اتر پردیش کے متھرا شہر میں دائر اس عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ 17ویں صدی میں مغل حکمراں اورنگ زیب کےحکم پر ہندو مندر کو توڑکر یہاں پر مسجد بنائی گئی تھی۔ عرضی میں مسجد کی پوری زمین مندر ٹرسٹ کو سونپنےکی اپیل عدالت سے کی گئی ہے۔
نئی دہلی: اتر پردیش کے متھرا شہر میں شری کرشن جنم استھان احاطہ کے پاس واقع شاہی عیدگاہ مسجد کو وہاں سے ہٹانے کے لیے عدالت میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے۔عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ 17ویں صدی میں مغل حکمراں اورنگ زیب کے حکم پر ہندو مندر کو توڑکر اس مسجد کوبنایا گیا تھا۔
لکھنؤ کے رنجنا اگنی ہوتری سمیت آدھا درجن لوگوں نے شری کرشن جنم استھان سیوا سنستھان اور شاہی عیدگاہ مینجنگ کمیٹی کے بیچ پانچ دہائی پہلے ہوئے سمجھوتے کو غیرقانونی بتاتے ہوئے اس کو رد کرکے مسجد کی پوری زمین مندر ٹرسٹ کو سونپنے کی اپیل عدالت سے کی ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل وشنو شنکر جین کی جانب سےگزشتہ جمعہ کو متھرا کی ایک عدالت میں داخل کی گئی عرضی میں کہا گیاہے کہ 1968 میں شری کرشن جنم استھان سیوا سنستھان اور شاہی عیدگاہ منتظمہ کمیٹی کے بیچ ہوا سمجھوتہ پوری طرح سے غلط ہے اس ردکیا جائے۔
دیوانی جج(سینئر ڈویژن)چھایا شرما کی عدالت میں جمعہ کو لکھنؤ کے رنجنا اگنی ہوتری اور تری پراری ترپاٹھی، سدھارتھ نگر کے راجیش منی ترپاٹھی اور دہلی کے پرویش کمار، کرنیش کمار شکلا اور شیواجی سنگھ کی جانب سے داخل کی گئی عرضی میں شری کرشن جنم استھان احاطہ میں بنی شاہی عیدگاہ مسجد کو زمین دینے کو غلط بتایا گیا ہے۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ 1968 میں شری کرشن جنم استھان سیوا سنگھ (جو اب شری کرشن جنم ستھان سیوا سنستھان کے نام سے جانا جاتا ہے)اور شاہی عیدگاہ مسجد کے بیچ زمین کو لےکرسمجھوتہ ہوا تھا۔ اس میں طے ہوا تھا کہ مسجد جتنی زمین میں بنی ہے، بنی رہےگی۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، عرضی گزاروں نے کہا ہے کہ متنازعہ مقام کترا کیشو دیو(تاریخی نام)کی 13.37 ایکڑ زمین کا ایک ایک انچ بھگوان شری کرشن کے بھکت اور ہندو کمیونٹی کے لیے مقدس ہے۔عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کرشن کا جنم استھان ‘حقیقی کاراگار’مسجد کمیٹی کے کے ذریعے بنائی گئی تعمیر کے نیچے ہی واقع ہے اور وہاں پر کھدائی ہونے پر سچائی کا پتہ چلےگا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ سیوا سنگھ اور مسجد کمیٹی نے سمجھوتہ کرتے وقت ایک‘انسانی کاراگار’بنا دیا تھا، تاکہ سیاسی وجوہات سے لوگوں سے سچائی چھپائی جا سکے۔عرضی گزاروں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 26 کےتحت انہیں حق ہے کہ وہ بھگوان شری کرشن براجمان کی زمین کی دیکھ ریکھ کر سکیں۔
عرضی گزاروں کے وکیل وشنو شنکر جین نے بتایا،‘جس زمین پر مسجد بنی ہے، وہ شری کرشن جنم استھان ٹرسٹ کے نام پر ہے۔ ایسے میں سیوا سنگھ کےذریعے کیا گیا سمجھوتہ غلط ہے۔ اس لیے مذکورہ سمجھوتے کورد کرتے ہوئے مسجد کو ہٹاکر مندر کی زمین اسے واپس کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔’
اس معاملے میں عرضی گزاروں کی جانب سے اتر پردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ و شاہی عیدگاہ ٹرسٹ منتظمہ کمیٹی کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
اس سلسلے میں شری کرشن جنم استھان ٹرسٹ اور شری کرشن جنم استھان سیوا سنستھان کے سکریٹری کپل شرما نے سنستھان پر لگائے گئے عدم فعالیت کے الزامات کی پوری طرح سے تردیدکرتے ہوئے کہا، ‘سنستھان مندر مؤثر نظم ونسق کے ساتھ ساتھ مندر ٹرسٹ کے ذریعےچلائے جا رہے متعدد منصوبوں کے توسط سے عوامی خدمات کے کام پوری عقیدت اور لگن کے ساتھ کیےجانے کی جانکاری دی ہے۔’
دائر کی گئی عرضی کے سلسلے میں کسی بھی طرح کا ردعمل دینے سے پرہیز کرتے ہوئے انہوں نے ٹرسٹ کےدیگر عہدیداروں ماہرین قانون سے مشورہ کیے جانے کے بعدمناسب کارروائی کئے جانے کی بات کہی ہے۔
یہ عرضی ایودھیا رام مندر تحریک کے وقت ستمبر 1991 میں اس وقت کی پی وی نرسمہا راؤ سرکارکے ذریعے پاس کیے گئے قانون ‘عبادت گاہ(خصوصی اہتمام)ایکٹ،1991’ کے سلسلے میں کافی اہم ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ کو چھوڑکر 15 اگست 1947 تک کےعبادت گاہوں کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائےگی۔
حالانکہ سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر کےاس قانون کو چیلنج دیا گیا ہے۔ عرضی گزاروں نے کہا ہے کہ یہ قانون غیرآئینی ہے، کیونکہ یہ عدالتی جائزہ کے حق کو چھینتا ہے، جو کہ آئین کااہم حصہ ہے۔متھرا میں دائر اس نئی عرضی میں کہا گیا ہے کہ 1991 ایکٹ کے اہتمام اس معاملے میں لاگو نہیں ہیں، لیکن اس پر جامع دلیل نہیں دی گئی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں