سرکار امید کر رہی ہے کہ طبعیاتی اور سماجی دونوں طرح کے بنیادی ڈھانچے پر اس کی جانب سے کیا جانے والا بڑا خرچ نئی آمدنی پیدا کرےگا، جس سے خرچ بھی بڑھےگا۔سرمائی اخراجات میں اس اضافے کا فائدہ 4-5 سال میں نظر آئے گا، بشرطیکہ اس پر صحیح سے عمل ہو۔
نریندر مودی سرکار عالمی وبا سے بدحال معیشت ، جو 2018-19سے ہی نیچے کی طرف گامزن تھی،اس کی صحت میں بہتری کے لیے بازی لگا رہی ہے۔اس کی یہ امیدبنیادی ڈھانچے کے لیے پیسہ اکٹھاکرنے کے لیے بازار سے بڑے پیمانے پرقرض لینے اور تھوک میں پبلک سیکٹر کےانٹرپرائز کی نجکاری اورسڑک، ایئرپورٹ کے علاوہ اضافی سرکاری اراضی وغیرہ جیسےعوامی املاک کی فروخت پرمنحصر ہے۔
اس کویہ امید ہے کہ نئی سرمایہ کاری سے ترقی اور روزگارواپس پٹری پر آ جائیں گے۔شیئر بازار نے بڑے پیمانے پر قرض لینے اور عوامی املاک کے فروخت کی بازی کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن یہ بہت بڑا چیلنج ہوگاکیونکہ ابھی تک سرکار من مطابق قیمتوں پرمنافع کما رہے پبلک سیکٹرکے انٹرپرائزز کے لیےعالمی سطح پر خریداروں کو متوجہ کر پانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔
پچھلے چھ سالوں میں پبلک سیکٹرکے انٹرپرائزز اور سرکاری بینکوں کے شیئروں کی قیمتیں نیچے سے نیچے گرتی گئی ہیں اور نوکرشاہ ان املاک کا واجب دام دینے والے خریداروں کی تلاش میں جدوجہدکر رہے ہیں۔ان میں سے کئی املاک پچھلے سال ہی فروخت کے لیے نمائش میں رکھ دی گئی تھیں، لیکن سرکار فروخت کرنےکے اپنے ہدف سے کافی پیچھے رہ گئی۔
سیاسی طور پر وزیر اعظم مودی نے یہ ماحول بنایا ہے کہ اچھے عوامی اثاثوں کی فروخت، جس میں ایل آئی سی اور کچھ بینکوں کا ڈس انویسٹمنٹ بھی شامل ہے، سرکار کے ‘آتم نربھرتا مشن’ کا حصہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان املاک کو سستے میں فروخت کرنا ‘آتم نربھرتا’ کے برعکس ہے۔
آنے والے سال میں یہ سرکار کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہوگا، کیونکہ معیشت کو واپس پٹری پر لانے کا سارا دارومدار مالی سال2022 میں جی ڈی پی کے 6.8 فیصد کا بڑا قرض اور عوامی اثاثوں کی فروخت پر منحصرہوگا۔
مرکز اور ریاستوں کا مشترکہ قرض جی ڈی پی کاتقریباً 14 فیصدی تک ہو سکتا ہے۔ سرکار یہ امید کر رہی ہے کہ عالمی سطح پر کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں عالمی وبا کے بعد ایسے مالیاتی خسارہ کو لےکر پیدا ہوئی ایک طرح کےمالیاتی اتفاق رائے کےمدنظرصبر وتحمل کا مظاہرہ کریں گی۔
تنخواہ ددار متوسط طبقے کے لیےانکم ٹیکس میں کوئی راحت نہیں دی گئی ہے، جو سیس کے علاوہ 30-35 فیصدی ٹیکس دیتا رہےگا، جبکہ کارپوریٹ سیکٹر25 فیصدی ٹیکس ہی دیتا ہے۔اگر2019 کے اواخر میں کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ٹیکس میں کی گئی بھاری کٹوتی کے ساتھ ملاکر دیکھیں، تو یہ بجٹ پچھلی کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ بزنس دوستانہ بجٹ ہے۔
کم ٹیکس اور سستے پیسے کی مدد سے کارپوریٹ سیکٹر کی بیلنس شیٹ کو کافی فائدہ ہوا ہے، کیونکہ اس نے ان کے انٹریسٹ کی لاگت کو کافی کم کر دیا ہے۔ ان میں سے کئی بڑھا ہوا منافع دکھا رہے ہیں۔ لیکن بہتر بیلنس شیٹ کا نتیجہ زیادہ بحالیوں اور روزگار کے بہتر امکانات کے طور پر نہیں نکلا ہے۔
