سنگھ کے مقاصدکو حاصل کرنے کے لیے یوگی آدتیہ ناتھ ایک مثالی شخصیت ہیں۔وہ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ دلتوں کو اپنی جگہ پتہ ہونی چاہیے۔
گویااتر پردیش کے ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کے ساتھ ریپ اور تشددکم خوفناک تھی، پولیس نے لاش کو گھر لے جانے دینے کی درخواست کو خارج کرتے ہوئے رات گئے سب سے چھپ کرآخری رسومات کی ادائیگی کر دی۔
ریپ کا الزام ٹھاکرکمیونٹی کے چارمردوں پر ہے۔ یہ پورا واقعہ اشرافیہ کے گھمنڈاور پولیس کی بے رحمی کا مظہر ہے۔
ہندوستان میں پولیس تعصب سے بھری ہوئی اور قانون سے بےخوف ہو سکتی ہے اور یوپی میں توخاص طور پریوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں، ان کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، جیسا اُس انکاؤنٹر میں دیکھا گیا، جس میں مجرم سرغنہ وکاس دوبے کومنصوبے طریقے سے ہلاک کر دیا گیا۔
اب پولیس اہلکار ان سے ہی بغاوت کرنے پر آمادہ ہیں۔ پولیس نےقتل کے معاملے میں مشتبہ ایک پولیس اہلکار کو سسپنڈکرنے کےوزیر اعلیٰ کے حکم کو نظر انداز کر دیا ہے۔اس بیچ، آدتیہ ناتھ ہر ممکن طریقے سے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اورہرطرح کے اختلافات کو دبا رہے ہیں۔
ڈاکٹر کفیل خان کو گورکھپوراسپتال حادثے کے دوران، جس میں کئی بچوں کی موت ہو گئی، آکسیجن کی کمی کی جانب اشارہ کرنے کی وجہ سے، مہینوں تک جیل میں بند رکھا گیا۔شہریت(ترمیم)قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والے متعدد لوگوں کی ملکیت ضبط کر لی گئی۔
آدتیہ ناتھ شہروں اور عجائب خانوں کا نام بدلنے کے کام میں مسلسل مصروف ہیں اور اب کاروباریوں کو ریاست میں سرمایہ کاری کے لیےمدعو کر رہے ہیں۔اور انہیں ایسا کیوں کرنا نہیں چاہیے؟ کیا انڈیا ٹو ڈے نے انہیں لگاتار تین بار ہندوستان کا سب سے عمدہ وزیر اعلیٰ قرار نہیں دیا ہے؟
یہاں تک کہ کاروباری دنیا کے لوگ اب انہیں وزیر اعظم کے عہدے کی سب سے اچھی پسند کے طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آخر، کمپنیوں کو مزدوروں کو بے روک ٹوک برخاست کرنے کی اجازت جو مل جائےگی۔
ایک زخم کو اور گہرا کرتے ہوئے، اب جبکہ اس جگہ پر ایک مندر بھی بنایا جا رہا ہے، جہاں 400 سال پرانی مسجد کو شرپسندوں نےبی جے پی رہنماؤں کی حوصلہ افزائی کے بیچ منہدم کر دیا تھا، اس معاملے کےتمام ملزمین کوبے قصورقرار دیا گیا ہے۔
اگلا پڑاؤ کاشی ہے، اور اس کے بعد متھرا کی باری آئےگی۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے آشیرواد سے یہ سارے منصوبے پورے ہوں گے۔ہماری نظروں کے سامنے جو نیا درخشاں اتر پردیش ابھر رہا ہے، اس کا دیدار کیجیےاشرافیہ کی عدم برداشت اور کاروباریوں کا دوست۔
اور اس سے پہلے کہ ہم اسے جان پائیں، یہ ہندوستان کے لیے بھی یہ ایک ماڈل بن جائےگا۔ گجرات ماڈل گزشتہ کل کی خبر ہے؛ آنے والا کل اتر پردیش ماڈل کے نام ہوگا۔گجرات ماڈل کیسے گڑھا گیا، یہ یاد کرنا یہاں مفید ہوگا۔
گجرات فسادات ، جس میں ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے، نریندر مودی ایک طرح سے اچھوت بن گئے تھے۔ وہ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی(جنہوں نے دو ہفتے بعد پوری طرح سے ایک الگ راگ الاپتے ہوئے بالواسطہ طور پر گودھرا ٹرین کو آگ لگانے اور اس طرح ہندوردعمل کی آگ کی چنگاری بننے کے لیے مسلمانوں کو قصوروار ٹھہرایا تھا)کے ہاتھوں برخاست ہوتے ہوتے بال بال بچے تھے۔
مودی نے اپنی کرسی بچا لی، لیکن ہندوستان اور بین الاقوامی کمیونٹی کے کئی لوگوں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ ہندوستانی کاروباری اپنی تنقید میں ترش تھے۔مارچ 2002 میں بینکر دیپک پاریکھ نے تکلیف سے بھرکر کہا، ‘بین الاقوامی سطح پر ہم نے ایک سیکولرملک کے طور پر اپنا نام گنوا دیا ہے (حالانکہ بعد میں انہوں نے بھی اپنا سر بدل لیا)۔’
دوسرے کاروباریوں نے بھی بے رحم ہلاکتوں اور لوٹ پاٹ پر اپنے غصے کا اظہار کیا تھا۔ کئی ممالک نے مودی کو ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ امریکہ جیسے کچھ ملک نے کھلے طور پر، تو دوسروں نے چپ چاپ۔سچائی یہ بھی ہے کہ کچھ سالوں بعد ان کے ڈپلومیٹ گجرات جا رہے تھے، ان سے ملاقات کر رہے تھے اور سرمایہ کاری پر چرچہ کر رہے تھے۔ اور 2013 میں، ایک وائبرینٹ گجرات کانفرنس میں،ٹاپ کارپوریٹ وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی تعریف کرنے کے لیے ایک دوسرےپر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
مکیش امبانی نے کہا،‘ان کے پاس ایک عظیم الشان وژن ہے۔’ انل امبانی نے اعلان کیا،‘وہ مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل کی طرح ہیں’۔ رتن ٹاٹا نے مبالغہ سے کام لیتے ہوئے کہا، ‘گجرات ہندوستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاروں کے مفاد والی ریاست ہے ‘اس کاسہرامسٹر مودی کو جاتا ہے۔’
تب تک، وہ اپنے قومی عزائم کو نمایاں کرنا بھی شروع کر چکے تھے اور وہ نہ صرف کاروباری دنیا میں بلکہ ان تمام ہندوستانیوں کے بیچ بھی مقبول ہو رہا تھے، جو ان کے بارے میں صرف اچھی باتیں سن رہے تھے خوبصورت سڑکیں، کوئی بجلی کٹوتی اور سب کے لیے امن وامان اورتحفظ۔
جو نہیں کہا گیا، وہ یہ کہ انہوں نے مسلمانوں کو الگ تھلگ کر دیا تھا اور انہیں ان کی جگہ دکھا دی تھی۔ جہاں تک 2002 کا سوال ہے، تب تک اسے پوری طرح سے بھلا دیا گیا اور نقطہ چینی کرنے والوں سے ‘آگے بڑھنے’ کی اپیل کی گئی۔
اس کے بعد کیا ہوا، یہ ہم سب نے دیکھا۔ میڈیا نے ایک آوازمیں اٹھ کر ان کی حمایت کی اور ساتھ ہی ساتھ ایک آواز میں کانگریس کی تنقید کی۔ نریندر مودی کے ہرلفظ کو سرخیوں میں جگہ دی گئی۔جن کی یادداشت اچھی ہے، وہ وارانسی میں ان کے روڈشو کو کور کر رہے ٹی وی صحافیوں اور ناموراینکروں کے ہانپتے ہوئےجوش کو بھولے نہیں ہوں گے۔
عام تصور ہے کہ میڈیا نے اپنے ضمیر کو 2014 کے بعد فروخت کیا اور مودی فین کلب میں شامل ہو گیا، لیکن حقیقت میں یہ بہت پہلے ہو چکا تھا۔مبصروں کو الہام ہوا کہ وہ(مودی)اب بانٹنے والے مدعوں پر بات نہیں کر رہے تھے، اور صرف اقتصادی ترقی ان کی سوچ کے مرکز میں تھی۔
کرپٹ سرکار کی قیادت کر رہے منموہن سنگھ نے ہندوستان کی معیشت کو چوپٹ کر دیا تھا۔ بےداغ مودی اس کو بھنور سےنکال لیں گے۔ غیرملکی سرمایہ کاری میں تیزی آئےگی، نوکریوں کی کوئی کمی نہیں ہوگی اور ہندوستان ایک سپرپاور بن جائےگا۔
ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے اورہنر کی کان مودی نے ہندوستان کی معیشت کو منجدھار میں بغیر ناخدا کے چھوڑ دیا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہیٹ کرائمس میں ڈرامائی طور پراضافہ ہوا ہے اور مسلمانوں کو حاشیے پر دھکیلا جا رہا ہے۔
یہ ہمیشہ سے سنگھ پریوار کا ایجنڈہ تھا، جسے اس نے اچوک طرح سے انجام دیا ہے۔ مودی کو بڑے ووٹرطبقہ کے بیچ قابل قبول بنانے کے لیے ان کی امیج کو نئے سرے سے گڑھا جانا ضروری تھا۔فرقہ وارانہ سوچ کا حامل ہونے کے باوجود کئی شہری ہندوستانی شدت پسندمذہبی شخص کی امیدواری شاید قبول نہیں کرتے۔ اس لیے ایک نیا مودی گڑھا گیا اور یہ کامیاب رہا۔
دہلی میں مودی سرکار کسانوں اور مسلمانوں کے خلاف قوانین کو آگے بڑھا رہی ہے۔کاروباریوں کے مفادوالےاصولوں کو بدل رہی ہے۔ مخالفین کے ساتھ سختی سے پیش آ رہی ہے۔ ساتھ ہی یہ یقینی بنا رہی ہے کہ اس کے اپنے لوگوں کو پولیس بےوجہ پریشان نہ کرے۔
لیکن مرکزمیں سرکار چلانے سے ریاست کی سطح پراختیارات نہیں ملتے ہیں اور یہ کبھی کبھی ہاتھ باندھ سکتے ہیں۔ یہیں امکانات کے طور پر یوگی آدتیہ ناتھ ابھر رہے ہیں۔وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود، وہ صحافیوں کو نوٹس بھیجنے کے لیے اپنی پولیس کوکہیں بھی بھیج سکتے ہیں۔ وہ یوپی کے بھگوان اور مالک ہیں۔ دہلی میں انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
یوپی ماڈل کی کوئی مخالفت نہیں کرےگا، اور اس بات کی کوئی فکرنہیں ہے کہ یہ بین الاقوامی کمیٹی کو کیسا دکھتا ہے۔آدتیہ ناتھ کی دنیا دیکھنے کی نظر میں خارجہ پالیسی اور ڈپلومیسی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ قانونی باریکیاں وقت کی بربادی ہیں اورجمہوریت کے لیے جذباتی لوگوں کے لیے ہے۔
ایک مشن کو پورا کیا جانا ہے اور سنگھ کو معلوم ہے کہ وہ اسے حاصل کر لےگا۔ ان کی امیج بےداغ ہے وہ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ دلتوں کو اپنی جگہ پتہ ہونی چاہیے۔سنگھ کےنظریےکے مطابق نریندر مودی بہت نرم ہیں اور اپنی امیج کے بارے میں بھی بہت فکرمند رہتے ہیں۔ لیکن آدتیہ ناتھ کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ اور اسی لیے یوگی آدتیہ ناتھ آنے والے کل کا چہرہ ہیں۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر