بھگت سنگھ اپنے کھلے جسم اور قد کاٹھ کی وجہ سے ہر طرح سے ہیرو لگتا تھا۔ چنانچہ جب وہ اپنی پاٹ دار آواز میں ڈائیلاگ کی ادائیگی کرتا تو ڈرامہ سامعین کے دلوں میں اُتر جاتا۔ ان ڈراموں کا مقصد بھی یہی تھاکہ انگریزوں کے خلاف آواز بلند کی جائے اور لوگوں میں دیش بھگتی کے جذبات اُبھارے جائیں۔ جلد ہی حکومت نے کالجوں میں ایسے ڈرامے کرنے پر پابندی لگادی جن میں دیش بھگتی کا پیغام ہوتا تھاکیونکہ دیش بھگتی سے مراد انگریز حکومت سے بغاوت کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
شہید اعظم بھگت سنگھ کے یوم پیدائش پر پروفیسر وقار اصغر پیروز کی زیر طبع کتاب سرفروش بھگت سنگھ سے مقتبس ایک باب۔ بھگت سنگھ پر یہ ضخیم کتاب جلد ہی منظرعام پر آنے والی ہے۔وقار پیروز بھگت سنگھ کے شہر لائل پور کے باسی اور مؤرخ ہیں۔(ادارہ)
تحریک عدم تعاون کے دوران بھگت سنگھ دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔انقلابیوں کے خاندان کا بیٹاانقلاب کی تحریک میں کیسےشامل نہ ہوتا۔ چنانچہ بھگت سنگھ نے بھی تعلیم اورادارے کو چھوڑ کر تحریک میں بھر پور حصہ لیا۔سرکاری اسکول اور کالج ایسے طالب علموں کو دوبارہ داخلہ دینے کو تیار نہ تھے جنہوں نے تحریک عدم تعاون میں حصہ لیا تھا۔چنانچہ ان طلبا کے داخلے قومی اسکول کالجز اور یونیورسٹیوں میں ہوئے۔
بھگت سنگھ نے اگرچہ اسکو ل دسویں جماعت سے چھوڑدیا تھا مگر احتجاج میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ اس نے کتابوں سے اپنا تعلق قائم رکھا تھا۔ نیشنل کالج کی انتظامیہ نے کالج میں داخلے کے لیے بھگت سنگھ کی قابلیت کا باقاعدہ امتحان لیا، اس کے لیے ان کو دو ماہ کی تیاری کا وقت دیا گیا۔ بھگت سنگھ نے دومہینے بھر پور محنت کی اوربالآخر اس نے کالج میں داخلے کا امتحان پا س کر لیا۔
نیشنل کالج بریڈ لا ہال میں قائم تھا۔اس کے سرپرست لالہ لاجپت رائے تھے۔16مئی 1921ء کو اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔اُن دنوں کالج کے پرنسپل اچاریہ جُگل کشور جی تھے۔ یہ بہت بڑی محب وطن شخصیت تھی۔ انہوں نے انگلستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی مگروہ ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے انتہائی معمولی معاوضے پر اس ادارے کی ذمہ داری قبول کی۔
نیشنل کالج کی ایک اور بڑی شخصیت بھائی پرمانند (1876-1947ء)مشہور آریہ سماجی تھے۔انہیں لاہورسازش کیس 1915ء میں سزائے موت ہوئی تھی جو بعد میں عمر قید میں بدل گئی۔انہوں نے جزائر انڈیمان میں سزا کاٹی تھی۔طلبا ان کے جوش وجذبے اور دیش بھگتی کی وجہ سے ان کا بہت احترام کرتے تھے۔انہوں نے ہندوستان کی تاریخ پر ہندوستانی نقطہ نظر سے کتا ب بھی لکھی تھی۔
انگریز ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں یہ الزام دیتے رہتے تھے کہ ہندوستانی ہمیشہ غیرملکی قوتوں اور طاقتوں کے غلام رہے ہیں۔بھائی پرمانند نے اس کتاب میں انگریزوں کے اس الزام کو دلیل کے ساتھ رد کیا تھا۔
پروفیسر جے چندودیالنکر گوروکل کانگڑی(قدیم ہندوستانی نظام تعلیم)کے بانی سربراہ تھے۔ وہ ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے اور انگریز فطرت کو بھی بہت اچھی طرح سمجھتے تھے۔انہوں نے سچندرناتھ سانیال کی کتاب ‘بندی جیون’کا بنگالی سے ہندی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔
پروفیسر چھبل داس نیشنل کالج کے بہت محنتی اور مخلص استاد تھے۔وہ بعد ازاں کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ ان کے کئی قومی گیت طلبا اور عوام الناس میں بہت مشہور تھے۔ ان کی ایک کتاب ‘چنگاریاں’بہت پڑھی جاتی تھی یہ کتا ب 1947ء تک چھپتی رہی اور حکومت اسے ضبط کرتی رہی۔
دوارکاداس لائبریری کے ذکر کے بغیر نیشنل کالج کا ذکر ادھور ا ہے۔پنجا ب کی انقلابی تحریک میں اس لائبریری کا کردار بہت مثالی تھا۔اس لائبریری میں ہمہ وقت طلبا کی بڑی تعداد موجود رہتی۔ اس میں ایسی کتابیں موجود تھیں جو طلبا کی سوچ اور بصیرت کو وسعت بخشتی تھیں۔مثلاً ڈین او برین کی آئرش کی آزادی کے لیے میری جدوجہد(My Struggle for Irish Freedom)مزینی اور گبرالڈی کی سوانحات۔فرانسیسی انقلاب کی تاریخ،والٹیر،وکٹر ھیوگو،کروپاٹکن اور دیگر روسی انقلابیوں کی تحریریں۔
سچندرناتھ سانیال کی بندی جیون،رولٹ ایکٹ اور اس پر تبصرے وغیرہ متعدد ایسی کتابیں تھیں جوانقلابی سوچ رکھنے والے نوجوان ذہنوں کی آبیاری کرتی تھیں۔بھگت سنگھ مطالعے کا بےحد شوقین تھا۔ اس کے ہاتھ کبھی خالی نہ ہوتے،کوئی نہ کوئی کتاب اس کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔دوارکاداس لائبریری کے اس زمانے کے لائبریرین سری راجہ رام شاستری(جو بعد میں معروف مزدور لیڈر بنے)کے بقول وہ کارل مارکس، بکونِن،انقلاب روس اور دیگر انقلابیوں کے ساتھ ساتھ انقلابوں کی تاریخ خصوصی طور پر پڑھتا تھا۔گھنٹوں لائبریری میں وقت گزارنا بھگت سنگھ کاپسندیدہ مشغلہ تھا۔
بھگت سنگھ کو کالج میں متعددایسے لوگوں سے ملنے کاموقع ملا جن میں اس جیسی انقلابی روح تھی۔ ان میں یش پال،بھگوتی چرن،سکھ دیو، رام کرشن، تیرتھ رام اور جھنڈا سنگھ قابل ذکر تھے۔ بھگت سنگھ کے بھگوتی چرن اور سکھ دیوکے ساتھ رابطے ساری زندگی رہے۔
نیشنل کالج کا تعلیمی نظام بڑا منفر د تھا۔ اساتذہ اور طلبا کے درمیان قریبی تعلقات ہوتے تھے۔ شام کو طالب علم اور استاد اکثر ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے اور مختلف مضامین و عنوانات پر سیر حاصل گفتگو کرتے۔ کئی دفعہ طالب علم اور استاد چاندنی راتوں میں راوی میں کشتی رانی کے لیے چلے جاتے، یہاں بھی ان کی گفتگو کچھ نصابی اور کچھ غیر نصابی ہوتی تھی۔ یہ ملاقاتیں اور ملاقاتوں کے دوران بحث مباحثے کا ماحول شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔
کالج میں جن احباب کے مختلف موضوعات پر لیکچر ہوتے ان میں لالہ لاجپت رائے اور بھائی پر مانندنمایاں تھے۔ یہ لیکچر نوجوان طلبا کی سوچ کو مثبت رنگ دینے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ کالج میں طلبا اور اساتذہ کی زیادہ تر گفتگوفرانسیسی انقلاب، آئرلینڈ کے انقلاب، ڈیل ویرہ کی صان فین تحریک یا روسی انقلاب کے موضوعات پر ہوتی تھی۔ اساتذہ طالب علموں کے لیے لائبریریوں سے انقلابی مواد سے بھر پور کتابیں ڈھونڈ کر لاتے تھے۔
نیشنل کالج کے پر وفیسرجے چندودیالنکر سے طلبا بہت متاثر تھے۔ وہ تاریخ کے استاد تھے۔ ان کا دنیاکے مختلف انقلابات اور انقلابی تحریکوں کے بارے میں بہت وسیع مطالعہ تھا۔ بھگت سنگھ کو زار روس کے خلاف انقلابیوں کی جدوجہد اور تحریک بہت پسند تھی۔ وہ ہندوستان میں بھی ایسی ہی کوئی تحریک چاہتا تھا جس سے ہندوستان کو آزادی نصیب ہو سکے۔ وہ پروفیسر جے چندودیالنکرکے علم اور گفتگو سے بہت متاثر تھا۔ پروفیسرجے چندودیالنکرحقیقتاً اس کے نظریاتی گرو تھے۔
بھگت سنگھ کی بھر پور توجہ تعلیم پر تھی سیاست اور تاریخ اس کے پسندیدہ موضوع تھے۔وہ دوستوں اور اساتذہ کے ساتھ ان مضامین کے مختلف موضوعات پر خصوصی بحث کرتا تھا۔ اس کا مقصد اپنے علم کارعب ڈالنا نہ ہوتا تھا بلکہ وہ ان بحثو ں کے ذریعے اپنے ذ ہنی الجھاؤ اور خامیوں کو دور کرتا تھا۔ وہ ایک سنجیدہ طالب علم ہی نہ تھا وہ دوستوں کے ساتھ مل کر خوش گپیاں اور شرارتیں بھی کرتا تھا۔ کالج کے پروفیسر سوندھی صاحب ذرا غیر حاضر دماغ تھے۔ وہ اپنے لیکچر کے دوران کبھی کبھار اونگھ جایا کر تے تھے اور اس کے باعث وہ اپنے موضوع سے بھٹک بھی جایا کرتے تھے۔
بھگت سنگھ اورکچھ دیگر طلبا اکثر ان کی کلاس سے فرار اختیار کیا کرتے۔اس معاملے میں ان کا طریقہ کار بڑا مزیدار ہوتا تھا۔ پروفیسر قدیم تاریخ کے ایک کردار اشوک کے انتظام حکومت اور انصاف پر گفتگو کررہے ہوتے اور بھگت سنگھ اٹھ کر ایک غیر متعلقہ سوال کردیتا کہ جناب سنا ہے کہ”انگریز تجارت کے لیے ہندوستان آئے تھے بعد ازاں یہاں کے حکمران ہوگئے“۔
پروفیسرسوندھی اپنے لیکچر سے بالکل الٹ سوال پر بھگت سنگھ کو ڈانٹتے اور کہتے کہ ”میرے لیکچر کے دوران سوالات مت کیا کرو اس سے میری روانی متاثر ہوتی ہے“۔ بھگت معذرت کرکے بیٹھ جاتا پھر طے شدہ منصوبے کے مطابق سکھ دیو کھڑ ا ہوجاتا اور کہتا کہ جناب”بھگت سنگھ تو ایک مکمل بے و قوف آدمی ہے، آپ شاہ جہاں کے دور کی بات کررہے ہیں اور یہ درمیان میں انگریز لے آیا“۔
پروفیسر سوندھی صاحب تھوڑا گڑبڑا جاتے اور کہتے کہ”شاہ جہاں سے تمہاری کیا مراد ہے میں نے کب شاہ جہاں کا ذکر کیا ہے“۔ اب کوئی دوسرا لڑکا سکھ دیو کی جگہ لے لیتا اور کہتا”نہیں جناب ان دونوں کی توجہ نہیں تھی میں نے ان دونوں کو بتایا تھا کہ آپ محمد تغلق کے تضادات پڑھا رہے ہیں مگرانہوں نے مجھ پر اعتبار نہیں کیا۔“
ایسی صورت حال میں پروفیسر سوندھی صاحب خو د تضادات کا شکار ہو جاتے تاہم جب وہ جماعت کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی مسکراہٹ دیکھتے تو سمجھ جاتے کہ یہ بھگت سنگھ اور اس کی ٹولی کی کوئی شرارت ہے۔چنانچہ وہ باقی کلاس کی بہتری کے لیے اس شرارتی ٹولے کو کلاس سے نکال دیتے اوریہی اس شرارتی ٹولے کا مقصد ہوتا تھا۔ کچھ دنوں بعدیہ لوگ پھر کسی ایسی بے ضررشرارت پرکلاس سے باہر نکالے جاتے۔ کبھی کبھار وہ تذبذب کا شکار ہوکر خود ہی کلاس چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔
ہندی کے استاد پروفیسر مہتہ بہت قابل استا دتھے وہ بڑی دلجمعی سے پڑھاتے لیکن ان کا تلفظ کچھ عجیب ساتھاجس سے لڑکوں کی ہنسی نکل جاتی۔بھگت سنگھ کواپنی ہنسی پر کبھی ضبط نہ ہو تا تھا جب وہ پروفیسر صاحب کے کسی تلفظ پر ہنس دیتا تو اس کو ڈانٹ پڑتی، وہ اپنی ہنسی کی وجہ دوستوں کی کوئی شرارت بتاتا جس پر پروفیسر مہتہ اُسے اور اُس کے دوستوں کو کلاس سے باہر نکال دیتے یوں بھگت سنگھ کی ہنسی کی سزا میں اس کے دوست بھی شامل ہوجاتے تھے۔
بھگت سنگھ کو تعلیم کے علاوہ ملکی اور قومی مسائل سے بڑی دلچسپی تھی، وہ اپنے آپ کو ملک کے اہم مسائل و واقعات سے باخبر رکھتاتھا۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کے گھر میں اخبار کا مطالعہ اس کے دادا اور والد باقاعدگی سے کرتے تھے جس سے اُسے بھی اخبار کے مطالعے کی عادت پڑ گئی۔ اخبار کے مطالعے کے بعد سب لوگ ایک دوسرے سے ملکی مسائل پر گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ خبروں کے پس منظر اور پیش منظر پربھی غور کرتے تھے۔
لاہور آکربھی بھگت سنگھ نے ا خبار کے مطالعے کی عادت کو ترک نہ کیا۔ وہ جب بھی ملکی مسائل کی کوئی اہم خبر پڑھتا تو اپنے دادا سردار ارجن سنگھ کو گاؤں میں خط کے ذریعے ضرور آگا ہ کرتا۔ اس نے 14نومبر 1921ء کو ایک خط میں اپنی خیر خیر یت کے علاوہ انہیں اس خبر سے بھی آگاہ کیا کہ ”ریلوے کے ملازمین ان دنوں ہڑتال کا ارادہ رکھتے ہیں اور امید ہے کہ یہ کام اگلے ہفتے شروع ہوجائے گا۔“
بھگت سنگھ کو ایسے گیت بہت پسند تھے جن میں وطن کی محبت کا ذکر ہوتا۔ وہ اکثر ایسے گیت گا گا کر اپنی وطن سے محبت کی تجدید کرتا رہتا تھا۔ وہ کالج کی غیر نصابی سرگرمیوں با لخصوص ڈراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ کالج میں پیش کیے جانے والے اکثر ڈراموں میں وطن کی محبت کا اظہار ہوتا تھا۔ اس نے ایک ڈرامے میں ششی گپتا Shashi Guptaکا کردار ادا کیا اس کا کردار اتنا جاندار تھا کہ بھائی پرمانند جنہوں نے یہ ڈراما دیکھا تھا وہ عش عش کر اُٹھے اور انہوں نے بھگت سنگھ کو داد دیتے ہوئے کہا کہ میر ا بھگت سنگھ مستقبل کاششی گپتا Shashi Gupta ہے۔
کالج کے اسٹیج سے ڈرامہ مہابھارت پیش کیا گیا۔ ڈرامہ کی تاریخی کہانی کو موجودہ تناظر میں ڈھالا گیااور اس کا نام ”کرشن وجے“رکھا گیا۔ڈرامے میں انگریزوں کو ”کوروں“کا روپ دیا گیااور دیش کے وفاداروں کو ”پانڈؤں“کے کردار میں پیش کیا گیا۔ ڈرامے میں بانکے دیال کے مشہور پنجابی ترانے ”پگڑی سنبھال او جٹا پگڑی سنبھال او“کی لے اور سر میں ایک ترانہ تیا ر کیا گیا ”کدی تو وی ہندیا ہوشسنبھال او۔تیر ا گھر بار بدیشی لٹ کے لے گئے اور تو بے خبر سو ریہا ہے“(کبھی تم بھی ہندوستانی ہوش میں آؤ تمہار گھر غیر ملکی لوٹ کے لے گئے ہیں اور تم بے خبر سورہے ہو)۔
حکومت نے بانکے دیال کے ترانے ”پگڑی سنبھال او جٹا پگڑی سنبھال او“اور اس جیسے دیگر ترانوں پر پابندی لگائی ہوئی تھی کیونکہ ان میں غیر ملکی آقاؤں کے خلاف کھلا اعلان جنگ تھا۔ڈرامہ کلب کے متعدد ڈراموں میں بھگت سنگھ کا کردار مرکز ی ہوتا تھا۔
بھگت سنگھ اپنے کھلے جسم اور قد کاٹھ کی وجہ سے ہر طرح سے ہیرو لگتا تھا۔ چنانچہ جب وہ اپنی پاٹ دار آواز میں ڈائیلاگ کی ادائیگی کرتا تو ڈرامہ سامعین کے دلوں میں اُتر جاتا۔ ان ڈراموں کا مقصد بھی یہی تھاکہ انگریزوں کے خلاف آواز بلند کی جائے اور لوگوں میں دیش بھگتی کے جذبات اُبھارے جائیں۔ جلد ہی حکومت نے کالجوں میں ایسے ڈرامے کرنے پر پابندی لگادی جن میں دیش بھگتی کا پیغام ہوتا تھاکیونکہ دیش بھگتی سے مراد انگریز حکومت سے بغاوت کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
بھگت سنگھ لباس کے معاملے میں زیادہ شوقین نہ تھا اُسے جو ملتا پہن لیتا مگر اس کا ڈیل ڈول ایسا تھا کہ اُس پر سب سج جاتا تھا۔وہ عموماً پاجامہ پہنتا مگر اُسے دھوتی پہننا پسند تھا۔ وہ کھانا خوب پیٹ بھر کر کھاتا تھا۔اُسے دودھ اور میٹھا بہت پسند تھے۔انارکلی میں وہ روز انہ شام کو دودھ پیتا اور ایک خاص جگہ کا حلوہ بھی شوق سے کھاتا۔وہ اکثر دوستوں کو بھی حلوہ کھلانے ساتھ لے جاتا۔
یش پال اس کے بچپن کا دوست اکثر اس کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ وہ ایک دفعہ بھگت سنگھ کے گھر رات کا کھانا کھا رہا تھا۔ماتا ودیاوتی(بھگت سنگھ کی والدہ)نے بہت سارا گھی ان کے کھانے میں انڈیل دیا وہ گھی اتنا زیادہ تھا کہ بھگت سنگھ جو سبزی یا دال میں بہت زیادہ گھی کھانے کا عادی تھا اس نے بھی ماں سے احتجاج کیا۔
ماں نے پیار سے بھگت سنگھ کے صحت مند گالوں کو انگلی سے دباتے ہوئے یش پال کو شکایتاً کہا کہ”دیکھو یہ لڑکا کچھ نہیں کھاتا اور دیکھو یہ کتنا کمزور ہوگیا ہے۔“ماں اگر یہ کمزور ہے تو پھر مجھے تو زندہ ہی نہیں رہنا چاہیے”یش پال نے جواب دیا۔“ نہیں ”ایسا نہیں کہتے ایسا کہنے سے بُری نظر لگ جاتی ہے ۔“ ماں نے فوراًٹوکا۔
Categories: فکر و نظر