اس کے الٹ کارپوریٹ سیکٹر نوکریاں گھٹا رہا ہے اور لاک ڈاؤن کے وقت گئے مزدوروں کو کام پر واپس نہیں لے رہا ہے۔ ایسے میں اس میں کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ صرف کمپنی کی بیلنس شیٹ سے واسطہ رکھنےوالے شیئر بازار نے بجٹ کو لےکر زبردست جوش دکھایا ہے۔
لیکن عالمی وبا شروع ہونے کے ساتھ ہی گھریلو بیلنس شیٹ بری طرح سے متاثر ہوا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عالمی وبا کےآغازسے پہلے کے سالوں میں یہ کمزور ہوتی گئی تھی۔پچھلے آٹھ سالوں میں گھریلو بجٹ کی شرح میں جی ڈی پی 5 فیصد کی کمی آئی۔ ماہرین اقتصادیات یہ اہم سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر لوگ خرچ نہیں کریں گےتو اگلے دو سالوں میں کل مانگ میں اضافہ کیسے ہوگا؟
انہیں پہلے اپنے کھوئے ہوئے بچت کو وصول کرنا ہے۔ اس کے بعد ہی وہ خرچ کرنا شروع کریں گے۔سرکار یہ امید کر رہی ہے کہ طبعیاتی اور سماجی دونوں طرح کے بنیادی ڈھانچے پر اس کی جانب سے کیا جانے والا بڑا خرچ نئی آمدنی پیدا کرےگا جس سے خرچ بڑھےگا۔
سرمائی اخراجات میں اس بڑے اضافہ (34 فیصدی) کا فائدہ 4-5 سال میں دکھائی دےگا، بشرطیکہ اس پر صحیح سےعمل ہو۔ ان منصوبوں کے آگے بڑھنے کے لیے ریاستوں اورمرکز کے بیچ سیاسی معیشت سے متعلق تناؤ کا نرم پڑنا بھی لازمی ہے۔
آج مرکز اور ریاست کے بیچ بڑھ رہی بھروسے کی کمی منصوبوں کے عمل درآمد میں مشکلیں پیدا کرتی ہیں۔کل ملاکر نوٹ بندی کے بعد سے ہندوستانی معیشت میں آئی اسٹرکچرل گراوٹ اور کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ بے روزگاری تناسب کو اتنی جلدی درست نہیں کیا جا سکتا ہے۔
سی ایم آئی آئی کے اعدادوشماردکھاتے ہیں کہ ہندوستان میں لیبر فورس سے باہر رہنے والے روزگار کےلائق مزدوروں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو رہا ہے۔
مزدوروں کی شرکت کا تناسب جو کل قریب1ارب کے روزگار لائق لیبر فورس میں نوکری تلاش کر رہے لوگوں کا فیصدہے نیچے گرکر 44 فیصدی پر آ گیا ہے، جبکہ مشرقی ایشیا کے دیگر موازنہ کے لائق معیشت میں یہ تناسب 60 سے 66 فیصدی کے بیچ ہے۔
یہ وہ اسٹرکچرل مسائل ہیں، جن کا حل آنے والے کچھ سالوں میں کیے جانے کی ضرورت ہے۔ جب آئی ایم ایف یہ کہہ رہا ہو کہ کووڈ سے پہلے کے پروڈکشن کی سطح کے لوٹنے میں ہندوستان کو تین سال کا وقت لگ سکتا ہے، تو کوئی یہ پکے طور پر نہیں کہہ سکتا ہے کہ آخر روزگار کے مواقع میں تیزی کیسے آئےگی؟
کیا یہ بجٹ ہندوستان کی معیشت کو مضبوط’ وکاس’ کی پٹری پر واپس لا سکتا ہے، یہاں اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے۔
یہ کئی عوامل پر منحصر کرتا ہے اور ان میں سرکار کی جانب سے کی جانے والی تقسیم کاری سیاست کی روزانہ کی خوراک بھی شامل ہے۔ کئی اہم ماہرین اقتصادیات کی اس بات کو مت بھولیے کہ تقسیم کاری سماجی پالیسی متوازن اقتصادی ترقی میں مددگارنہیں ہوتی ہے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر