الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ مزاحمت کے حق کو آئین کےآرٹیکل 19 کے تحت تحفظ حاصل ہے اور سرکار کے نظم ونسق کی تنقید کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔
نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ بدھ کو کہا کہ سرکار کے کاموں کے خلاف محض احتجاج درج کرنا جرم نہیں ہے۔جسٹس پنکج نقوی اور وویک اگروال کی بنچ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا، ‘ریاست میں نظم ونسق کے سوال پر احتجاج کا اظہارکرنا ہمارے جیسےآئینی اوربڑی جمہوریت کی خصوصیت(ہال مارک)ہے، اس چیز کو آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت تحفظ حاصل ہے۔’
لائیو لاء کی رپورٹ مطابق، یشونت سنگھ نام کے ایک شخص کی جانب سے دائر کی گئی عرضی پرشنوائی کے دوران کورٹ نے یہ تبصرہ کیا۔ عرضی گزار نے اتر پردیش سرکار کے خلاف تنقیدی تبصرہ کرنے کی وجہ سےیوپی پولیس کے ذریعےدرج کی گئی ایف آئی آر کو خارج کرنے کی مانگ کی تھی۔
سنگھ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے یوپی کو جنگل راج میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں نظم ونسق کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ اپنے اس دعوے کی حمایت کرنے کے لیے عرضی میں انہوں نے ریاست میں ہو رہے اغوا، مرڈر اور تاوان جیسےکئی واقعات کاذکر کیا تھا۔
عرضی گزار کے وکیل دھرمیندر سنگھ نے کہا، ‘اختلافات کاحق’آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کا حصہ ہے۔انہوں نے کہا،‘محض مخالفت کرنے سے جرم کا معاملہ نہیں بنتا ہے، صرف عرضی گزارکو اس کی رائے کے اظہار سے روکنے اور ڈرانے دھماکنے کے مقصد سے یہ ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔’
سنگھ کے خلاف آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ66-ڈی (کمپیوٹر کا استعمال کرکے کسی اور کے حلیہ میں جعلسازی کرنے کی سزا)اور آئی پی سی کی ددفعہ500(ہتک عزت)کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔کورٹ نے ان دونوں دفعات پرتفصیل سے غورکیا اور کہا کہ اس کے تحت یہاں پر جرم کا کوئی معاملہ نہیں بنتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ اس کیس میں آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ66-ڈی کے تحت اس کے آس پاس بھی کوئی جرم کا معاملہ نہیں بنتا ہے، کیونکہ یہ‘کسی کاحلیہ بناکر جعلسازی’ کرنے سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں ایسا کوئی جرم نہیں ہوا ہے کہ عرضی گزار نے کسی دوسرے کے ٹوئٹر ہینڈل سے ٹوئٹ کیا ہو یا جعلسازی کی ہو۔
اس کے ساتھ ہی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ آئی پی سی کی دفعہ500 کے تحت بھی کوئی جرم نہیں بنتا ہے، کیونکہ متعلقہ ٹوئٹ ہتک عزت کی تعریف کے دائرے میں نہیں ہے۔
Categories: خبریں