مختصر اور کم قیمت والا روٹ ترکی کے ہی پاس ہے۔ مشرقی بحیرہ روم میں بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے پانچ فیصد گیس کے ذخائر ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس خطے میں یونان اور ترکی کے مابین کشیدگی کا کیا انجام ہوگا؟ مگر ساؤتھ چائنا سمندر میں جس طرح کی سرد جنگ جار ی ہے ،اس سے لگتا ہے کہ چین دنیا میں ایک نئے بلاک کو تشکیل دینے کے فراق میں ہے، جس کا محور یورپ میں ترکی ہوسکتا ہے، گو کہ سنکیانگ میں اوگور ترک مسلمانوں کے معاملے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کسی حد تک کشیدہ رہے ہیں۔ خیر عالمی گریٹ گیم شروع ہوچکی ہے۔ بس انتظا ر ہے کہ امریکی انتخابات کے بعد اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
Categories: فکر و نظر