خصوصی رپورٹ: پچھلے سال نومبر میں چیف انفارمیشن کمشنر اور تین انفارمیشن کمشنرز کی تقرری ہوئی تھی۔ اس سے متعلق دستاویز بتاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود سرچ کمیٹی نے بنا شفاف عمل اورمعیار کے ناموں کو شارٹ لسٹ کیا تھا۔ وہیں وزیر اعظم پر دو کتاب لکھ چکے صحافی کو بنا درخواست کے انفارمیشن کمشنر بنا دیا گیا۔
آر ٹی آئی قانون کو مناسب طریقے سے نافذ کرنے اورآر ٹی آئی معاملوں کےحل کے لیے بنی سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) میں انفارمیشن کمشنرز کی تقرری ایک بار پھر سے تنازعات کےدائرے میں ہے۔پچھلے سال نومبر، 2020 میں چیف انفارمیشن کمشنر اور تین انفارمیشن کمشنر کی تقرری کو لےکرڈپارٹمنٹ آف پرسنل اینڈٹریننگ(ڈی اوپی ٹی)کی جانب سےعوامی کیے گئے دستاویز انتخاب کے عمل میں بے ضابطگی اورمن مانے رویے کو دکھاتے ہیں۔
عالم یہ ہے کہ بنا درخواست کے ہی ایک انفارمیشن کمشنر کی تقرری کی گئی ہے، جنہوں نے ‘مودی ماڈل’ کو لےکر دو کتابیں لکھی ہیں اور انہیں موجودہ سرکار کے نظریے کا قریبی مانا جاتا ہے۔اتنا ہی نہیں سی آئی سی میں چھ انفارمیشن کمشنروں کی تقرری کے لیے سرکار نے کارروائی شروع کی تھی، لیکن وزیر اعظم کی صدارت والی سلیکشن کمیٹی نے بنا کوئی وجہ بتائے صرف تین انفارمیشن کمشنروں کی ہی تقرری کی۔ نتیجتاً کمیشن میں ابھی بھی تین عہدے خالی ہیں اور اپیلوں اور شکایتوں کا بوجھ لگاتار بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
دستاویزوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس کمیٹی میں شامل لوک سبھا میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری کے اعتراضات کو نہیں سنا گیا، جس کو لےکر انہوں نے ڈسینٹ نوٹ دیا تھا۔
سرچ کمیٹی نے اپنے دائرے سے باہر جاکر کام کیا
سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں چھ کمشنرز کی تقرری کے لیے پچھلے سال جولائی، 2020 میں سرکار نے اپنی ویب سائٹ اور اخباروں میں اشتہار نکالا تھا۔ اسے لےکرکل 355افراد نے درخواست دیا تھا۔
ریکارڈس کے مطابق، انفارمیشن کمشنروں کی تقرری کے لیے وزیر اعظم کی ہدایت پر ایک سرچ کمیٹی بنائی جاتی ہے، جس کی صدارت کابینہ سکریٹری کو کرنی ہوتی ہے۔ اس کمیٹی کا کام کل درخواستوں میں سےمناسب افراد کو شارٹ لسٹ کرنا ہے، جس کی بنیاد پرسلیکشن کمیٹی کسی انفارمیشن کمشنر کی تقرری کی سفارش کرتی ہے۔
ویسے تو آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 میں کہیں بھی ‘سرچ کمیٹی’ کا کوئی اہتمام نہیں ہے، لیکن وزیر اعظم کی صدارت والی کمیٹی کی مدد کے لیے اس کا قیام کیا جاتا ہے۔حالانکہ دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس کمیٹی نے انفارمیشن کمشنر کے عہدےکے لیے ناموں کو شارٹ لسٹ کرنے میں من مانا رویہ اپنایا اور اپنے دائرے سے باہر جاکر کام کیا۔
اس کے منٹس آف میٹنگ کے مطابق، درخواست گزاروں میں سے شارٹ لسٹ کرنے کے بجائے ‘سرچ کمیٹی نے اپنے ممبروں کی جانب سے بتائے گئے ناموں پر بھی غور کیا’اور کل سات لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا، جس میں انڈیا ٹو ڈے میگزین کے سابق ڈپٹی ایڈیٹر ادے مہر کر کا بھی نام شامل تھا، جنہوں نے درخواست ہی نہیں دیا تھا۔
Minutes of Meeting by The Wire
منٹس میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ آخر کس بنیاد پر درخواست نہیں کرنے والے شخص کا بھی نام سجھایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس میں ان باتوں کی تفصیلات بھی دستیاب نہیں ہے کہ جن درخواست گزاروں کے ناموں کو خارج کیا گیا یا چنا گیا، اس کی بنیادیامعیار کیا ہے؟
انفارمیشن کمشنروں کی تقرری میں شفافیت اور جوابدہی کو لےکر فروری، 2019 میں دیے اپنے بےحداہم فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا…
درخواست گزاروں کو شارٹ لسٹ کرنے کے لیے سرچ کمیٹی کے ذریعے اپنائے گئے معیار کو عوامی کیا جانامناسب ہوگا، تاکہ یہ یقینی ہو سکے کہ شارٹ لسٹنگ غیرجانبدارانہ اور معیار کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
حالانکہ فائلوں کی جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ غوروخوض میں شارٹ لسٹنگ کے لیے ایسا کوئی مدلل معیار درج نہیں کیا گیا ہے۔ کمیٹی کی بیٹھک کے منٹس میں صرف اتنا لکھا ہے کہ درخواست گزاروں کے تجربات اور عہدے کی معقولیت پر غور کرنے کے بعد سرچ کمیٹی نے ان ناموں کو شارٹ لسٹ کیا ہے۔
جبکہ کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ سرچ کمیٹی درخواست گزاروں کی لسٹ کے باہر سے ناموں کو سجھا سکتی ہے۔سرکار نے 13 دسمبر 2019 کو اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں دائر ایک تعمیلی رپورٹ میں کہا تھا کہ انفارمیشن کمشنروں کی تقرری کے لیے اہلیت آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ12(5)میں دی گئی ہے، جس کے مطابق چیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمیشن کمشنر قانون،سائنس اور ٹکنالوجی، سماجی خدمات ، منتظم،صحافت، عوامی رابطہ یا انڈمنسٹریشن اورگورننس کا جامع علم اور تجربہ رکھنے والامعروف شخص ہونا چاہیے۔
خاص طور سے سرچ کمیٹی کو لےکر کہا گیا، ‘یہ سرچ کمیٹی کے اوپرمنحصر ہے کہ وہ موصولہ درخواستوں میں سے ناموں کو شارٹ لسٹ کرنے لیے طور طریقوں کو فروغ دیں۔’
‘مودی ماڈل’پر کتاب لکھنے والے کی تقرری
بہرحال، انفارمیشن کمشنر کی تقرری کے لیے سرچ کمیٹی کی سفارش ہی حتمی فیصلہ نہیں ہوتا ہے، اس پر آخری مہر سلیکشن کمیٹی لگاتی ہے۔اس کمیٹی میں وزیر اعظم نریندر مودی (صدر)، وزیرداخلہ امت شاہ (ارون جیٹلی کے انتقال کے بعد انہیں لایا گیا)اور لوک سبھا میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری شامل تھے۔
سرچ کمیٹی کے ذریعے شارٹ لسٹ کئے گئے سات ناموں میں سے سلیکشن کمیٹی نے 24 اکتوبر 2020 کو ہوئی بیٹھک میں 2:1 کی اکثریت سے تین لوگوں ہیرالال سماریہ، سروج پنہانی اور ادے مہر کر (جنہوں نے درخواست نہیں کیا تھا)کو چنا، جبکہ کمیشن میں چھ عہدے خالی تھے۔ اس کی وجہ سے سی آئی سی میں ابھی بھی تین عہدے خالی ہیں۔ کمیشن میں 10 انفارمیشن کمشنر اور ایک چیف انفارمیشن کمشنر ہونا چاہیے۔
اس میں سے سماریہ اور پنہانی دونوں نوکرشاہ رہ چکے ہیں۔
سماریہ وزارت روزگار اور محنت کےسکریٹری کے طور پر ریٹائر ہوئے تھے اور انہوں نے آندھرا پردیش سرکار میں بھی مختلف عہدوں پر کام کیا ہے۔ پنہانی ڈپٹی کنٹرولٹر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی)تھے اور انہوں نے وزارت تعلیم کے قومی اقلیتی تعلیمی ادارہ کمیشن کے سکریٹری کے طور پر بھی کام کیا ہے۔
وہیں ادے مہر کر انڈیا ٹو ڈے میگزین کے ڈپٹی ایڈیٹر تھے۔ ریکارڈ کے مطابق صحافت میں ان کا 36 سالوں کا تجربہ ہے۔ سال 1983 میں انڈین ایکسپریس کے سب ایڈیٹر کے طور پر کام شروع کرنے والے مہر کر نے ‘مودی ماڈل’پر دو کتابیں مارچنگ وتھ بلین اورسینٹراسٹیج لکھی ہیں۔
سی آئی سی کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ مہر کر ‘مودی ماڈل گورننس’ میں ایکسپرٹ ہیں اور انہوں نے اپنی کتابوں میں پی ایم مودی کے وزن کو بخوبی دکھایا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں ‘شدت پسند اسلامی تحریک اور سماج پر اس کے اثرات ’موضوع پر مہارت حاصل کرنے والا بتایا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ادر مہر کر کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے ‘کرانتی کاری ویر ساورکر کو لےکر ایک نیا نیریٹو دیا، جو کہ انہیں ہندوستان کی قومی سلامتی کامحافظ کے طور پر قائم کرتا ہے۔’
سلیکشن کمیٹی کے ایک ممبر کی جانب سے ڈسینٹ نوٹ
چیف انفارمیشن کمشنر اور تین انفارمیشن کمشنروں کی تقرری میں بے ضابطگی کا الزام لگاتے ہوئے سلیکشن کمیٹی کے ایک ممبر کانگریس رہنما ادھیر رنجن چودھری نے اپناڈسینٹ نوٹ دیا تھا۔ چھ پیج کے اس نوٹ میں سرچ کمیٹی کے کام کرنے کے طریقے سمیت کئی بنیادی باتوں پر سوال اٹھایا گیا ہے۔
چودھری نے اپنے نوٹ میں کہا کہ آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 ایک بےحداہم قانون ہے، جو کہ سرکار میں جوابدہی اور شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔اس لیے انفارمیشن کمیشن میں بڑھتے زیرالتوا معاملوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے اہل انفارمیشن کمشنر کی تقرری کرنا اوراہم کام ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘لیکن جس طریقے سے سرچ کمیٹی نے کام کیا ہے، وہ محض خانہ پری ہے۔ یہ آر ٹی آئی ایکٹ کے بنیادی مقصد کے بالکل برعکس ہے۔ یہ بےحد تشویش ناک ہے کہ سرچ کمیٹی اس بات کی کوئی وجہ یا دلیل نہیں دے پائی کہ کیوں اوروں کے مقابلے شارٹ لسٹ کیےامیدوار زیادہ اہل ہیں۔’
Adhir Ranjan Chowdhury Diss… by The Wire
چودھری نے کہا، ‘سرچ کمیٹی کے ذریعے خارج کیے گئے درخواست گزاروں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ بھی، اگر زیادہ نہیں، تو اتنے ہی اہل ہیں جتنا کہ چنے گئے لوگ۔ سرچ کمیٹی نے چننے یا خارج کرنے میں کوئی معیاریا گریڈنگ کا استعمال نہیں کیا ہے۔’
کانگریس رہنما نے کہا کہ ایسا کرنا فروری، 2019 میں سپریم کورٹ کے ذریعے دیے گئے اس فیصلے کی خلاف ورزی ہے، جس میں انفارمیشن کمشنروں کی تقرری کو شفاف اور جوابدہ بنانے کو کہا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘کل ملاکر یہ پورا عمل جانبدارانہ تھا۔’
مہر کر کی تقرری کو لےکر حیرانی کا اظہارکرتے ہوئے ادھیر رنجن چودھری نے اپنے نوٹ میں کہا ہے کہ آخر ایسا کیسے کیا جا سکتا ہے کہ جس شخص نے درخواست ہی نہ دیا ہو اور اس کی تقرری کی سفارش کر دی ہے۔ ایسا کرنا درخواست منگانے کے پورے مقصد کو ہی ختم کر دیتا ہے۔
اس کو لیےر چودھری نے کہا کہ سرچ کمیٹی کا صدر ہونے کے ناطے کابینہ سکریٹری کو یہ بتانا چاہیے کہ آخر انہوں نے ادے مہر کر کا نام کیوں شارٹ لسٹ کیا، جبکہ یہ بالکل صاف ہے کہ وہ مقتدرہ پارٹی اور اس کےنظریے کے حامی ہیں۔
کانگریس رہنما نے ڈسینٹ نوٹ میں لکھا، ‘کابینہ سکریٹری کو خصوصی وجہ اور ان کے اوپر ڈالے گئے دباؤ کو بتانے کی ضرورت ہے، جس کی وجہ سے بنا درخواست کے ہی انہیں مہر کر کا نام سجھانا پڑا، جو کہ صاف صاف سلیکشن میں جانبداری کو دکھاتا ہے۔’
چودھری نے کہا کہ چونکہ آر ٹی آئی ایکٹ عام آدمی کا قانون ہے، اس لیے سیاسی جانبداری اور محکمہ جاتی بربادی کر اسے کمزور نہیں کیا جا سکتا ہے۔
انفارمیشن کمیشن میں بابو لوگوں کا ہی بول بالا
آر ٹی آئی قانون کی دفعہ12(5)کے تحت قانون، سائنس اور ٹکنالوجی، سماجی خدمات، مینجمنٹ، صحافت، میڈیا، ایڈمنسٹریشن کے شعبوں سے لوگوں کی تقرری بطور انفارمیشن کمشنر کی جانی چاہیے۔حالانکہ مودی سرکارصرف نوکرشاہوں یا بابو لوگوں کو ہی ترجیح دے رہی ہے۔
عالم یہ ہے کہ موجودہ وقت میں سی آئی سی میں چیف انفارمیشن کمشنر سمیت آٹھ انفارمیشن کمشنر ہیں، جس میں سے سات لوگ سابق نوکرشاہ یا سرکار میں کسی نہ کسی عہدے پر کام کر چکےافراد ہیں۔
دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ جولائی، 2020 میں نکالے گئے اشتہار کے جواب میں انفارمیشن کمشنر کے عہدے کے لیے قانون کے شعبے سے 110 لوگوں، سائنس سے سات، سماجی خدمات سے 16، مینجمنٹ سے 37، صحافت سے 23، ماس میڈیا سے 11 اور ایڈمنسٹریشن اور گورننس نے 151 لوگوں نے درخواست دیا تھا۔
حالانکہ سرچ کمیٹی نے چھ اکتوبر 2020 کو ہوئی اپنی بیٹھک میں اس میں سے صرف نوکرشاہوں کے ناموں کی ہی سفارش کی۔
اس مسئلے پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ انفارمیشن کمشنر الگ الگ شعبوں سے ہونے چاہیے، صرف سرکاری بابو نہیں۔ کورٹ نے کہا تھا، ‘ہم ایک عجیب چلن دیکھ رہے ہیں کہ چنے گئے لوگ صرف ایک زمرے (سرکاری اسٹاف)سےآرہے ہیں۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آخر کیسے ایک ہی زمرے کے لوگوں کو ہمیشہ دیگرزمروں کے مقابلےزیادہ اہل اور لائق مانا جا رہا ہے۔’
عدالت نے کہا، ‘یہاں تک کہ امیدواروں کو شارٹ لسٹ کرنے والی سرچ کمیٹی میں بھی صرف نوکرشاہ ہی ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے سلیکشن کے وقت جانبدارہونے کاامکان لازمی ہے۔’کورٹ نے کہا کہ سی آئی سی میں مختلف شعبوں کے لوگوں کو شامل کرنے کے اہتمام کا مقصد ہی یہ تھا کہ دیگر زمروں کو بھی اس میں نمائندگی دی جائےگی۔ یہ سی آئی سی کی عظیم الشان امیج کو دکھائے گا۔
موجودہ اور پہلےکی سرکاروں کی اس بات کو لےکر تنقید ہوتی رہی ہے کہ وہ جان بوجھ کر اس عہدے کے لیےسابق نوکرشاہوں کو چنتے ہیں، کیونکہ ایسے لوگوں کے ساتھ سرکار کو کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے، عام طور پر ان کا جھکاؤ سرکار کو بچانے کے لیے ہوتا ہے اور وہ انفارمیشن دینے سے بچ بھی جاتے ہیں۔
رائٹ ٹو انفارمیشن کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا الزام ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے وقت پر تقرریاں نہیں کرنے کی وجہ سے زیر التوامعاملوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ جب بھی کمیشن میں کوئی عہدہ خالی ہوتا ہے تو جب تک کوئی کورٹ نہیں جاتا ہے، تقرری نہیں ہوتی ہے۔
سی آئی سی میں ایک جنوری 2021 تک کل 38332 معاملےالتوا میں تھے، جس میں سے 32909 اپیلیں اور 5423 شکایتیں التوا میں تھیں۔
Categories: فکر و نظر